Baseerat Online News Portal

صوم یوم عرفہ، تشریق، میت کی طرف سے قربانی، فضیلت اوراحکام قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

صوم یوم عرفہ، تشریق، میت کی طرف سے قربانی، فضیلت اوراحکام

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپناقرب ۔اپنی رضا حاصل کرنے۔اورزندگی کو روحانیت۔سے معمور کرنے کے لٸے عبادات۔کے احکام بھی دیٸے ہیں ۔اوردینی تقاضوں کو پورا کرنے کامکلف بھی بنایاہے۔اگر انسان کی زندگی اطاعت الہی اور روحانیت سے خالی ہوجاۓ تو بے کیف وبے نورہوجاتی ہے۔اوراپنے خالق ومالک کی اطاعت سے آراستہ ہوتی ہے تو پرکیف بھی ہوتی ہے۔ پرسکون بھی ہوتی ہے ۔ااورانسان اپنی زندگی کےحقیقی لطف کو پانے والا فلاح یاب ہوجاتاہے۔یہی وہ رازہے جو عبادت واحکام اوررب کی فرمابرداری میں پنہاں ہے۔اور اسی بات کو آیت قرآنی :”واعبدواربکم وافعلواالخیر لعلکم تفلحون“(سورہ حج 77)اورقران کی 40 دیگر آیتوں۔میں صرف فلاح یابی کےعنوان سے بیان کیاگیاہے۔(کہ اپنے رب کی عبادت اورنیک کام کواپناشعار بنالو فلاح پاجاوگے)۔اورقرآن میں۔29 مقامات پر”فاٸزون“[کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے]۔

242.آیات میں۔تقوی۔شعاری۔اورخوف خدا کے ذریعہ اپنے دل کی دنیاکو سنوارنے کی تاکیدکی گٸی ۔ہے اور جو اس دولت کو پالیتاہے اسے ۔متقین کہا گیا ہے ۔اسی طرح دوسروں کے حقوق کی رعایت اورانصاف کرنے والوں کو ”مقسطین“۔۔اللہ کی طرف لولگاۓ رکھنے والوں کومنیبین۔۔رب کے پیغام پر لبیک کہنے والوں کو۔مٶمنین۔حق پرستوں کو۔صادقین۔۔وفاشعاروں۔کو۔عاھدین۔اپنی غلطی پرنادم وشرمسارہونے والوں۔کو۔توابین۔اللہ کے حدود کےپاسداروں کوحافظین۔اپنے خالق کےحاضروناظر ہونےکے احساس کے ساتھ ڈرنے والوں کو۔خاشعین۔۔ایسے ہی راکعین ساجدین۔ساٸحین۔آمرین بالعروف ناھین عن المنکر۔۔۔اوران ساری صفات کے حاملین کو عابدین۔و۔زاہدین۔۔کے خوب صورت القاب سے رب ذوالجلال والاکرام نے نوازاہے۔{ان تمام میں۔الف اور ت لگادیں۔اللہ کی تمام نیک ماٸیں بہنیں بھی شامل۔ )

ان تمام خصلتوں کوپانے والا ایک کامل انسان بنتا ہے۔اس کے لٸے رب نے بہت سی عبادات کو رات ودن کی گردش سے جوڑاہے۔دن کے اجالے اور راتوں کے سناٹے کو بھی یہ فضیلت بخشی ہے ۔”أقم الصلوة لدلوک الشمس إلی غسق اللیل وقرآن الفجر ۔إن قرآن الفجرکان مشھودا۔ومن اللیل فتھجد بہ نافلة لک ۔الخ۔“(سورہ اسرا ٕ٧٨۔۔٧٩)

ایام اور مہینوں کو بھی ۔اورالگ الگ اوقات کوبھی۔جن میں بندہ بطور خاص رب کی عبادت کے ذریعہ اس روحانی مقام کوپاسکتاہے۔بعض کو لازم قرار دیا اور بعض کو صرف اہمیت بتاکر اپنے بندوں کی بشری کمزوریوں پہ ترس کھاتے ہوۓ ان کی مرضی اوراختیار پہ چوڑ دیا ۔میری بھلاٸی۔اورمیری ہی مرضی۔۔ذراغورتوکیجٸے إ۔وہ کتنارحیم وکریم ہے۔۔”إن ربکم لرٶوف رحیم“(سورہ۔نحل۔٧)

انھیں بابرکت اور باسعادت ایام میں عشرہ ذی الحجہ۔عشرہ آغاز حج۔۔اورعرفہ ہے۔جس کی عظمت واہمیت۔ہمارے سامنے قسم ۔کھا کے اللہ تعالی اجاگرکررہاہے۔”والفجر ۔ولیال۔عشر۔۔والشفع والوتر۔واللیل إذا یسر۔ھل فی ذلک قسم اللذی حجر“(سورہ الفجر۔١۔۔٧)۔۔۔۔

