Baseerat Online News Portal

صدقۃ الفطر کے مسائل اورمقدار کے تعلق سے ضروری گزارش

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند

حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا: صدقۃ فطر، روزہ دار کو لغو اور بیہودہ کاموں سے پاک کردیتا ہے اور مسکینوں کا کھانا ہے پس جو شخص عید کی نماز سے پہلے ادا کردے تو یہ مقبول صدقہ ہے اور جو اس کو نماز کے بعد ادا کرے تو یہ محض صدقہ ہے (ابوداؤد حدیث نمبر : ۱۶۰۹)حدیث سے صدقہ فطر کا دو مقصد معلوم ہوتاہے ایک تو یہ کہ روزہ میں جو کمی ہوتی ہے صدقہ فطر کے ذریعہ اس کی تلافی ہوتی ہے، دوسرے عید کے دن مسکین اور ضرورت مندوں کی ضرورت کی پابجائی ہوتی ہے ، اور غریب و مسکین بھی خوشی و مسرت کے ساتھ فارغ البال ہو کر عید کی خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں ۔اس لیے کہ عید کا پیغام اجتماعیت کا ہے جب سب لوگ خوشی میں شریک ہوں گے تو اجتماعیت کا اظہار ہوگا لیکن ایک گھر سے مختلف قسم کی خوشبو آرہی ہو اور دوسرے گھر کے چولہے میں راکھ پڑی ہو تو ظاہر ہے اجتماعی خوشی کا احساس نہیں ہوگا؛ اس لیے عید کے دن خاص طور پر یہ صدقہ رکھا گیا ہے ۔
صدقہ فطر صاحب نصاب آزاد مسلمان پر واجب ہے ، زکوۃ اور صدقہ فطر کا نصاب ایک ہی ہے البتہ صدقہ فطر اور زکوۃ کے نصاب کے دو فرق ہے ایک یہ ہے کہ زکوۃ کے نصاب کا نامی (بڑھنے والا)ہونا ضروری ہے جب کہ صدقہ فطر کے نصاب کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اور زکوۃ کے مال پر سال کا گزرنا شرط ہے جب کہ صدقۃ الفطر کے مال پر سال کا گزر نا شرط نہیں ہے ،اگر کوئی عید کے صبح صادق سے پہلے بھی نصاب کے بقدر مال کا مالک ہوگیا تواس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ جو مال حاجب اصلیہ سے زائد ہو لیکن وہ مال تجارت نہ ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ نصاب کے بقدرتو اس کی بنیاد پر صدقہ فطر واجب ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کے پاس دو مکان ہے ایک میں وہ رہتا ہے اور دوسرا مکان اس کی ضرورت سے زائد ہے تواس دوسرے مکان پر زکوۃ فرض نہیں ہوگی لیکن اس دوسرے مکان کی وجہ سے وہ شخص مال دار مانا جائے گا اور اس پر صدقہ فطر واجب ہوگی ۔صاحب ہدایہ لکھتے ہیں : صدقۃ الفطر واجبۃ علی الحر المسلم اذا کان مالکا لمقدار النصاب فاضلا عن مسکنہ و ثیابہ (ہدایہ ۱/۳۳۱)
صدقہ فطر اپنی طرف سے اور اپنے نابالغ اولاد کی طرف سے لازم ہے ،عورت کا صدقہ فطر شوہر پر لازم نہیں ہے، اسی طرح بالغ اولاد کا صدقہ فطر باپ پر لازم نہیں ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کی ملکیت علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ جو کچھ بھی ہوتا ہے شوہر کے پاس ہوتا ہے اس لیے شوہر کو اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا چاہیے اور عورت کو اس کی اطلاع دینی چاہیے تاکہ اس کی طرف سے اجازت کا تحقق ہوجائے ۔اسی طرح بالغ لڑکے بھی عام طور پر باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوتے ہیں یا باپ کی پرورش میں ہوتے ہیں اس لیے باب کو اپنے بالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالنے کا اہتمام کرنا چاہیے ۔قال یخرج ذلک عن نفسہ و یخرج عن واولادہ الصغار وممالیکہ و لایؤدی عن زوجتہ و لاعن اولاد ہ الکبار و ان کانوا فی عیالہ لانعدام الولایۃ ولو ادی عنہم أو عن زوجتہ بغیر امرہم اجزاہم استحسانا ( ہدایہ /۳۳۲۱)
