Baseerat Online News Portal

علم کے موتی (تبصرہ بر کتب)

 

تبصرہ نگار: عبدالمالک بلندشہری

جھارکھنڈ سے وطنی نسبت رکھنے والے، دیوبند کے مایہ ناز انشاء پرداز اور متبحر عالم دین حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی دار العلوم وقف دیوبند کے مقبول ترین استاذِ حدیث ہیں۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند سے 1971 میں دورہ حدیث شریف کیا اور علامہ فخر الدین مرادآبادی قدس سرہ سے بخاری شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ دورہ کے بعد ادب عربی، عربی و اردو خوش نویسی اور افتاء کی سندات حاصل کیں پھر 1976 میں دیوبند سے صادر ہونے والے ماہانہ عربی مجلہ الداعی کے اجراء کے موقع پر عربی زبان و ادب کے ممتاز عالم دین اور احاطہ دیوبند میں عربی کو زندگی بخشنے والے مولانا وحید الزماں کیرانوی قدس سرہ نے معاون مدیر منتخب کیا پھر ١٩٨٢ء میں تقسیم دیوبند کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند سے وابستہ ہوئے اور تدریسی فرائض انجام دینے شروع کئے جس کا مبارک سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس چالس سالہ مدت کے دوران آپ کو ادب و فقہ و اصول کی کتابوں کے علاوہ دورہ حدیث کی تقریبا تمام اعلی کتابیں پڑھانے کا موقع ملا اور فی الحال حدیث پاک کی اہم کتابیں بڑے حسن و خوبی سے پڑھا رہے ہیں۔

مولانا کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ آپ عالی سند کے حامل محدث ہیں۔ علامہ فخر الدین مرادآبادی قدس سرہ، حکیم الاسلام مولانا قاری طیب اور علامہ عبدالفتاح ابوغدہ جیسے مشاہیر علماء سے روایت حدیث کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز سے طالبین علم حدیث آپ کے حضور حاضر ہوکر اجازت حدیث حاصل کرتے ہیں۔ آپ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے بھی جامع ہیں۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے انگلش امتحانات دے کر کامیابی حاصل کی پھر بی اے کی تعلیم مکمل کی اور آخر میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔

گزشتہ سفر دیوبند کے دوران آپ کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ بڑے خوش طبع، خوش مزاج اور سلیم الطبع عالم دین ہیں۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے معاصرین سے فائق ہیں۔ نرم مزاجی، خرد نوازی اور مہمان نوازی، فیاضی اور کرم گستری میں اکابر کا مثالی نمونہ ہیں۔ قرطاس و قرطاس سے اٹوٹ تعلق ہے۔ برسوں سے لکھ رہے ہیں بلکہ لکھنے کا حق ادا کررہے ہیں۔ کتابوں سے عشق ہی کی دین ہے کہ دیوبند میں ہزاروں مکتبوں اور کتب خانوں کی موجودگی میں مکتبہ النور جیسا معیاری مکتبہ قائم کرکے کتاب و ادب کی خدمت میں مشغول ہیں۔ آپ کے مکتبہ نے کم وقت میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ بہت ہی قلیل عرصہ میں یہاں سے اہم کتابیں شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوئی ہیں۔ یہاں کی مطبوعات دیدہ زیب سر ورق، عمدہ کاغذ، خوبصورت چھپائی اور کمپوژنگ کی اغلاط سے پاک ہونے کے اعتبار سے لائق رشک ہیں۔ ابھی تک درسی کتابوں اور ان کی شروحات کے علاوہ ماہنامہ النخیل کا مشہور نمبر یادگار شخصیات کے احوال مطالعہ، مرشد تھانوی، داستان کہتے کہتے، طلاق کا اختیار عورت کو کیوں نہیں، کامیاب طالب علم، تحفہ مدرسین، اصلاحی گزارشات،کتاب المعاملات، قلم نما وغیرہ کتابیں یہاں سے شائع ہوکر اہل علم و ادب کی آنکھوں کا سرمہ بن چکی ہیں۔