اب عشرہ ذی الحجہ میں تین طرح کی بدنی عبادات کے ذریعہ ۔اس فضیلت کو پایاجاسکتاہے۔

نمبر ١۔۔دس تاریخ تک روزہ کااہتمام کرنا۔

نمبر۔٢۔رات کو نوافل اورتہجد کا اہتمام کرنا۔

نمبر۔٣۔حسب توفیق تلاوت قرآن میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا۔

نمبر۔٤۔بطورخاص عرفہ کا روزہ رکھنا۔۔اس کے بعد قربانی کے ایام تشریق ونحر شروع ہوجاٸیں گے ۔جن میں بخاری کی روایت کے مطابق اللہ تعالی کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ جانور قربان کرنے کاعمل محبوب ہے۔۔اس لٸے ۔اس کی کوشش حتی المقدور کرنی چاہیٸے۔۔اس میں کسی قسم کی کوتاہی روارکھنا درست نہیں ہے۔۔”قدافلح۔من تزکی ۔وذکراسم ربہ فصلی۔۔بل تٶثرون الحیاة الدنیا۔۔والآخرة خیروأبقی۔“ (سورہ اعلی)

یہاں تزکیہ کا مفہوم یہ ہے کہ ۔اعلی درجہ کا تزکیہ تو یہ ہے کہ ۔انسان ۔کفروشرک چھوڑکر ۔ایمان لے آٸے اوراپنے قلب کو شرک کی نجاست سے پاک کرلے۔ اس کے بعد مزید صاف ستھرے انسان کے سانچے میں خود ڈھالنے کے لٸے۔اگر برے اورناشاٸستہ حرکتوں کا عادی ہے تو انہیں ترک کرکے اچھے اخلاق کاعادی بن جاۓ۔ اوربرے اعمال چھوڑکر اچھے اعمال کرنے لگے۔اورفلاح پاجانے کامطلب ہے دنیا اورآخرت دونوں۔میں۔دینی لحاظ سے کامیاب ہونا۔

اس مقام کو پانے کے لۓ اللہ تعالی نے عبإدات واحکام کا۔فراٸض و واجبات اور سنن و نوافل کا مکلف بندوں کوبنایا ہے ۔اگر ان کی پابندی بندہ کرے گاتو تزکیہ کے مطلوبہ مقام کو مکمل طریقے پر پانے والا ہوگا۔ورنہ بس ادنی درجہ کا انسان ہی ہوکر رہ جاۓ گا۔

عرفہ کاروزہ اورتکبیر تشریق۔

عشرہ ذی الحجہ میں ایک محبوب اور پسندیدہ عمل عرفہ کاروزہ ہے ۔یہ روزہ اپنی فضیلت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے عرفہ کاروزہ رکھا ۔گویا اس نے پورے سال روزہ رکھا۔اور اس کے کھاتے سے اس ایک روزہ کی وجہ سے پچھلے ایک سال کی خطا مٹادی جاۓ گی ۔اور اگلے ایک سال تک ثواب ملتارہے گا۔ ۔چنانچہ ترمذی شریف میں ۔نبی کریم ﷺ سے مروی الفاظ ہیں :”أن النبی ﷺ قال:صیام یوم عرفة إنی أحتسب علی اللہ أن یکفر السنة التی بعدہ والسنة التی قبلہ“(ترمذی کتاب الصوم ۔باب فی فضل الصوم یوم عرفة)۔اس کے علاوہ پورے ابتداٸی عشرہ میں روزہ کا اہتمام کرناچاہیٸے۔

