Baseerat Online News Portal

صرف2منٹ کی اذان سے اتنی تکلیف؟

اذان ساری انسانیت کے لیے،سلامتی وفلاح کی آواز ہے!!
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور
ہمارا پیارا ملک ایک جنت نشان ملک تھا،’’اب نہیں رہا؟‘‘ چاروں طرف سے اقلیتوں خصو صاً مسلمانوں کوہرچہار جانب سے نت نئے طریقے سے پریشان کیا جارہا ہے۔15 مئی2020الہٰ آ باد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا،’’لائوڈ اسپیکر سے اذان دینا اسلام کا حصہ نہیں‘‘ لاٗوڈاسپیکر سے اذان دوسرے لوگوں کے حقوق میں مداخلت کر تا ہے۔ یہ حکم جسٹس ششی کانت گپتا اور جسٹس اجیت کمار کے ڈویژن بنچ نے دیا ہے، غورو فکر کریں اور عملی اقدام کریں؟،یادرہے ان مساجد میں اذان پر پابندی عائد کی گئی ہے جن لوگوں نے مائک سے اذان کی پر میشن نہیں لی ہے اور وہ بھی صرف فجر کے وقت، رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک، جن مساجد نے مائک سے اذان کی پر میشن لے رکھی ہے ان مساجد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس فیصلے کا۔ تو ہمیں’’ مسلمانوں‘‘ کو اپنی غلطی کا احساس کر نا چاہیے،اور جلد سے جلد تمام مساجد کے مائیک کا رجسٹریشن کی کوشش کرنی چاہیے۔توجہ دیں۔جن مساجد کے ذمہ داران نے ابھی تک رجسٹریشن نہیں کرایا ہے وہ جلد ازجلد رجسٹریشن کرائیں،ورنہ اگلا مقدمہ اسی پر ہوگااور وہاں بھی ہماری ہی غلطی ہوگی اور جب ہم غلط ہوں گے تو فیصلہ کہا ں سے ہمارے حق میں آجائے گا۔؟؟؟۔صرف مسجد کا صدر،سکریٹری بننے سے نہیں ہو گا عملی طور پرکام کرنا ہوگا۔
بچپن سے مسجدوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر،کی صدائیں اور حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ کی آوازیں سنتا رہا ہوں اور مندروں سے بھی گھنٹیوں کی مدُھر آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں،اذان کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وَاِذَا نَا دَیْتُمْ اِ لَی الصَّلٰوۃِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔( القر آن، سورہ،مائدہ،5:آیت58)
تر جمہ: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا ہنسی مذاق اور کھیل بنالیتے ہیں۔یہ اس لئے ہے کہ وہ بالکل بے عقل لوگ ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوا نماز پنج گانہ کے لئے اذان دیناضروری ہے،دینی چیزوں کا مذاق اُڑانے والے احمق (بے وقوف، نادان، جاہل،) وبے عقل ہیں جو ایسی جاہلانہ حر کات کرتے ہیں۔ زمانہ بدلا قدریں بدلیں اور سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی سے لیکر عبادات تک میںاپنا سکہ جمالیا اور دن بدن لوگ مذہب سے لیکر زندگی کے ہر شعبے میں اس کے عادی،غلام بنتے جارہے ہیں،تفصیل لمبی ہے پھر کبھی۔ غالباً1970یا1972 کی بات ہے کہ راقم،قصبہ مورانواں،ضلع،اُنائو،یوپی کے مدرسہ ضیا ء ا لاسلام’’جو راقم کا آبائی وطن ہے‘‘ میں زیر تعلیم تھا تب ہی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد قاسم خان مصباحی صدرِ اعلیٰ مدرسہ ضیاء ا لاسلام و جامع مسجد و یتیم خانہ وعید گاہ، مورانواں اور محمد ایوب ممبر ٹونیریا، حضرت مولانا بدر عالم بدر القادری حال مقیم امسٹرڈم ہالینڈ اور ناچیز لکھنئو امین آ باد پہنچے(جامع مسجد کے لیے مائک خرید نے کے لیے) امین آ باد ونظیر آباد کی کئی دکانوں میں لائوڈ اسپیکر کی خرید داری کے لیے دیکھا دیکھی کی گئی اخیر میں آہوجاAHUJA کے شو روم پنجاب گراموں فون ہائوس سے2350 کا250,v کا ایم پلی فائر6 ہارن جامع مسجد مورانواں کے لیے خریدا گیا200 کم کرانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن کم نہیں کیا، جب ہم لوگ مائک سیٹ لے کر باہر نکلے چند قدم چلنے پر دوکان کا مالک(نام یاد نہیں رہا) دوڑتے ہوئے آئے اُنھوں نے کہا کہ ہم لو گوں کی ایشوسیشن ہے اس میں یہ طے ہے کہ ایک لمٹ کے بعد ریٹ کم نہ کیا جائے تو میں مجبور تھا۔ یہ لیجئے دوسو رو پئے میری طرف سے مسجد کے مائک کے لیے،حضرت مولانا ڈاکٹر محمد قاسم خان مصباحی صاحب نے بہت پیار سے سمجھایا کہ ہم لوگ مسجد میں دوسری قوم کا پیسہ مسجد میں نہیں لگاتے،وہ اس بات سے بہت متاثر ہوا۔رمضان المبارک میں مولانا بدر عالم نے سحری کا پروگرام ’’نورٌ علیٰ نور‘‘ کے نا م سے شروع کیا جو بہت سالوں تک چلااب چلتا ہے کہ نہیں معلوم نہیں؟ مدرسہ ضیاء الاسلام ویتیم خانہ جو تقریباً سو سال پرانا ہے اور عید گاہ, ہر ماہ یتیم و بیو گان کو اعلان کرکے بلایا جاتا تھا کہ اپنا اپنا حصہ آکر لے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
*مسجد کا مائک اوررِفاہی کام:*
آج بھی مسجد کے مائیک سے بہت سے رفاہی(قوم کی بھلائی) کے اعلانات ہوتے ہیں، گور منٹ ڈپارٹمنٹ کے لوگ آتے ہیں کہ بچوں کو پولیو ڈراپ پلانا ہے اعلان کردیں فلاں مقام پر لوگ آجائیں، ٹراسفر مر لگایا جارہا ہے لوگ اپنی اپنی لائن بند کر لیں، نہایت ہی افسوس کے ساتھ اعلان کیا جارہا ہے کہ فلاں صاحب کا اِنتقال پر ملال ہو گیا ہے،فلاں مسجد میں جنازہ کی نماز،فلاں قبرستان میں سپردِ خاک کیا جائے گا، الیکشن آئی ڈی بن رہی ہے فلاں جگہ جاکر بنوالیں،ہاتھی آیا ہوا ہے آپ لوگ گھروں کی بتیاں جلا لیں، اتنے سال کا بچہ فلاں رنگ کا کپڑا پہنا ہوا ہے مسجد ہاجرہ رضویہ آکر لے جائیں،گور منٹ کے کئی کاموں کا اعلان بھی برابر کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ادھر کئی سالوں سے اذان کی آواز لوگوں کو بہت گراں گزر رہی ہے،جو کی انتہائی افسوس ناک اور تشویس ناک بھی ہے جب کہ لوک ڈائون کی صورت میں مندروں میں بلا ناغہ لائوڈ اسپیکر سے بھجن، کیر تن جاری ہے ” *واضح ہو ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے* ” یہ ایک مثال ہے اور ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کورٹس، انتظامیہ، حکومتوں کو کچھ نہیں دکھائی دیتا ہے؟ ۔اگر دکھائی دیتا ہے تو مسجدیں،مسجدوں کا لائوڈ اسپیکر اللہ خیر فر مائے، مسجدوں کے ذمہ داروں کو چاہیے بلا تاخیر قانونی کاغذات مکمل کرائیں،کاہلی تساہلی نہ کریں، دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی مسلمانوں کے لیے سوہان روح ثابت ہوچکا ہے۔(ناچیز کا مضمون: مجھے ہے حکمِ اذان لا الہٰ الّا اللہ، کا مطالعہ فر مائیں)صوتی آلودگی(تیز آواز) پر بھی کورٹ کا فیصلہ آیا ہواہے،کتنی مسجدوں کے ذمے داران نے قانونی کاروائی پوری کی؟مسلمان جذباتی اور مد ہوش قوم ہے تھوڑ ی سی بات پر آپے سے باہر ہوکر خوب واویلا مچائے گی اور پھر مدہوش ہوکر سو جائے گی،یہ رونا تو شاید صبح قیامت تک باقی رہے( اللہ نہ کرے ایسا نہ ہو) خدا کرے قوم کے رہنما جاگتے رہیں ،قوم جاگتی رہے آمین۔
*ہندوستان جمہوری ملک کی بدلتی صورت:*
اس جمہوری ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کر نے کی آزادی ہے،ولیکن اب تو پانسہ ہی پلٹ دیا گیا ہے۔صرف 2منٹ کی اذان پر بھی لو گوں کو تکلیف ہے،اعتراض ہے،یہ تو بہت شرمناک ہے۔اذان تو ساری انسایت کی سلامتی وبھلائ کے لیے ہے،اس کے پیغام و الفاظ میں دن میں پانچ بار اعلان ہو تا ہے’’حی علی الفلاح‘‘ آئو بھلائی کی طرف آئو بھلائی کی طرف،یہ بھی حکو متوں اور عدلیہ کو پسند نہیں اور وہ بھی آزادی کے نام پر افسوس صد افسوس۔ ناچنے ،گانے ڈرامہ بازوں کو بھی بہت تکلیف ہے ،کچھ دنوں پہلے سونو نگم نے اذان کی آواز سے تکلیف جتا ئی تھی اپنا گلہ شکوہ ٹویٹ کر کے ظاہر کیا تھا،خیر وہ تو ٹھہرے دوسرے مذہب کے اب دیکھئے نام نہادliberal،آزاد خیال مسلمان جناب جاوید اختر ان کو بھی اذان مائیک سے دینے سے تکلیف ہے،جبکہ آنجناب کا پیشہ ہی ہو ہلا، شاعری وغیرہ ہے کتنے مشاعرہ میں انھوں نے مائیک کا استعمال نہیں کیا ذرا کوئی بتائے تو؟ اور یہ ناچنے، گانے والے ،ڈرا مہ کرنے والے مفتی کب سے بن گئے؟ جائز و ناجائز کا فتویٰ دینے لگے معلوم نہیں حکومت کی نظر میں نورِ نظر بننے کا شوق کب سے چرایا ہے۔
؎ *نہ خداہی ملا نہ وصال ِصنم* — *نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے*
حکومت نے پہلے ہی بہت سے نمک حراموں کو پالا ہواہے،ان کی باتوں پر مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ا پنے مذہبی شعار پر پوری ثابت قدمی سے چلیں،مسجد کے ذمے داران پہلی فرصت میں لائوڈ اسپیکر کے استعمال کے کاغذات ضرور مکمل کرالیں خدارا خدارا تساہلی ،کاہلی نہ برتیں،حکومتوں اور عدلیہ سے اب اُمید فضول ہے،اذان اور مسجدیں اسلامی شعار ہیں اس کو باقی رکھنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ورنہ عدلیہ سے اسی طرح کے احکام آئیں گے کی اذان ضروری نہیں مسجد اسلام کا حصہ نہیں وغیرہ وغیرہ،اللہ خیر فر مائے اپنی عبادتوں کی ہمیں توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین

Comments are closed.