Baseerat Online News Portal

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

 

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )

بابری مسجد حق ملکیت مقدمےپر سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ سوائے سنگھ پریوار کےسبھی کیلئے مایوس کن اور انتہائی حیرت انگیزرہا۔ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ بچپن سےسنتے آئے اس محاورے کی صداقت پر اب مکمل یقین ہوچلاہے کہ یہ محاورہ محض محاورہ نہیں بلکہ یہی حقیقت ہے ۔آج سے کم ازکم بیس تیس سال پیچھےکے دور پر بھی نگاہ ڈالیں،جب انصاف کی بنیادیں اتنی متزلزل نہیں ہوئی تھیںاس وقت تک یہ محاورہ محض محاورہ کی حد تک بولااور سنا جاتا تھا،کیونکہ شاذ و نادر ہی لوگوں کویہ موقع حاصل ہوپاتا تھا کہ اسے عملی جامہ پہناسکیں ۔کسی بھی ملک کی سالمیت اور استحکام کی واحد بنیاد انصاف ہی ہوا کرتی ہےجہاں بھی اس سے انحراف کیا گیا وہاں ظلم و ستم اور خونریزی کا ہی بول بالاہوتا ہے ۔ بے انصافی کے دامن سے جھاڑ جھنکاڑہی اگتے ہیںا من و سکون کے پھول کبھی نہیں کھلتے ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی اب اس کا آغاز ہوچکا ہے ۔۲۷؍سال سے چل رہے اس مقدمے میں کتنے موڑ آئے کیسے کیسے ثبوت و شواہد پیش کئے گئے لیکن نتیجہ کیا نکلایعنی ثبوت و شواہد ایک طرف اور اور فیصلہ ایک طرف۔بچپن سے ہم یہ بھی سنتے آئےتھے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اس وقت ہم یہی سمجھتے تھے کہ قانون کے تعلق سے یہ بات مناسب نہیں لیکن غورکرنے پر معلوم ہوا کہ یہی سچ ہے اس کے اندھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مذہب،سماج، ذات پات،اونچ نیچ کو نہیں دیکھتا اس کی نظر میں سب برابر ہیں اس کیلئے وہی اہم ہوتا ہے جو سچا ہوتا ہے اور جس کے پاس اس کی باتوں کی صداقت کو ثابت کرنے والے دستاویزات ہوتے ہیں ۔یہ سب جانتے ہیں کہ بابری مسجد تقریبا ً پانچ سو سال سے اپنی جگہ کھڑی تھی ،سپریم کے فیصلے میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ بابری مسجد میں مورتیوں کے رکھنے کا عمل غلط اور قابل تعزیر جرم تھا یقینا ً انہیں سزا ملنی چاہیئے تھی اسی طرح اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ بابری مسجدکی جگہ کوئی مندر نہیں تھا ،اس کے باوجود اس طرح کا یکطرفہ فیصلہ حیرتناک ہے ،ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی قضیئے میں جہاں دو فریق ہوتے ہیں اور دونوں ہی کے دعوے کسی ایک چیز پر ہوتے ہیںتو دونوں میں سے کوئی ایک ہی صحیح ہوتا ہےاوردوسرا غلط ہوتا ہے۔ایسی صورت میں جب مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کو دے دی گئی جو اس کا بات کا ثبوت ہے کہ مسجد وہاں غلط تھی ورنہ مسجد کی جگہ مسجد ہی بنانے کا حکم دیا جاتا پھرسنی وقف بورڈ کو مسجد بنانے کے لئے ۵؍ایکڑ کی اراضی دینے کا جواز کہاں سے نکلتا ہے یہ سب ایسی ہی باتیں ہیں جن سے شکوک کے دائرے پھیلتے ہیں ۔مسلم عمائدین نے اچھا کیا کہ انہوں نے اس پانچ ایکڑ کی اراضی کویہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ہمیں خیرات کی زمین نہیں چاہیئے ،انصاف کا تقاضہ تو یہی تھا کہ وہ مسجد جو پانچ سو سال سے اس جگہ کھڑی تھی اور اس کےقیام کے پورے دستاویزی ثبوت بھی موجود تھےاورتمام تر ثبوت وشواہد کے باوجود ایک برعکس فیصلہ کرکے اسے رام جنم بھومی نیا س کے سپرد کردیا گیا ۔

ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پورے ملک کے کسی کونے سے مسلمانوں نے یہ آواز اٹھائی ہو کہ فلاں مندر مسجد توڑ کر بنایا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس سارے دعوے ہندوؤں کی ہی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں ایودھیا کی بابری مسجد کے علاوہ متھرا اور بنارس میں بھی یہی سوالات بار بار اٹھائے جارہے ہیں۔تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے کبھی بھی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جب انہوں نے یہ کہا ہو کہ ہم عدالت کا فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے اس کے بجائے مختلف ہندو تنظیموں نے بارہا ببانگ دہل اس با ت کا اعلان کیا ہے کہ اگر عدالت کا فیصلہ مندر کے حق میں نہیں آتا تو ہم ہرگز اسے قبول نہیں کریں اور مندر وہیں بنائیں گے ۔مسلمانوں کی طرف سے ۵؍ایکڑ زمین نہ لینے کا فیصلہ یقینا ً قابل تعریف اس لئے ہے کہ اگر امن و انصاف کی بحالی کے پیش نظر مسلمان یہ زمین لے لیتے تو یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ ان دیگر مساجد کیلئے نظیر بن جاتا جس پر ہندوؤں کی طر ف سے مسلسل دعوے کئے جارہے ہیں ۔ فیصلہ آنے سے کچھ روز پہلے سے ہی سنگھ پریوار پوری مستعدی سے امن وامان کے قیام کی اپیلیں کررہا تھا آرایس ایس کے سربراہ مسلم لیڈران سے گفت و شنید کررہے تھے۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں مسلسل ہورہی ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوںپرجب ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئےتب سنگھ پریوار کی کسی بھی تنظیم نے اس کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی امن و امان کی اپیلیں کیں ۔تو اس سے کیا سمجھا جائے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جارہا تھا ،اس کا راست مطلب یہی ہے کہ سب کچھ سوچی سمجھی پلاننگ کے ذریعے کیا گیا۔یہ انصاف کا کوئی معیار نہیں تھا ۔معیار کسے کہتے ہیںاسے سمجھنے کیلئے تاریخ کا یہ واقعہ بہت بڑی مثال ہے ۔

بنوامیہ کے دور خلافت میں جب دمشق کی جامع مسجد تعمیر کی جانے لگی تو اس سے منسلک عیسائیوں کا ایک قدیم گرجا موجود تھا مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اگر گرجا کی زمین حاصل ہوجائے تو مسجد کافی کشادہ ہوسکتی ہے لیکن عیسائی اس پر راضی نہ ہوئے ،اس وقت کے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے زمین کے حصول کیلئے عیسائیوں کو ایک معقول رقم کی پیش کش کی مگر وہ راضی نہ ہوئے چنانچہ مسجد اتنی ہی جگہ میں تعمیر ہوگئی بعدکے دور میں ولید بن عبدالملک نے بھی کچھ رقم کے عوض گرجا کی اس زمین کو حاصل کرنا چاہا لیکن عیسائی دوبارہ اس پر راضی نہ ہوئے تب ولید نے اپنی طاقت کے زور پر اس زمین پر قبضہ کرلیا اور اسےمسجد میں شامل کرلیا ۔لیکن جب عمربن عبدالعزیزؒ کا دور خلافت آیا جو خدا ترسی اور انصاف پسندی کیلئے مشہورتھے۔ عیسائیوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ ان سے ملاقات کی اور اپنی ان شکایات کو پیش کیا جو ایک عرصے سے ایک خلش بن کر انہیں بے چین کئے ہوئے تھی ۔ عمربن عبدالعزیزؒنے ان کی باتیںبغور سنیں اور بلا توقف یہ حکم جاری کردیا کہ گرجا کی جس زمین کو مسجد میں شامل کیا گیا ہے اسے فوری طور پر توڑدیا جائے اور اسے عیسائیوں کے حوالے کردیا جائے ۔مسلمانوںکو اس بات سے کافی قلق ہوا انہیں امیرالمومنین کے اس فیصلے سے خوشی نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے حیرت و رنج کا اظہار کیا اس وقت رد عمل کے طور پر عام مسلمانوں کا یہی خیال تھا کہ کیا ہم اپنی مسجدخود اپنے ہی ہاتھوں سے گرادیںحالانکہ ہم نے برسوں اس کے اندر اذانین دی ہیں اور نمازیں ادا کی ہیں ۔یہ اور اس طرح کے متعدد ریمارک سن کر بھی عمر بن عبدالعزیز اپنے فیصلے پر اٹل رہے انہوں نے جواب دیا کہ خواہ کچھ بھی ہو مقبوضہ زمین اگر عیسائیوں کے گرجا گھر کی تھی تو وہ انہیں ضرور واپس کی جائے گی ۔

ہندوؤں کا دعویٰ اگر درست ہوتا اور یہ ثابت ہوجاتا کہ مسجد کی جگہ پر مندر موجود تھا جسے توڑا گیا ہے تو مسلمانوں کیلئے یقینا ً خوشی کی بات ہوتی اور وہ بصد خلوص اس جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کردیتے لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہے وہاں مندر کا کوئی ثبوت نہیں جس کا اعتراف خود عدالت نے کیا ہے ایسے میں اس فیصلے کو کیا کہا جائے گا انصاف یا ۰۰۰پھرظلم۰۰۰خیرجوبھی ہو ہمارے ذہنوں میں بابری مسجد ہمیشہ وہیں قائم رہے گی ۔

Comments are closed.