Baseerat Online News Portal

عالمی یوم خواتین اور بنیادی سوال

 

انم جہاں
متعلمہ شعبہ صحافت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

خواتین کا عالمی دن ایک عالمی تعطیل ہے جو ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کی تحریک میں ایک مرکزی نقطہ کے طور پر منایا جاتا ہے ، جو صنفی مساوات ، تولیدی حقوق اور خواتین کے خلاف تشدد اور بدسلوکی جیسے مسائل پر توجہ دلاتی ہے۔ 1900 کے آغاز میں، خواتین کو تنخواہ میں برابری نہیں تھی، ووٹنگ کے حقوق کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، اور ان سے زیادہ کام لیا جارہا تھا۔ اس سب کے جواب میں، اپنے حقوق کی مانگ کے لیے 1908 میں 15000 خواتین نے نیویارک شہر سے مارچ کیا۔ 1909 میں، سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے اعلان کے مطابق، اس دن کو پہلا قومی یوم خواتین قرار دیا گیا۔ 1965 میں سبھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ عورت خود اپنے لئے ایک قابل سکون مقام کی متلاشی ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ’یوم خواتین‘ منانے کی بجائے اپنے مقام اور مر تبے کو پہچانیں اور اس نظام کو اپنے اوپر نافذ کریں جس سے ان کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہو
یوم خواتین کے پس منظر کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل کے متعلق احتجاج کیا، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعےکچل دیا گیا، پھر 1908 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔

عالمی یوم خواتین، سب سے پہلے 28 فروری کو 1909 میں امریکہ میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے، اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ چین، روس، نیپال، کیوبا، اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے، اور دیگر ممالک کی طرح بر صغیر میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

لیکن، ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی دن کو کسی کے نام سے منا لینا کیا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے؟ جیسا کہ آج کل فادرس ڈے، مدرس ڈے، چلڈرنس ڈے، ٹیچرس ڈے، مزدور ڈے، وغیرہ صرف ایک دن منائے جاتے ہیں، جبکہ یہ وہ سارے رشتے ہیں جن کی اہمیت ہر وقت اپنے کسی نہ کسی حقوق کی متقاضی ہے۔

عورت ایک ایسی شے ہے کہ جس کی حیثیت کے تعین میں ہر دور میں لوگوں نے اپنی ذہنی سوچ کو اعلیٰ وارفع دکھانے کی خاطر، کوئی نہ کوئی روپ دینے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ اس کو دیوی کا روپ دے دیا گیا، اور کبھی اس کے عروج یا با عزت مقام کو برداشت نہ کر کے اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیا اور مذہب کے نام پر ہی برہنہ کرکے گھمایا گیا، اور کبھی اس کو سماجی برابری، آزادی نسواں کا نعرہ دے کر دفتروں، کارخانوں، اور دوکانوں میں لا کھڑا کیا، اور عورت بیچاری ہر دور میں فریب کھاتی رہی۔

اب سوال یہ ہے کہ عورت آخر وہ کنجی کیسے حاصل کرسکتی ہے جو اس کو ایک با عزت مقام دلا سکے، اس کو سکون فراہم کر سکے، اور اس کو کسی کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے روک دے؟ تو اس کا جواب ہمیں ’’عورت‘‘ جیسی مخلوق کا بنانے والا ہی دے سکتا ہے کہ اس اس نے عورت کو کیا ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بھیجا ہے۔

اس دنیا میں حضرت محمد جو دین لے کر آئے اس نے عورت کو ایک ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا جس کا اس تاریک دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عورت کی پیدائش پر جنت کی خوشخبری دی گئی۔ اس کی پرورش کرنے والے کو جنت کا مستحق قرار دیا گیا۔ عورت کے لئے وراثت میں حق مقرر کیا گیا۔ اس کو مہر کا حق دیا گیا۔ قرآن میں جگہ جگہ عورت کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ ماں کے درجے کو اس قدر معزز بنا دیا گیا کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دے دی گئی۔

اگر حقوق پر نظر ڈالیں تو مرد کو اس کا ولی، سر پرست بنایا گیا۔ باپ کی حیثیت سے، بھائی کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت سے اور بیٹے کی حیثیت سے، اس کو کسی بھی قسم کی مالی اور معاشی تگ و دو کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، بلکہ اس کو گھر کی پوری ذمہ داری دے کر ایک با عزت مقام دیا گیا۔
لیکن یہ تمام مراتب اور اعزاز دینے کے باوجود اس کو اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ صرف اور صرف گھر کی ہی ہو کر رہ جائے اور اپنی صلاحیتوں کو بالکل بھلا دے۔ بلکہ اس کو اس بات کی پوری آزادی دی گئی کہ اگر اس قدرت نے صلاحیتیں عطا کی ہیں تو اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے اور معاشرے کی بھلائی کے کاموں میں استعمال کر سکتی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور بہتری کے کام انجام دے سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوم وملت کی اصلاح اور ترقی کے کام بھی کر سکتی ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکتی ہے اور اس پر اس کو دوہرے اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ ضرورت پڑنے پر عورت وہ تمام کام کر سکتی ہے جو ایک مرد انجام دیتا ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ عورت اور مرد کی تخلیق میں جو اس کے خالق نے ایک امتیاز رکھا ہے اس امتیاز کے تقاضوں کو وہ مد نظر رکھے۔