اب عرفہ کا دن ہی تکبیر تشریق کی ابتدا ٕ کا دن ہے اور راجح قول کے مطابق عرفہ کی فجر سے ہے۔اور اس کے بعد ١٣ ذی الحجہ کی عصر کی نماز کے بعد اختتام پذیر ہوجاتاہے۔۔اس کی مشروعیت اور وجوب کی واضح دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:”واذکروااللہ فی أیام معدودات “(سورہ بقرہ آیت۔٢٠٣)مفسر قران حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اس آیت میں مذکور ”أیام معدودات“سے مراد ایام تشریق بیان کیاہے۔اور علما ٕکا ایام تشریق میں تکبیر کےعمل کے صحابہ تابعین اور سلف سے آج تک معمول بہ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ۔البتہ اس واجب عمل کو سنت سے بھی تعبیر کیاگیا ہے”فالصحیح أنہ واجب۔ وقد سماہ الکرخی سنة ۔ثم فسرہ بالواجب۔فقال :تکبیر التشریق سنة ماضیة ۔نقلھا أھل العلم۔ وأجمعوا علی العمل بھا ۔واطلاق اسم السنة علی الواجب جاٸز ۔۔۔ودلیل الوجوب قولہ تعالی:”واذکروا اللہ فی أیام معدودات“ “۔اورحدیث میں مذکور ”روی عن النبی ﷺ أنہ قال:ما من أیام أحب إلی اللہ تعالی العمل فیھن من ھذہ الایام۔فأکثروا فیھا من التکبیر والتھلیل والتسبیح“ “سے واجب ہونے پراستدلال کیاہے۔نیز یہ پہلو بھی یہاں پیش نظر رہنا چاہیٸے کہ ۔ایام تشریق میں تکبیر صرف حاجیوں کے لٸے نہیں ہے ۔جیساکہ بعض حضرات خیال کرتے ۔اور لوگوں کو اس سے روکتے ہیں ۔بلکہ حاجی۔غیر حاجی شھری دیہاتی ۔جماعت اور بغیر جماعت تاہم فرض نماز اداکرنے والوں کے لٸے ہےاور بآواز بلند ہے۔۔البتہ خواتین اگر مساجد میں جماعت امام مسجد کے پیچھے نماز ادا کررہی ہو تو ان پر ہے ۔ورنہ نہیں۔۔اس پر بھی ابن عربی نے اجماع نقل کیاہے۔”قدأجمع فقھا ٕ الأمصار والمشاھیر من الصحابة والتابعین رضی اللہ عنھم علی ان المراد بہ التکبیر لکل واحد۔۔۔۔۔۔وقد ذکرنا فی المتن عن علی وعمر وبن عباس وابن مسعود بأسانید صحاح أنھم کبروا من من غداة عرفة إلی آخر أیام التشریق ۔وھذا یٶید حکایة الإجماع (دیکھٸے اعلا ٕ السنن۔علامہ ظفراحمد تھانوی جلد ٨ ص١٤٨۔۔١٤٩۔نیز ص ١٥٢۔نیز حدیث کے نمبرات:٢١٤٣۔٢١٤٤۔٢١٤٥۔٢١٤٦۔٢١٤٧۔٢١٤٨٢١٤٩۔)

مرحومین کی طرف سے قربانی:

اس بارے میں حنفیہ۔مالکیہ۔اور حنابلہ کے یہاں ۔مرحومین کی طرف سے قربانی ۔جاٸز اور درست ہے ۔اس میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے۔۔اس لٸے کہ یہ خود نبیﷺ کے عمل سے ثابت ہے ۔کہ آپﷺ نے ایک قربانی اپنی پوری امت کی طرف سے دی ۔اور امت میں زندے ۔مردے سب شامل ہیں۔۔”وقد صح أن رسول ﷺ۔ضحی بکبشین أحدھما عن نفسہ۔والآخر عمن لم یضح من أمتہ۔“(بیہقی۔جلد٩ ص٢٦٧ ۔ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔)۔نیز صحابہ کا عمل بھی خاص کر حضرت علی کارہاہے ۔انھوں نے حضور ﷺ کے وصال کے بعد ان کی طرف سے قربانی کاعمل جاری رکھا۔۔البتہ شافعیہ ۔میت کی طرف سے قربانی کے جاٸز ہونے کے لٸے ۔میت کی وصیت یاوقف کو لازم قرار دیتے ہیں ۔گویا ان کے یہاں بھی میت کی طرف سے جاٸز ہے ۔اگرچہ وصیت کی قید کے ساتھ ہے۔لہزا یہ موقف اٸمہ اربعہ کا ہے میت کی طرف سے بھی قربانی مباح ہے۔(دیکھۓ۔موسوعہ۔جلد٥۔ص١٧٦)

بھینس کی قربانی:

ہرسال جب قربانی کے ایام آتے ہیں تو یہ سوال کھڑا ہوجاتا ہے یا اسے ہوادینے کی کوشش کی جاتی ہے۔کہ بھینس چونکہ دور نبوی میں نہیں تھی۔ اس لٸے ۔اس کی قربانی درست نہیں ہے۔۔

یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ بھینس بھی اہلی جانور ہے ۔اور بقر کی ہی ایک کالی نسل ہے ۔جسے ۔عربی میں ”جاموس“ ۔کہاجاتاہے اور یہ” گاومیش“ کا معرب ہے۔۔اس بات کو تمام اہل لغت بھی مانتے ہیں ۔اور عربوں کاعمل بھی ہے۔چنانچہ بہت سے عرب حضرات جو قربانی کے دنوں میں بھارت میں رک جاتے ہیں وہ بھینس کی ہی قربانی کرتے ہیں ۔ظاہرہے وہ قربانی کرتے ہیں کوٸی تفریحی عمل تو ہے نہیں۔۔اب امت کا یہ اجماعی عمل قرار پاچکاہے ۔اور بھیس کو پالتو گاۓ اور اہلی جانور تسلیم کیاجاتاہے ۔اس لٸے ۔اس میں کسی تردد اوراختلاف کی گنجاٸش نہیں ہے۔اور بھینس کی قربانی جاٸزودرست ہے۔(موسوعہ۔ج۔٥۔ص١٤٤۔)۔اللہ تعالی امت کی قربانی قبول فرماۓ ۔آسانی ۔کامعاملہ فرماۓ ۔رکاوٹ کو دور کرے ۔اس مبارک ۔لمحہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرماۓ ۔”ومن یعظم شعاٸراللہ فإنھامن تقوی القلوب“ ۔

Comments are closed.