Baseerat Online News Portal

عمرہ اور شادیوں کے خرچ میں تین لاکھ بچوں کی تعلیم!

غوث سیوانی، نئی دہلی
”بھارت کے مسلمانوں کے پاس تعلیمی اداروں کی کمی ہے جس کے سبب وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں“اس قسم کی باتیں اکثر کی جاتی ہیں مگر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ ترجیحات کا ہے۔ مسلمان کی نظر میں تعلیم کو ترجیح حاصل ہے ےادوسرے کاموں کو؟ کیا تعلیم سے بڑھ کر کوئی دوسرا کام ہوسکتا ہے؟کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان جس قدر شادیوں میں فضول خرچی کرتے ہیں، اسے بچاکر ہر سال کئی کئی یونیورسٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہرسال نفل حج اور عمرہ پر مسلمان، جس قدر پیسے خرچ کرتے ہیں ،اس سے لاکھوں مسلمان بچوں کی جہالت دور ہوسکتی ہے اور ان کی زندگیاں ہی بہترنہیں کی جاسکتیںبلکہ قوم کا مستقبل بھی روشن کیا جاسکتا ہے؟اس کے علاوہ مسلمان، سالانہ کروڑوں روپئے تبلیغی جماعت میں گھومنے اور درگاہوںکے سفر زیارت پر بھی خرچ کردیتے ہیں، ان تمام خرچوں کواگر چندسال کے لئے ہی بچالیا جائے تو متعدد یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول کھولے جاسکتے ہیں اور قوم کے کروڑوں بچوں کوتعلیم یافتہ بناےاجاسکتاہے۔شاید ہماری بات ان لوگوں کے پلے نہ پڑے جو جوروایتی فکر سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں ،ویسے اس بات کو سمجھنے کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے۔
شادیوں میں فضول خرچی
چند سال قبل آئی سچرکمیٹی کی رپورٹ نے واضح کیا تھا کہ مسلمان کس قدر پسماندہ ہیں۔ وہ تعلیم اور آمدنی دونوں میں پچھڑے ہیں مگر ایک سرکاری ادارے این سی ای یو ایس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے مسلمانوں کی 84 فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی اوسطاً 50 روپے سے بھی کم ہے۔یقینا یہ تشویش کی بات ہے اور غور وفکر کا موضوع بھی ہے کہ جو مسلمان محض 50 روپے یومیہ آمدنی کرتا ہوگا، وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر کیا خرچ کرے گامگرو ہیں ایک دوسری سچائی یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنی پوری زندگی کی بچائی ہوئی ایک بڑی رقم شادیوں پرخرچ کردیتے ہیں۔ اس رقم سے بچوں کی بہتر تعلیم ہوسکتی ہے اور اگر کروڑوں مسلمانوں کے ذریعے خرچ ہونے والی اس رقم کو جمع کردیا جائے تو ہرسال بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم ہوسکتے ہیں۔ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق ہرسال شادیوں پر مسلمان اتنا خرچ کرتے ہیں جتنا کہ عمرہ پر سالانہ خرچ نہیں کرتے۔علماءدین اور قوم کا بیدار مغرز طبقہ لگاتار کوشش کر رہا ہے کہ مسلمان فضول خرچی سے بچیں اور تعلیم پر دھےان دیں مگر اب تک خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
عمرہ کی رقم تعلیم پر
مسلمانوں کا ایک بیدار طبقہ شادی بیاہ میں فضول خرچی کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ہی بار بارعمرہ کرنے والوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طبقے کی دلیل ہے کہ ان کاموں میں خرچ کی جانے والی رقم کو ملت کی تعلیم و فلاح کے کاموں میں لگانا چاہیے، جس کی اس بدحال قوم کو سخت ضرورت ہے۔چنئی کے سماجی کارکن فیض الرحمان اور دانشور ڈاکٹر اسلم پرویز وائس چانسلرمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد انھیں لوگوں میں شامل ہیں جو آسودہ حال لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شادیوں کا بھاری بھرکم بجٹ کم کریں اور بچنے والی رقم کا استعمال قوم کے تعمیری اور فلاحی کاموں کے لئے کریں۔