Baseerat Online News Portal

صحرائے قرطاس وقلم کا مسافر مفتی اعجاز ارشد کا سانحہ ارتحال

 

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

 

گذشتہ کل 17/اپریل 2021/بروز سنیچر وشام میں موبائل کھولا تو بڑی دلدوز اور المناک خبر نگاہوں کے سامنے آئی کہ صحافت کی دنیا کا روشن ستارہ، جد وجہد اور حرکت وعمل کا استعارہ مفتی اعجاز ارشد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں وبا ئی حملوں کی ہولناکیوں اور دہشتناکیوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ جس علاقے میں یہ امراض پھیل جاتے، موت وتباہی اور ویرانیوں کا پورا سامان پیدا کرجاتے،کچھ اسی طرح کی صورتحال اس ترقی یافتہ عہد میں بھی ہمارے سامنے ہے،کہ اچھے خاصے،صحت مند اور توانا افراد معمولی مرض کا شکار ہوتے ہیں اور صحیح نگہداشت، بروقت ٹریٹمنٹ، درست علاج کے فقدان کی وجہ سے لمحوں میں وہ لقمہ اجل بن جاتے ہیں، موت کا رقص ہے کہ پورے شباب پر ہے۔

 

مفتی اعجاز ارشد صاحب مرحوم بھی ابھی صحت مند تھے، راہ حیات میں شباب کی منزلوں میں تھے جہاں عزم جوان،ہمتیں فلک رسا، جذبات بیکراں،اور امنگیں اور ولولے تازہ رہتے ہیں، انہیں روز مرہ پیش آنے والے زکام و بخار آیا ہاسپٹل آئے اور چند روز میں راہی آخرت ہوگئے

ان کی رحلت سے ہر طرف افسردگی چھا گئی، خصوصا طلباء علوم اسلامی کی نوجوان نسل ان کی فرقت سے تڑپ کر رہ گئی، حرکت وعمل کی ایک کائینات تھم گئی، نوجوانوں کی ترقی و تعمیر کی ایک مشعل تھی جو گل ہوگئی، تعلیم وتحقیق اور عصری درسگاہوں سے فیض اٹھانے کا طریقہ اور ہمت عطا کرنے والا نور کا ایک مینار تھا جو زمین بوس ہوگیا، ضلع مدھوبنی سے لیکر دہلی تک پسماندگی کے سمندر میں علمی عروج ،تعلیمی ترقی اور معاشی ارتقاء کی طرف لے جانے والی ایک کشتی تھی جو وقت کی سفاک اور سازشی موجوں کی نذر ہوگئی۔

 

اس دنیا میں مخلوقات کا وجود اس کے عدم کی علامت ہے،انسان کا یہاں آنا اس کے جانے کی تمہید ہے، لیکن اس قدر تیز رفتاری سے انسانوں کا رخصت ہونا اور خاص طور سے اہل علم اور اہل فکر ونظر کی رحلت سے دل کی دنیا میں خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے،طبیعت اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے، وجود میں کیف ونشاط اور چستی وتازگی عطا کرنے والے عناصر اور داخلی وخارجی عوامل بے جان ہوجاتے ہیں، ابھی ملت اسلامیہ کے عظیم قائد مولانا ولی رحمانی صاحب کی مفارقت کا زخم تازہ تھا،مولانا صہیب احمد صاحب قاسمی جونپوری کے انتقال کے صدمات کی بدلیاں ذہن پر چھائی ہوئی تھیں، ہمارے کرم فرما اور خطۂ اعظم گڈھ کی شخصیت حافظ مفید احمد صاحب کے سانحہ ارتحال کے درد وکرب سے ذہن ودماغ نکل نہیں پایا تھا کہ مفتی اعجاز ارشد صاحب قاسمی بھی اس دنیا کو الوداع کہ کر دل کے زخم کو تازہ کرگئے۔

 

مفتی اعجاز ارشد صاحب کی زندگی ان لوگوں میں سے تھی جن کی لغت میں مایوسیوں،اداسیوں اور امیدوں سے محروم کرنے والے تصورات کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، جو حالات کی نامساعدت کے باوجود اپنے مشن کی طرف رواں دواں رہتے ہیں، مفتی صاحب مرحوم کی زندگی بھی اسی عمل اور اسی کردار کا آئینہ تھی جس کا ذکر اوپر ہوا ھے،

 

ان کی پشت پر کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ نہیں تھا،کسی ادارے کی رہنمائی یا معاونت نہیں تھی ۔ہاں جذبات کی ایک وسیع دنیا ضرور موجود تھی،عزم وہمت کے عناصر سے ان کا قلب معمور تھا، ان کے وجود میں ولولوں اور حوصلوں کا ایک جزیرہ ضرور تھا جس کی بدولت انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں فضیلت کے بعد ہی عام ماحول سے ہٹ کر صحافت کی وادی میں قدم رکھا اور اس کے پیچ وخم اور نشیب وفراز سے اس قدر واقفیت حاصل کی اور اس کے اسرار و رموز اور أصول وضوابط کے بارے میں اس طرح آگہی حاصل کی کہ صحافت کے موضوع پر،،من شاہ جہانم،،

کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب تیار کردی، یہ کتاب توقع سے کہیں زیادہ مقبول و مشہور ہوئی، مدارس کے طلباء کے لئے صحافت اور قرطاس وقلم سے آشنائی کے لئے ایک مشعل ہاتھ آگئی جس کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کے طبقے نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، جس وقت یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی اس وقت راقم الحروف دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھا ،اسی کتاب کی وجہ سے پہلی بار مفتی صاحب کی شخصیت سے واقفیت ہوئی۔

