Baseerat Online News Portal

صنف نازک پرجنسی تشدد۔ کڑواسچ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد

صنف نازک پرجنسی تشدد۔ کڑواسچ

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ”یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے“۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ نصیحت، اچھا مشورہ کسی کی بھی جانب سے ہو‘ اسے قبول کرنا چاہئے۔ اترپردیش کے ہاتھرس کے گاؤں میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ زیادتی اور اس کی المناک موت کے واقعہ کے بعد ملک گیر سطح پر احتجاج اور یوگی حکومت پر ہر گوشہ سے تنقید کے بعد بی جے پی لیڈر سریندر سنگھ نے کہا کہ جنسی تشدد کے واقعات حکومتوں سے قابو میں نہیں آتے۔ اس کے لئے اچھی تعلیم، تربیت کی ضرورت ہے۔ ان کے اس بیان پر ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا۔ ایسا ہی ایک بیان چند روز پہلے آندھراپردیش کے ڈائرکٹر جنرل پولیس دنیش ریڈی نے بھی دیا تھا کہ خواتین کے نامناسب لباس کی وجہ سے خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان جیسے دوسرے واقعات پیش آتے ہیں۔ انہیں بھی شدید مخالفت کے بعد اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ دونوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بڑی حقیقت ہے کیوں کہ حالیہ عرصہ کے دوران فیشن کے نام پر جس قسم کے لباس لڑکیاں اور خواتین استعمال کررہی ہیں‘ اس سے ان کے جسم کی نمائش زیادہ ہونے لگی ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مشرقی اقدار اور روایات تہذیب کے مطابق لڑکیاں اور خواتین بھرپور لباس استعمال کرتی ہیں تو ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ برسوں پہلے ایک ہندی فلم میں ہیروئن اپنے ساتھ لڑکوں کے چھیڑ چھاڑ اور اسے دیکھ کر سیٹیاں بجانے کی شکایت کرتی ہیں‘ تو انسپکٹر کے رول میں امیتابھ بچن اس سے کہتے ہیں ”میڈم! آپ کا ڈریس دیکھ کر لڑکے سیٹیاں نہ بجائے تو کیا مندر کی گھنٹیاں بجائیں گے“۔ یہ 25-30برس پرانی فلم ہے۔ تب سے لے کر اب تک اس قدر تبدی لی آچکی ہے‘ سوسائٹی اس قدر اڈوانس ہوچکی ہے کہ عریانیت، ہائی سوسائٹی کی پہچان بن گئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ جنسی تشدد کے تمام واقعات کے لئے خواتین کا لباس وجہ نہیں بنتا مگر اکثر و بیشتر واقعات میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے‘ تب سے لے کر آج تک ریپ، انتقام کا سب سے گھناؤنا پہلو ہے۔ جنگ کے دوران فاتح فوج کی سپاہی مفتوح قوم یا ملک کی خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرتے ہوئے اس قوم کو نفسیاتی طور پر کمتر اور شکست خوردہ بنادیتے ہیں۔ فسادات میں ایک فرقہ کی خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے دوسرا فرقہ اپنی نفسیاتی برتری ثابت کرتا ہے۔ اور جس فرقہ کی خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ایسے گھناؤنے واقعات ہوتے ہیں۔ اس فرقے کے مرد سر اٹھاکر چلنے کے قابل نہیں ہوتے۔ چند ماہ پہلے دہلی فسادات کے دوران مسلم خواتین کے ساتھ اس قسم کی زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ اترپردیش کے مظفرنگر، بہار کے بھاگلپور اور گجرات 2002ء کے فسادات کے دوران جو کچھ ہوا کیا اُسے بھلایا جاسکتا ہے۔