صدقہ فطر کے وجوب کا سبب عید الفطر ہے اسی وجہ سے اس کو صدقہ فطر کہا جاتا ہے؛ اس لیے جو شخص عید الفطر کے صبح صادق کے وقت نصاب کے بقد رمال کا مالک ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، اسی طرح جو بچہ عید الفطر کے صبح صادق سے پہلے پیدا ہو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر واجب ہے ،مستحب یہ ہے کہ عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا جائے تاکہ غرباء ومساکین بھی اپنی ضرورت کا نظم کر کے عید کی نماز کے لیے جاسکے ، بلکہ بہتر ہے کہ ایک دو دن پہلے نکال دے ، علماء نے پورے رمضان میں صدقہ فطر نکالنے کی اجازت دی ہے ۔لیکن اگر کسی نے عید الفطر کے دن بھی صدقہ فطر ادا نہیں کیا تو اس کا وجوب ساقط نہیں ہوگا؛ بلکہ عید کے بعد بھی اس کو نکالنا ضروری ہوگا ۔وجوب الفطر یتعلق بطلوع الفجر من یوم الفطر -والمستحب ان یخرج الناس الفطرۃ یوم الفطر قبل الخروج الی المصلی ، وان اخروھا عن یوم الفطر لم یسقط ( ہدایہ ۱/۳۳۶)
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے مصارف ہیں ، جن کو زکوۃ دینا جائز ہے ان کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے،غیر مسلموں کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے تو ان کو صدقہ فطر بھی دینا جائز نہی ہے ۔ مسجد میں جس طرح زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے اسی طرح صدقہ فطر کی رقم بھی مسجد میں دینا جائز نہیں ہے، صدقہ فطر میں گیہوں یا کھجور کشمش وغیرہ دے سکتے ہیں یا اس کی قیمت دے سکتے ہیں اسی طرح اس قیمت سے کوئی سامان خرید کر بھی مستحق کو صدقہ فطر میں دیا جاسکتا ہے مثلا کپڑا یا کھانے کی کوئی چیز بھی صدقہ فطر میں دے سکتے ہیں ۔
صدقہ فطر غیر مسلموں کو دینا درست ہے یا نہیں ہے ؟اس میں فقہاء میں اختلاف ہے ، ہندوستان میں بھی بعض ارباب افتاء نے غیر مسلموں کو صدقہ فطر دینے کی اجازت دی ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کو صدقہ فطر نہ دیا جائے۔ لیکن مسلمان جس طرح رمضان میں زکوۃ، صدقات نکالتے ہیں اور وہ صرف مسلمانوں کو دیتے ہیں اس سے ملکی سطح پر یہ تاثر جاتا ہے کہ مسلمان صرف اپنی قوم کے لیے سوچتے ہیں ،اس لیے اگر صدقہ فطر مسلمانوں کے دیا جائے اور اسی کے بقدر نفلی صدقہ سے غیر مسلموں کی مدد کی جائے تو رمضان میں نفلی صدقات کا ثواب بھی ملے گا اور برادران وطن جو محتاج ہیں اور بسا اوقات ہمارے پڑوسی ہوتے ہیں ان کی مدد بھی ہوجائے گی ۔
ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمی کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دیا جاسکتا ہے ، جس شخص نے رمضان کے روزے نہیں رکھے ہیں لیکن وہ صاحب نصاب ہے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے ۔ گھر میں جو نوکر کام کرتے ہیں یہ غلام کے درجہ میں نہیں ہوتے ہیں؛ اس لیے اس کی طرف سے مالک پر صدقہ فطر نہیں ہے تاہم اگر مالک اس کی طرف سے بھی نکال دے تو بہتر ہے ۔