عورت کو اگر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اس کو ان حدود و قیود کو ضرور بالضرور ملحوظ رکھنا ہوگا جو اس کے خالق نے اس کے ہی فائدے کے لیے متعین کی ہیں، تب ہی عورت کو معاشرے میں ایک با عزت مقام حاصل ہو سکتا ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں مردوں نے عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عورت جو اپنے اندر ایک جنسی کشش رکھتی ہے وہ چھپانے یا پو شیدہ رکھنے کی چیز نہیں ہے اور اگر وہ سن حدود و قیود کو اپنے اوپر نافذ کر تی ہے، تو وہ بیک ورڈ، رجعت پسند اور دقیانوسی خیالات کی مالک ہے۔ عورت اپنے اوپر یہ لیبل نہ لگوانے کی خاطر اپنے آپ کو مختلف اذیتوں، تکلیفوں میں ڈالنے اور سخت سے سخت مراحل سے گزرنے کے لیے با آسانی تیار ہو جاتی ہے….. جس کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری پیدا ہو گئی۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منانے کی بجائے اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے مقام اور مر تبے کو پہچانیں اور اس پیارے نظام کو اپنے اوپر نافذ کریں جس کے ذریعے ان کو معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل ہو سکے۔
عورتوں کی آزادی،مساوات،سماجی برابری اور کامیابی و ترقی کی توقعات لیے ہر سال آتا ہے۔ اسے بڑے بے زور و شور سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔ صنفی مساوات اور عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔کہا جاتا ہےکہ عورت آزاد ہو گئی ہے ۔ مضبوط ہو چکی ہے۔اس نے سماج میں ہر جگہ اپنی قدر، قیمت، ہمّت و حوصلہ اور محنت و بہادری سے منوالی ہے۔ وہ ایک اچھی معلمہ، پرنسپل، ڈاکٹر، ڈائریکٹر، انجینئر، آئی ایس آفیسر، حتی کہ پائلٹ اور پارلیمنٹ کی کرسی سے لے کر جج اور وکیل کے عہدے کو بھی اس نے خالی نہیں چھوڑا۔ وہ ایک اچھی سیاست داں، منسٹر، ایم پی، ایم ایل اے کے مقام کو بھی پُر کرچکی ہے۔کچھ دہائیوں پہلے کی بات کریں تو شاید بہت سے میدان خالی نظر آئیں گے۔ لیکن زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ خواتین نے ہر مقام پر اپنی اہمیت اور شراکت داری کی مثال قائم کردی ہے اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں ساری دنیا سے ملنے والی خبریں یہ بتارہی ہے کہ خواتین نے کسی شعبہ کو اچھوتا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اور وزیراعلی اور صدرِ مملکت کے عہدوں پر بھی موجود ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت فی زمانہ پوری دنیا میں خواتین کے مساوات کی ایک دھوم مچی ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اس نے سماج میں ہر مقام پر اپنی جگہ بنائی ہے اور مرد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اس کی آنکھ میں آنکھ ملا کر وہ دیکھنے کے قابل تو ضرور ہوچکی ہے، اس سے بھلا کسی کو کیا انکار ہوسکتا ہے۔لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ آئیے دوسرا رخ بھی دیکھیں جوکہ بڑا ہی دل دہلانے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج وہ کہیں بھی اپنی عزت اور پاک دامنی کی ضمانت کےساتھ نہیں رہ پارہی ہے ۔ اُسے سب سے پہلے یہ فکر ستاتی ہے کہ کیا صبح گھر سے نکلنے کے بعد شام کو وہ بحفاظت گھر واپس آسکے گی؟