دہلی میں نربھئے واقعہ پیش آیا۔ رات 2بجے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھ کر واپس ہونے والی لڑکی بوائے فرینڈ کے ساتھ غلطی سے ایک بس میں سوار ہوگئی تو یہ اس کی زندگی کا آخری سفر تھا۔ چند ماہ پہلے ضلع رنگاریڈی گریٹر حیدرآباد میں رات دیر گئے ٹووہیلر پرسنسان راستے سے گذرنے والی دیشا کے ساتھ چار بھیڑیوں نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا۔ معین آباد میں اپمے گھریلو ملازمہ کے ساتھ زیادتی کے بعد پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ ہاتھرس میں دلت لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر ملک گیر ہنگاموں کے باوجود اُسی علاقے میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ راجستھان میں ایسے ہی واقعہ دہرایا گیا۔ یہ ایسے واقعات ہیں‘ جن میں یہ کہا جاسکتا ہے ان میں لڑکیوں کا قصور نہیں تھا۔ یہ سماج کے وہ بھیڑیئے تھے جنہیں ان کے ماں باپ نے پیدا کرکے جانوروں کی طرح چھوڑ دیا۔ جنہیں غلط صحبت ملی‘ جنہیں غلط ماحول ملا، جنہیں اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مگر اکثر جو واقعات پیش آرہے ہیں‘ اس میں کچھ قصور وار صنف نازک بھی ہیں۔ صنف نازک کے ساتھ چھیڑ چھاڑاور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سے متعلق لندن کے اخبار انڈیپنڈنٹ نے D-cyfor ایجنسی کے ذریعہ ایک سروے کروایا تھا۔جس میں 55فیصد مردوں اور 41فیصد خواتین نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ خواتین کا لباس ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے لئے مردوں کو مشتعل کرتا ہے۔خواتین کے جنسی استحصال کے واقعات جانے کتنے ہوتے ہیں۔ شرم، بدنامی کا ڈر، خاندانی عزت کی خاطر اس شکایت درج نہیں کی جاتی۔ کیوں کہ قصوروار چاہے کوئی بھی ہو‘بدنامی صنف نازک کے حصے میں آتی ہے۔سوسائٹی پر ہالی ووڈ سے زیادہ بالی ووڈ کے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ بیشتر اداکارائیں جس طرح سے لباس زیب تن کرتی ہیں‘ اسی کی تقلید اسکول اور کالج کی لڑکیاں کرتی ہیں۔ اور یہ لباس کم از کم شریف، عزت دارگھرانے کی لڑکیوں کو زیب نہیں دیتا۔ یہ اور بات ہے کہ اِن دنوں ہائی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی اور ہر کلاس کی لڑکی اور خواتین ایسا لباس پہننے لگی ہیں جس سے ان کے جسم کی نمائش زیادہ ہوتی ہے۔ جینز، پینٹس کو گھٹنوں کے اوپر سے پھاڑ کر پہناجارہا ہے۔ جسم کا اندرونی حصہ جب لڑکوں یا کسی بھی مردوں کو نظر آتا ہے اس کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟ آپ خود تصور کیجئے۔ اچھے خاصے لباس کو پھاڑ کر پہنناتو کوئی مہذب اور متمدن معاشرے کی پہچان نہیں۔ مگر فیشن کے نام پرایسے لباس پہنے جارہے ہیں کہ باپ بیٹی کو بھائی بہن کو نہیں دیکھ سکتا۔ بشرطیکہ وہ خوددار اور غیرت مندہو۔ ورنہ ہماری نظروں کے سامنے شوہر بیویوں کی نمائش، باپ بیٹیوں کو ماڈل کے طور پر سجاکر ساتھ لے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہم دوسروں کی بات کیا کریں‘ ہماری اپنی قوم اس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے کہ برقعہ کو پردہ کے بجائے خود کو بے پردہ کرنے کے لئے پہنا جارہا ہے۔ فیشن ڈیزائنر برقعہ اس طرح سے تیار کئے جارہے ہیں کہ جسم کے وہ خطوط جنہیں چھپانا ہے اُسی کی نمائش زیادہ ہورہی ہے۔ برقعہ کے اندر سے جھانکتاہوا پھٹا ہوا جینز اور اس پھٹے ہوئے جینز سے چھیڑخانی کی دعوت دیتا ہو اسکے جسم کا حصہ۔ لعنت ہے ان پر۔

لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ چھیڑچھاڑ صرف جنوبی ایشیائی ممالک ہند، پاک، بنگلہ دیش اور نیپال میں ہی ہوتی ہے۔ اسکول کالج، پبلک ٹرانسپورٹ‘ ملازمت کے مقامات پر یہ عام ہے۔ گھورنا، فقرے بازی، مذاق اڑانا۔ نقالی، چھونے کی کوشش کرنا یہ سب چھیڑ خانی میں شامل ہیں۔ شریف عزت دار لڑکیوں اور خواتین کے لئے سڑک چھاپ نوجوانوں اور بعض اوقات اچھی خاصی عمر کے مردوں کی ان گھناؤنی حرکتوں کی تاب لانا مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے یاتو تعلیم کا سلسلہ ترک ہوجاتا ہے سخت ترین ضرورت کے باوجود گھر سے باہر نکلنامشکل ہوجاتا ہے۔بعض حساس قسم کی لڑکیوں نے تو خودکشی بھی کرلی۔ ان دنوں سوشیل میڈیا چھیڑ خانی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔واٹس اَیپ اور IMO سے فحش تصاویر، ویڈیوز اور بعض اوقات لائیو فحش حرکات کی جاتی ہیں۔اِن دنوں کیاب ڈرائیورس کی جانب سے بھی خاتون مسافروں کے سامنے فحش حرکات کی کافی شکایات سننے میں آئی ہیں۔جہاں تک جنسی زیادتی کا تعلق ہے‘ گذشتہ سال تک ہندوستان میں روزانہ اوسطاً 87واقعات پیش آئے تھے۔ 2019ء میں 32ہزار 33 ریپ کیسس کی نیشنل کرائم بیورو میں رپورٹ درج ہے۔ ان میں سے 27ہزار سے زائد وقعات 18سال سے زائد کی عمر کے لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ لگ بھگ پانچ ہزار واقعات 18سال سے کم عم لڑکیوں کے ساتھ پیشا ٓآئے ہیں۔ریپ کے بعد مرڈر کے 278 واقعات پیش آئے۔ ساؤتھ افریقہ سرفہرست ہے جہاں سالانہ پانچ لاکھ عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں۔ مصردو لاکھ کیسس کی بنیاد پر دوسرے نمبر ہیں۔برطانیہ 85ہزارکی بنیادپر تیسرے نمبر پر، اور آبادی کے لحاظ سے ہندوستان سے آگے رہنے والا چین ریپ کیسس میں ہندوستان سے پیچھے ہے۔

نیشنل کرائم بیورو کی رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے واقعات کے 90فیصد سے زائد مجرم متاثرہ لڑکی یا خواتین کے رشتہ دار، شناسا یا اڑوس پڑوس کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ حد سے زیادہ دوستی اور بے تکلفی کا اختتام جنسی زیادتی پر ہوتا ہے۔ اکثر بوائے فرینڈس خود بھی استحصال کرتے ہیں اور اکثر موقعوں پر اپنے دوستوں کو بھی موقع فراہم کرتے ہیں۔حادثاتی طور پر جنسی مظالم کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور خواتین ہمدردی کے مستحق ہیں‘ بہت سے ایسے موقع ہیں جب ایسا سانحات کو ٹالا جاسکتاہے جیسے رات دیر گئے یا دن میں بھی سنسان علاقوں میں تنہا سفر، بے حجاب لباس، اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش یعنی بہت زیادہ میک اَپ، نگاہوں کی بے حجابی وغیرہ وغیرہ۔حالیہ عرصہ کے دوران رات دیر گئے آئس کریم کھانے یا سڑکوں پر ساؤتھ انڈین ڈیشس کا ذائقہ دیکھنے کا فیشن بن گیا ہے۔ جہاں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور موقع محل دیکھ کر کام پہچان لیتے ہیں۔ لڑکی یا خاتون اپنے باپ بھائی یا بوائے فرینڈ کے ساتھ اکیلی ہوں تو آوارہ نوجوان انہیں شکار بنانے سے نہیں چوکتے۔ ہوسکتاہے کہ میری بات کڑوی لگے مگر سچ تو کڑوا ہی ہوتا ہے۔

Comments are closed.