Baseerat Online News Portal

ضبطِ نفس سے مقام صبر تک

مزمل اقبال،لیہ

 

 

 

” تو بھی اسی طرح صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے پیغمبروں نے صبر کیا”

القرآن 

صبر کی حقیقت پر عوام کی غلط فہمی نے پردے ڈال رکھے ہیں،وہ ان کے نزدیک ایک بے بسی کی تصویر ہے اور لوگوں کے نزدیک اس کے معنی اپنے دشمن سے کسی مجبوری کے سبب سے انتقام نہ لے سکنا ہیں ،لیکن کیا حقیقت یہی ہے؟

ہر گز نہیں۔

تو پھر صبر ہے کیا ؟؟

"صبر” کے لغوی معنی”روکنے”اور”سہارے”کے ہیں یعنی اپنے نفس کو بے چینی اور گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ پر ثابت قدم رکھنا۔ یہی صبر ہے اس کےمعنی بے اختیاری کی خاموشی کے نہیں بلکہ دل کی مظبوطی،اخلاقی ہمت اور ثابت قدمی کے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ نے حضرت موسٰی سے فرمایا:

” تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے،اور کیسے اس بات پر صبر کر سکتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں "۔(سورہ الکہف: 27-28)

حضرت موسٰی نے جواب فرمایا

"اگر خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے”

(سورہ الکہف:29)

صبر کا مرتبہ بڑی بڑی نیکیوں کے برابر ہےاس سے انسان کی پچھلی غلطیاں ایسے مٹ جاتی ہے ،جیسے ماں کی گود میں ایک معصوم بچہ ہوتا ہے اور دین و دنیا کی بڑی سے بڑی مزدوری اس کےمعاوضہ میں ملتی ہے۔

ہمارے پیارے نبیؐ کی زندگی سے صبرو شکر کی عظيم مثالیں ملتی ہیں۔ جیسے پیارے نبہ نے جب شروع میں لوگوں کے سامنے توحید کی دعوت اور اسلام کی تبلیغ پیش کی،تو عرب کا ایک ایک ذرہ آپ کا مخالف ہوگیا،ہر طرف سے دشمنی ، قدم قدم پر مخالفتیں آنے لگی آپ بھی بے چینی میں مبتلا ہوئے،مگر اسی وقت اللہ کے حبیب کو تسلی کا پیام دیا گیا کہ،اے رسول خدا "آپ صبر سے کام لیتے رہیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ آپکا نگہبان ہے،اور خدا کا فیصلہ وقت پر آئے گا۔

ارشاد فرمایا:

"اور ثابت قدم رہ کر منتظر رہ یہاں تک کہ خدا فیصلہ کردے وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں بہتر ہے”

(سورہ یونس:109)

اور جب آپ کو لگ رہا ہو کہ پوری دنیا آپ کے خلاف ہے ،جب ایک طرف حق کی بے بسی اور بے چارگی ہو،جو پاؤں ڈگمگا رہی ہو،اور دوسری طرف جھوٹ اور شیطانی غلبہ دلوں کو کمزور کر رہا ہو،تب حق پر قائم رہ کر اس کی کامیابی کی پوری توقع رکھنی چاہیے،

"اور بےشک خدا کا وعدہ سچا ہے ”

زندگی میں دکھ درد اور تکالیف پر صبر کرنے والے ہی اللہ کے پسندیدہ بن جاتے ہیں،اللہ کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دکھ تکالیف پر صبر اور اس پر شکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اور کیا تم جانتے ہو ؟؟

کہ وہ تمہیں تمہاری من پسند چیز سے اس لیے آزماتا ہے کیونکہ جو محنت اور دعائیں ہم اپنی من پسند چیز کے لیے کرتے ہیں وہ کسی اور چیز کے لیے نہیں کرتےاس کو ہمارا بس اس سے مانگنا اچھا لگتا ہے پھر وہ ہماری ناممکن دعائوں کو بھی ممکن بنادیتا ہے، ہمیں ہمارے صبر کا اجر دیتا ہے_ ہماری تڑپ اور ہمارےآنسوئوں کے بدلے ہمیں خوشیاں دیتا ہے،وہ رب کریم ہے ناں وہ سن بھی رہا ہے، وہ دیکھ بھی رہا ہے۔۔۔!