پیش نظر کتابیں بھی اسی سنہرے سلسلہ کی تابناک کڑیاں ہیں:
(1) دار العلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ

مظاہر علوم کا نام جب بھی زبان پر آتا ہے تو سب سے پہلے شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کا ان کی علمی شہرت، روحانی کمالات، آفاقی نیک نامی اور اوجز المسالک، فضائل اعمال، آپ بیتی جیسی مقبول عام تصنیفات کی بہ بدولت کا نام ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعلق سے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔ ان کے بغیر ندوۃ کا تصور ناقص ہے۔ ٹھیک اسی طرح دارالعلوم دیوبند کا نام آتا ہے تو ذہنوں میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی کی یادوں کے دیپ جل اٹھتے ہیں۔ قاری طیب دارالعلوم دیوبند کے صرف مہتمم ہی نہیں تھے بلکہ وہ اپنے عہد میں دیوبندی مکتبہ فکر کے شارح و ترجمان بلکہ برانڈ ایمبیسڈر تھے۔ ان کا شباب، کہولت اور پیری، مال، جان، عزت، آبرو اور اولاد سب کچھ دیوبند پر نثار تھا۔ ان کی رگوں میں دیوبند کی محبت لہو بن کر دوڑتی تھی۔ ان کی دل کی دھڑکنوں میں دیوبند بستا تھا- وہ دیوبند کی ترقی، رفعت اور عظمت کے لیے جیتے تھے۔ دیوبند کے تئیں قاری محمد طیب قاسمیؒ کو کیسا والہانہ تعلق تھا اس کی کماحقہ منظر کشی کرنے سے راقم کا قلم عاجز ہے۔ اس کی تفصیلات اور مرقع کشی اب تک متعدد مصنفین نے کی ہے اور اہل قلم نے اس میدان میں اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک حق ادا نہ ہوا اور برابر حکیم الاسلام شناسی کا سلسلہ جاری ہے۔

زیر نظر کتاب بھی حکیم الاسلام کے علوم و معارف اور کمالات و امتیازات کا ایک سرسری جائزہ ہے۔ یہ کتاب قاری طیب کے علمی و دینی کمالات اور ان سے دیوبند کی وابستگی کے اردگرد گھومتی ہے اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ قاری محمد طیب صاحبؒ جیسے ساقی نے میخانہ دیوبند کی آبرو کس طرح قائم کی اور کیونکر اس کے عہد نظامت میں دیوبند طالبان علوم نبوت کی آماجگاہ بن گیا۔ کیونکر دنیا کے کونے کونے سے متلاشیان علم دین کے قافلے یہاں خیمہ زن ہوئے اور اپنے دل و دماغ کی دنیا آباد کی۔ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے پہلے میں تاسیس دارالعلوم دیوبند کی مختصر سی اجمالی تاریخ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے اس کے تحت بلاد ہند میں اولین نقوش اسلام، ہندوستان میں مسلم حکومتوں کا آغاز، مغلیہ دور حکومت علماء و مشایخ، خانوادہ شاہ ولی اللہ، بغاوت کے بعد کے حالات، تحریک آزادی ہند، تاسیس دیوبند، اصول ہشتگانہ اور مسلک دار العلوم دیوبند جیسے عناوین کے تحت گل افشانی کی گئی ہے۔

باب دوم کے تحت دیوبند اور حکیم الاسلام، ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی تحریک دار العلوم دیوبند اور حکیم الاسلام، حکیم الاسلام کی حکمت ریز تصانیف و مضامین، حکیم الاسلام کے دور اہتمام میں عربی زبان و ادب، دارالعلوم دیوبند، علم حدیث اور حکیم الاسلام، حکیم الاسلام اور مسند رشد و ہدایت، حکیم الاسلام اور دارالعلوم کا زریں دور اہتمام، فکر دیوبند کی اشاعت میں حکیم الاسلام کا حصہ، حکیم الاسلام اور وقف دیوبند کی ابتداء، حکیم الاسلام اور پرسنل لاء بورڈ، اور حکیم الاسلام کا ادبی ذوق اور شعر و شاعری جیسے دلچسپ عناوین کے تحت علم و معلومات کے چراغ روشن کئے گئے ہیں۔