 

یہ امر واقعہ ہے کہ اس کتاب نے طلباء کو مضمون نگاری اور صحافت کی طرف ابھارا، اس میدان کی طرف قدم اٹھانے کا رجحان پیدا کیا، حالات حاضرہ پر تحلیل و تجزیہ اور نقد وتبصرہ کا مزاج اور سلیقہ پیدا کیا،اور اچھی خاصی نوجوانوں کی تعداد اس فانوس کی روشنی میں دوسرے عصری اداروں میں جاکر فکر اسلامی کے ترجمان بن گئے،

مفتی صاحب مرحوم کی زندگی میں جس طرح قابل رشک سرگرمیوں اور اپنے ہدف کے حصول میں محنت وریاضت کے نقوش ملتے ہیں یقینا وہ ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں جنہیں یہ شکایت رہتی ہے’کہ حالات کی ناہمواریوں نے ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا

یا زندگی کے کارواں کو ماحول کے جبر نے ارتقائی راہوں پر گامزن نہ ہونے دیا۔

 

مفتی اعجاز ارشد صاحب مرحوم ضلع مدھوبنی کی زرخیز بستی چندر سین پور میں پیدا ہوئے،ابتدائی اور مکتبی تعلیم مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں دربھنگہ سے حاصل کی،اور دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی

ذہن تیز اور ثاقب تھا، مشاہدات کی قوت وسیع اور گہری تھی، دماغ جدت طراز اور اخذ واکتساب کی استعداد سے مالامال تھا،ان خوبیوں کے سہارے آپ نے دارالعلوم دیوبند ہی میں حرکت وعمل کی بنیاد رکھ دی اور پورے مدھوبنی ضلع کی تعمیر وترقی کے مشن کے پیش نظر اسٹوڈینس اسلامک فیڈریشن مدھوبنی کی تنظیم بنائی اور اتفاق رائے سے آپ صدر ہوئے اور ہمارے دوست محترم مولانا غفران ساجد صاحب جنرل سیکرٹری متعین ہوئے، اس تنظیم کے تحت فر اغت کے بعد آپ نے علاقوں میں تعلیم کی طرف لوگوں کو ابھارا، ہنگامی دورے کئے، بے شمار اجلاس اور میٹنگیں کیں، اور مشن کے کامیابی کے لئے شب وروز ایک کردئیے،

ان کی سرگرمیوں،قربانیوں اور مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں خوشگوار اثرات خطوں اور علاقوں پر مرتب ہوئے۔

ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی تعمیر وتہذیب اور تعلیمی حوالے سے ان کی ترقی سے متعلق مذکورہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب نے خود اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، انھوں نے فضیلت کے معا بعد شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند میں صحافت کی تعلیم لی بعد ازاں ہفت روزہ نئی دنیا کے ادارے میں صحافیانہ تربیت اور اس کے قوانین وضوابط سے واقفیت حاصل کی یہاں تک کہ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند میں شعبہ انٹرنیٹ میں ویب ایڈیٹر کی حیثیت سے تقرر ہوا، اس جدید وسائل کے ذریعے دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے فکری نظری اور اصلاحی پیغامات کی ترسیلات آپ کے ذریعے عمل میں آئیں،اور علم وصحافت کی دنیا میں آپ کی ذات دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان کی حیثیت سے معروف ہوئی۔

 

لیکن کچھ عرصہ بعد مفتی صاحب نے علمی،وملی کاز کے باعث دہلی میں مستقل سکونت اختیار کی،یہاں اسلامک پیس فا ؤنڈیشن آف انڈیا کے نام سے تنظیم کی بنا ڈالی، جس کے ذریعے آپ نے دینی و عصری علوم کے حصول کی راہوں کو ہموار کرنے میں اہم رول ادا کیا، اس کے علاوہ اس پلیٹ فارم سے ملی،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی آپ نے حصہ لیا

دہلی میں مذکور خدمات اور مشغولیت کے باوجود آپ کے تعلیمی جذبات سرد نہ ہوسکے اور اعلی تعلیم کی طرف آپ کے قدم بڑھتے گئے،چنانچہ جامعہ ملیہ سے آپ نے گریجویشن کیااور جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

 

مفتی صاحب مرحوم کے اخلاص،سوز دروں،ملی وقومی فکر وتڑپ، جذبۂ صادق، جہد مسلسل، عمل پیہم ہی کو دیکھ ملک کی سب سے بڑی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارباب حل وعقد نے انہیں 2012تنظیم کا رکن مقرر کیا،اور اس پلیٹ فارم سے بھی آپ ہمیشہ کی طرح سرگرم اور پارے کی طرح متحرک رہے۔

 

اس روئے زمین سے روزانہ بے شمار لوگ عدم کے پردے میں جاتے ہیں مگر جب اس طرح کے لوگ رخصت ہوتے ہیں جن کی ذات سے ایک عہد اور ایک تاریخ وابستہ ہوتی ہے، تو ہر طرف سوگواری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔مفتی صاحب کی رحلت کی وجہ سے طبیعت اسی طرح کے بے کیف اور سوگوار ماحول میں گذر رہی ہے،اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو انوار سے معمور کردے آمین۔

 

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

مسجد انوار گوونڈی ممبئی

 

Comments are closed.