اللہ کو ہمارا صبر پسند ہے ناں تو بس اس پاک ذات پر یقین رکھ لوگوں کی پرواہ نہ کر اور نہ ان سے دل کو اداس کر بس ایمان رکھنا ہے کہ اللہ محبت ہے، اللہ پاک کی اپنے بندوں سے محبت اور طاقت پر بھروسہ کرکے صبرو شکر کے کلمات ادا کرنے ہیں۔جس نے اس فانی دنیا میں صبر کیا اسکی آخرت جنت الفردوس میں عیش وعشرت کی نہ ختم ہونے والی دائمی زندگی پر ہے۔ صبر کا ایک اور پہلوؤں ظبط نفس ہے ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا نازک موقع آتا ہے ،جب وہ کسی بڑی ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے،اس وقت اپنے نفس پر قابو رکھنا اور ضبط سے کام لینا مشکل ہوتا ہے۔جینے کی امید ختم ہوجاتی ہےاور انسان ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر یہی تو نفس پر قابو پانے کا اصلی موقع ہوتا ہے،جوانسان کے اندر وقار ،مستقل مزاجی، صبر اور دل کی مظبوطی پیدا کرتا ہے۔دنیا میں دکھ درد اور تکالیف، خوشی اور راحت تو عام ہیں،مگر ان دونوں موقعوں پر انسان کو ظبط نفس اور اپنے آپ پر قابو کی ضرورت ہے ،اتنا قابو ہو کہ مسرت اور خوشی کہ نشہ میں فخر اور غرور پیدا نہ ہو،غم اور تکلیف میں اداس اور بد دل نہ ہو،اور ان دونوں عیبوں کا علاج صرف صبر ہے۔جو لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ کریں،ایمان لائیں اور نیک کام کریں،اللہ پر یقین رکھیں۔اللہ سے بہتری کی امید رکھیں تو بلاشبہ ان کا ٹھکانہ جنت ہے ۔ہمیشہ نیک کام کرےاور نیکی کے راستے میں آنے والی ہر تکلیف ومشقت پر صبر کریں۔تکلیف کی انتہا ہونے کے باوجود خوشی خوشی عمر بھر کرتے رہے،راتوں کو نرم بستروں سے اٹھ کر خدا کو سجدہ کرنا،صبح کو خواب ِسحر سے کنارہ کرنا ،نعمتوں کی لذت سے محروم ہوکر روزے رکھنا،سچ پر ڈٹے رہنا،اور صبر کرنا اللہ کے نزدیک بے حد محبوب عمل ہیں۔

دنیا کا پانا اور کھونا دونوں امتحان ہیں۔دنیا میں آدمی کو دو قسم کے احوال پیش آتے ہیں کبھی پانا اور کبھی محروم ہو جانا یہ دونوں ہی حالتیں امتحان کے لئے ہیں۔ وہ اس جانچ کے لئے ہیں کہ آدمی کس حالت میں کونسا رد عمل پیش کرتا ہے۔جس شخص کا معاملہ یہ ہو کہ جب اس کو کچھ ملے تو وہ فخر کرنے لگے اور جب اس سے چھن جائے تو وہ منفی نفسیات میں مبتلا ہو جائے ایسا شخص اس امتحان میں ناکام ہوگیا دوسرا انسان وہ ہے، جب اس کو ملا تو اس نے اللہ کے سامنے جھک کر اس کا شکر ادا کیا، اور جب اس سے چھینا گیا تو اس نے اللہ کے آگے جھک کر اپنے عجز کا اقرار کیا اور صبر کیا یہی دوسرا انسان ہے جس کو نفس مطمئنہ کہا گیا ہے، یعنی مطمئن روح۔ دعا اور صبر ہر غم کا علاج ہیں۔ صبر صرف دکھوں اور غموں کو ہی برداشت کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کو حرام طریقوں سے پورا نہ کرنا اور اللہ کی رضا کے لیے ، اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے ان پر قابو پا لینا بھی صبر ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے اللہ پاک نے فرمایا :

"وبشر الصابرین”

ترجمہ

"خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کے لیے”

ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔اسی لیے راہ ِحق پر مرنے اور مال ودولت کو لٹانے سے انکاری نہیں ہونا چاہیئے،اگر اس راہ میں موت بھی آجائے تو بھی غم نہیں۔ اللہ ہم سب کو صبر اور شکر کرنےوالوں میں شامل فرمائے۔

آمین

جزاک اللہ۔

Comments are closed.