یہ کتاب دلآویز سرورق، سفید پلین کاغذ اور مضبوط جلد پر مشتمل ایک سو اسی صفحات کو محیط ہے_اس کی قیمت محض دو سو روپے ہے جو اس گرانی کے دور میں ہر اعتبار سے مناسب ہے۔

(٢) درخشاں ستارے
یہ کتاب ایک علمی سفرنامہ کی داستان ہے اس میں مرتب نے ان اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے جن سے انھیں زمانہ طالب علمی میں علمی و روحانی استفادہ کا گراں قدر شرف حاصل ہوا۔ یہ باضابطہ کوئی سوانحے تذکرے نہیں ہیں بلکہ صرف تاثراتی مضامین ہیں۔

کتاب کا آغاز مقدمہ سے ہوتا ہے اس میں مصنف نے کتاب لکھنے کی وجوہات و عوامل ذکر کئے ہیں اور اپنے پس منظر سے بھی روشناس کرایا ہے۔

مکتب:
اس کے تحت حاجی محمد لقمان کا تذکرہ ہے وہ مرتب کے پہلے استاذ ہیں۔

جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ:
اس کے تحت قاری ایوب مظاہری، مولانا عبدالحق اعظمی، مفتی بلال احمد بھاگلپوری اور قاری ابراہیم مفتاحی کے متعلق دلچسپ مضامین ہیں۔

مدرسہ اشرف المدارس کلٹی بردوان (بنگال):
اس کے ضمن میں مولانا محمود الحسن گیاوی اور حافظ انوار الحق ندوی کا ذکر خیر ہے۔

جامعہ مظاہر علوم سہارنپور:
اس کے تحت تین اساتذہ امام النحو علامہ صدیق احمد کشمیری، مولانا مفتی عبد القیوم مظاہری اور مولانا محمد اللہ رامپوری کے احوال ہیں۔

پھر دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کا ذکر ہے اس کے تحت علامہ فخر الدین مرادآبادی، مولانا شریف حسن دیعبدنی، مولانا عبدالاحد دیو دنی، مولانا نصیر احمد خا. اور علامہ قمر الدین گورکھپوری سمیت سولہ جید اساتذہ کا تذکرہ ہے۔

پھر شعبہ کتابت کے تحت دو مولانا شکور احمد خطاط اور مولانا اشتیاق کا ذکر اور دارالافتاء دیوبند کے تحت دیوبند کے تین باکمال فقہاء مفتی محمود حسن گنگوہی، مفتی نظام الدین اور مفتی احمد علی سعید کے احوال ہیں۔

آخر میں خصوصی استفادہ کے تحت حکیم الاسلام اور علامہ عبدالفتاح ابوغدہ ایسے ممتاز علماء اور دعاۃ کا ذکر جمیل ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا اسلام قاسمی بہترین اور صاحب اسلوب ادیب ہیں۔ ان کی نثر بڑی تروتازہ، سلیس اور شگفتہ ہے۔ نہ ہی کہیں ژولیدہ بیانی ہے اور نہ پیچیدگی۔ پڑھیے اور پڑھتے جائیے اور قلم کی روانی اور فکر کی جولانی میں بہتے چلے جائیے۔ خدا کرے وہ یوں ہی اردو ادب کے سرمایہ میں بیش قیمت اضافہ کرتے رہیں اور ہمیں یوں ہی اپنی دلچسپ نگارشات سے استفادہ کا موقع فراہم کرتے رہیں۔

کتابیں حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجیے:
مولانا محمد اسلام قاسمی
رابطہ: 9456422412

عبدالمالک بلندشہری
٢٥ نومبر ٢٠٢١ء

Comments are closed.