اگر کوئی شخص ملازمت کے لیے کسی دوسرے ملک میں ہو اور صاحب نصاب ہو اور وہ صدقہ فطر اپنے ملک میں ادا کرنا چاہتا ہے تو جس ملک میں رہتا ہے وہاں پر صدقہ فطر کی جو مقدار ہے یعنی نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور کی جو قیمت اس ملک میں ہے اتنا پیسہ وہ اپنے ملک میں ادا کرسکتاہے ۔مثلا کوئی شخص سعودی میں رہتا ہے تو سعودی میں صدقہ فطر کی جو مقدار ہے مثلا وہاں پر ایک صاع کجھور کی قیمت پچاس ریال ہے تو وہ پچاس ریال سے صدقہ فطر ادا کرے گا۔ اب پچاس ریال کی جو قیمت ہندوستا ن میں ہو اتنے پیسے وہ ہندوستان میں ادا کرے گا والمعتبر فی الزکاۃ مکان المال وفی الوصیۃ مکان الموصی و فی الفطرۃ مکان المؤدی عند محمد و الاصح و أن رؤسہم تبع لرأسہ ( درمختار ۲/ ۳۵۵)
صدقہ فطر کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ مقدار کا ہے ، کہ صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے ؟ اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں: ایک حدیث حضرت ابوسعید خدری کی ہے کہ ہم لوگ ایک صاع غلہ ،یا ایک صاع پنیریا ایک صاع جو ،یا ایک صاع کھجوریا ایک صاع کشمش حضور ﷺ کے زمانے میں نکالتے تھے (ابوداؤد حدیث نمبر : ۱۶۱۶) ایک حدیث حضرت ابن عباس کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا نصف صاع گیہوں کو متعین فرمایا پھر ایک مرتبہ حضرت علی تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اب وسعت دے دی ہے کیا ہی بہتر ہو کہ تم ہر چیز سے ایک صاع نکالو ، (ابوداؤد حدیث نمبر : ۱۶۲۲) )ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے مکہ کی گلیوں میں اعلان کرایا کہ صدقہ فطر دو مد ( نصف صاع )گیہوں ہے اور ایک اس کے علاوہ غلہ سے ایک صاع ہے ( ترمذی حد یث : ۶۷۴) ) اسی طرح ایک روایت حضرت ابوہریرہ کی ہے جس میں ایک صاع گیہوں کا تذکرہ ہے ۔ان تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ کہ گیہوں کے علاوہ جن چیزوں کاحدیث میں تذکرہ آتا ہے ، مثلا کشمش ، کھجور ، جو ، پنیریہ سب بالاتفاق ایک صاع (ساڑھے تین کیلو) نکالنا ہے ، اور گیہوں کے سلسلے میں بعض روایت میں ہے کہ ایک صاع اور بعض میں نصف صاع کا تذکرہ ہے ، احناف نے نصف صاع ( پونے دو کلو ) کو ترجیح دی ہے ،باقی ائمہ تمام چیزوں کی طرح گیہوں میں بھی ایک صاع کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ایک دوسری چیز یہ سمجھنے کی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں گیہوں ،کجھور کے مقابلہ میں بہت مہنگا تھا اس لیے کہ گیہوں باہر سے آتا تھااور کجھور کی پیدار مدینہ میں ہوتی تھی ، اس لیے کجھور سے ایک صاع اور گیہوں سے نصف صاع نکالنے کے لیے کہا گیا ۔اب صورت حال بدل گئی ہے گیہوں کی قیمت کجھور کے مقابلہ میں بہت کم ہے ۔