اسکول،کالج، کیمپس، آفسوں میں، راستے میں، چلتی ٹرین میں، بسوں میں، تنہائی یا بھرے ماحول میں، حد تو یہ ہے کہ مندروں میں، کھیتوں میں حتی کہ گھروں تک میں بھی وہ محفوظ نہیں ہے ۔اسکول کا ٹیچر ، پرنسپل، آفس کے بوسیز ،محلے کے اوباش ، گھروں کے مقدس رشتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے درندے، کبھی بھائی بن کر، کبھی باپ بن کر، کبھی چچا تو کبھی دادا اور سسر کے روپ میں بھیڑیے بن کر اُبھرتے ہیں۔ نتیجے میں بیٹیوں کی پیدائش سماج میں مصیبت سمجھی جانے لگتی ہے اور معصوم بچیاں پیدا ہونے کے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں مار دی جاتی ہیں۔ اگر پیدا بھی ہوجائیں غلطی سے تو اسے گٹر میں کوڑے کے ڈھیر پر اکسر وبیشتر دیکھا جا تا ہے۔نتیجہ آج میٹرو شہروں سے لے کر گاؤں میں لڑکیوں کی تعداد کا گھٹتا ہوا اشاریہ 1000 لڑکوں پر 750 یا 800 لڑکیوں پر ریشو پہنچ جاتا ہے، جو کہ ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے ۔ اتنی کم تعداد کے بعد جب وہ پل کر بڑی ہوتی ہے تو کبھی ظالم شوہر، کبھی سسرال والوں کی جہیز کی مانگ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، پھر خواہ وہ احمد آباد کی عائشہ ہو، جوکہ سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا دیتی ہے، خواہ پھر کوئی کرن یا سُمن۔
آخر ہم کس بھارت میں رہ رہے ہیں ؟ اور کس صدی کی بات کرتے ہیں؟ اکیسویں صدی کے 2021 کی کرائم رپورٹس اگر ہم پڑھ لیں تو ہم ’بیٹی پڑھاؤ کو‘ چھوڑ کر صرف ’بیٹی بچاؤ‘ کے نعرے کو زبان سے لگانے پر مجبور ہوں گے۔ جب ہماری بیٹیاں بچیں گی، تبھی تو وہ پڑھ سکیں گی۔ آج اس نعرے کے ساتھ ہی مجروح ہوتی بیٹیاں، جن کا کبھی حجاب اتروایا جاتا ہے،کبھی جن کے پردے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اپنے حقوق کو مانگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بات سیکیورٹی کی ہو، مذہبی تشخص کی ہو یا تحفظ کی ہو، سبھی اس زمرے میں آتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے سال 2021میں کل 31000 کی تعداد میں درج کرائے گئے جوکہ 2014 کے بعد سے کبھی اتنے نہیں بڑھے تھےاور ان میں سے 5 فیصد صرف یوپی میں درج ہوئے ہیں۔ نیشنل کمیشن آف ویمن (NCW) کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے مقابلے 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد بڑھ کر 30684 تک پہنچ گئی۔ اس میں سب سے زیادہ شکایات 11013 خواتین کے خلاف عزت وقار سے جڑے ہوئے تھے۔ 6633 واقعات گھریلو تشدّد اور 4589 کیس جہیز سے جُڑے تھے۔ یہ رپورٹس بتارہی ہیں کہ عورتوں کا وقار اور ان کی عزت انہیں نہیں مل رہی ہے۔
بات خواہ پولیس کانسٹیبل رابعہ سیفی کی ہو ،جسےڈیوٹی کرتے ہوئے اغوا کرکے اس کی عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا، خواہ کسی اور بیٹی کی ہو، جسے شاہدرہ دہلی میں، جو ملک کی راجدھانی ہے، وہاں اس کے بال کاٹ کر اُسے جوتے چپل کا ہار پہنا کر ننگا کر کے سڑکوں پر صرف اس لیے گھمایا گیا کہ اس نے اپنے عاشق کی بات نہیں مانی اور یہ کہا کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرا ایک بچہ بھی ہے، جو اپنی جان بچاتی پھری، مگر گھر میں معذور باپ اور ایک بہن کے علاوہ کوئی نہیں تھا، اس کی ایک نہ سنی
سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کی کیا تصویر پیش کررہے ہیں؟ کس وقار اور عزت اور امپاورمنٹ کی بات کرنے جارہے ہیں ؟ آنے والا یہ 8 ؍مارچ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے۔اس کا کیا جواب ہے ہمارےپاس ؟اس اہم گفتگو کو مکمل کرنے سے پہلے پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ ظُلم و تشدّد کا بڑھتا ہوا رجحان، خواتین پر تشدّد اور جنسی ہراسانی کے واقعات جو کہ انتہائی افسوس ناک اور پورے دنیا کے لیے باعثِ شرم ہیں، ان کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنائے جانے چاہیے اور اُسے لاگو بھی کرنا چاہیے۔
جنسی جرائم کے سدباب کے لیے صرف زنا پر سخت سزا کو کافی نہ سمجھتے ہوئے زنا پر اکسانے والے تمام محرکات، جیسے شراب پر اور دیگر نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد کی جائے

Comments are closed.