موجودہ حالات میں ہمارے یہاں جس طرح گیہوں کی قیمت طے کرکے نکالنے کا رواج دیا گیا ہے وہ بالکل بھی درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ فقہاء نے ہمیشہ فتوی دینے میںا نفع للفقراء کی رعایت کی ہے ، ظاہر ہے کہ نصف صاع گیہوں ( پونے دو کیلو) نکالنے میں فقراء کا نفع نہیں ہے ، صدقہ فطر کا مقصد ہے کہ کم از کم عید کے دن فقراء مانگنے سے بے نیاز ہو کر فارغ البارلی کے ساتھ عید کی نماز میں شریک ہوسکیں ،ظاہر ہے کہ اگر صدقہ فطر تیس چالیس روپیہ نکالا جائے گا تو ایک آدمی کے صدقہ فطر سے ایک فقیر کے ایک دن کی بھی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی ہے ۔دوسری طرف تمام فقہاء ایک صاع گیہوں کے قائل ہیں صرف امام ابوحنیفہ ؒ نصف صاع کے قائل ہیں ظاہر ہے کہ اگر نصف صاع گیہوں سے نکالا جائے تو اس کا یہ صدقہ فطر متفق علیہ طور پر ادا نہیں ہوگا بلکہ امام صاحب کے مطابق ادا ہوگا لیکن اگر ایک صاع گیہوں سے نکالا جائے تو متفق علیہ طور پر ادا ہوگا ۔عبادات میں احتیاط یہی ہے کہ اس پہلو کو لیا جائے جس سے متفق علیہ طور پر عبادت درست ہوجائے ۔غور کیا جائے تو شریعت کا منشاء نہ مالداروں کو مشقت میں ڈالنا ہے اور نہ ہی فقراء کی ضرورت کو نظر انداز کرنا ہے اسی وجہ سے کجھور و کشمش سے ایک صاع کہا گیا تھا اور گیہوں سے نصف صاع کہا گیا تھا اب جب کہ گیہوں کی قیمت کھجور کے مقابلہ میں بہت کم ہے تو گیہوں سے نکالنا اور وہ بھی نصف صاع یہ فقراء کی حق تلفی ہے ۔
موجودہ صورت میں بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام روایات کو سامنے رکھ کر یہ کہا جائے کہ کھجور اور کشمش آج کل تین سو روپے ہیں جس سے صدقہ فطر اگر قیمت سے نکالیں تو ایک ہزار رپچاس روپیے ہوتے ہیں ، اور عمدہ گیہوںکی قیمت تیس روپیہ ہے اس سے اگر ایک صاع نکالیں تو ایک سو پندرہ روپیے ہوتے ہیں ، اور نصف صاع کی قیمت (۵۸) روپئے ہوتی ہے ۔ اگر اس کو اس طرح تقسیم کرلیا جائے سرمایہ دار حضرات کھجور اور کشمش سے صدقہ فطر کریں اور درمیانی قسم کے لوگ ایک صاع (ساڑھے تین کلو ) گیہوں کی قیمت سے ادا کریں اور اس سے بھی کم زور لوگ نصف صاع ( پونے دو کلو )کی قیمت سے ادا کریں تو اس طرح تمام روایات پر عمل بھی ہوگا ،اورشریعت کا منشاء اور فقرا کی ضرورت بھی پوری ہوگی ۔ جو رائے میں نے ذکر کی ہے یہ کوئی نئی نہیں ہے بہت سے حضرات اس سلسلے میں لکھ چکے ہیں لیکن اس سلسلے میں ایک کوتا ہی ہمارے ملی اداروں یا ہر شہر کی مرکزی مسجد کی طرف سے بھی ہوتی ہے وہ لوگ صرف یہ لکھ دیتے ہیں یا اعلان کردیتے ہیں کہ صدقہ فطر چالیس روپیہ ادا کریں اس طرح ہر شخص اسی کو یاد کرکے اسی حساب سے نکالتا ہے اگر اداروں اور مسجدوں کی طرف سے اس طرح اعلان کیا جائے کہ کجھور اور کشمش سے ایک ہزار روپیہ اور ایک صاع گیہوں سے ایک سو روپیہ اور نصف صاع گیہوں سے پچاس روپیہ ادا کریں تو بہت سے لوگ پہلی اور دوسری قیمت کو دیکھ کر بھی نکال سکتے ہیں ، خاص کر ایک صاع گیہوں کی قیمت نکالنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ صدقہ فطر کے نکالتے وقت اس پہلو پر ضرور غور و غور کرنا چاہیے ۔

Comments are closed.