وہ لوگوں کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ بار بار عمرہ اور نفل حج پر جانے کے بجائے ،اس رقم کو غریب اور ضرورت مند بچوں کی تعلیمی ضروریات پر لگائیں۔ان کا ماننا ہے کہ حج ،زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اور عمرہ کا سفر تو نفل ہی ہوتاہے،اور اس کا فائدہ بھی صرف ایک شخص تک محدود رہتا ہے مگر اس رقم کو بڑے مقصد میں استعمال کیا جائے تو قوم کے مستقبل کو تابناک بناےاجاسکتا ہے۔
عمرہ اور شادی پر کتنا خرچ؟
ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی ڈھائی لاکھ ہندوستانی مسلمان ہر سال عمرہ کے لئے جاتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق سستایا مہنگا پیکج لیتے ہیں۔ جس پر تقریباً 4 ہزار کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑی رقم ہے۔ ہمارے ملک میں ایک پوری وزارت کا بجٹ اتنا بڑا ہوتاہے۔ فیض الرحمان کہتے ہیں کہ’ اس بھاری بھرکم خرچ کا فائدہ فی الحال ٹور آپریٹرس، ایئرلائنس کمپنیوں اور تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پہنچ رہا ہے۔ ‘یہ خرچ ایک نفلی عبادت پر کی جاتی ہے جب کہ علم سیکھنا اور سکھانا عین فرائض میں سے ہے۔ اگر اس بڑی رقم کو مسلمانوںکی تعلیم کے مد میں خرچ کیا جائے توبڑا کام ہوسکتا ہے۔اسی طرح ایک مڈل کلاس کا مسلمان، شادی میں عموماً 8 لاکھ روپے تک خرچ کرتاہے جب کہ ہرسال لگ بھگ 15 لاکھ شادیاں ہوتی ہیں جن پر مسلمان 12 ہزار کروڑ روپے خرچ کرتے ہےں۔ گوےاعمرہ اور شادی پر وہ مجموعی طور پر لگ بھگ سولہ ہزار کروڑ روپئے خرچ کرتے ہیں اور اگر ہنی مون کا خرچ جوڑ لیں توسترہ ہزار کروڑ ہوتے ہیں۔
کتنے بچے تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں؟
اگر بچوں کی تعلیم پر خرچ کا اندازہ لگائیں اور ایک طالب علم پر 10 ہزار روپے سالانہ خرچ ہوتا ہے اور وہ چودہ سال تک 14 کلاسیں پڑھتا ہے تو اس پر کل رقم 1 لاکھ 40 ہزار روپے خرچ ہوگی۔کسی پروفیشنل کورس کے لیے اگر وہ 4 لاکھ روپے خرچ کرتا ہے تو کل 5 لاکھ 40 ہزار روپے میں ایک طالب علم کی تعلیم کی مکمل ہو تی ہے۔ 17 ہزار کروڑ روپے کو 5 لاکھ 40 ہزار روپے سے تقسیم کرنے پر 3 لاکھ 14 ہزار 814 روپے آ رہا ہے۔ گویا اس رقم سے ہر سال 3 لاکھ سے زیادہ مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت ہوسکتی ہے۔
تعلیم اور مسلم معاشرہ
ماضی کے مقابلے مسلمانوں میں تعلیم کے معاملے میںبیداری آئی ہے اور ان کا بڑا طبقہ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ مسلم طلبہ کی ایک بڑی تعدادمقابلہ جاتی امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کررہی ہے مگر اسی کے ساتھ ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ آج بھی لاکھوں مسلمان بچے فٹ پاتھ کے ہوٹلوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے بچے نہ صرف تعلیم سے محروم ہورہے ہیں بلکہ ان کا بچپن بھی برباد ہورہا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ سرکاری اسکولوں میں بنیادی تعلیم مفت ہے اور ہر چودہ سال تک کے بچے کے لئے لازمی بھی ہے بلکہ کتابیں،یونیفارم اور دوپہر کا کھانا بھی مفت ہے،ایسے میں کسی بھی بچے کو غریبی کے سبب تعلیم سے محروم نہیں رہنا چاہئے مگر باوجود اس کے ایک بڑا طبقہ آج بھی محروم ہے۔ یہ صورت حال ملک وملت کے لئے باعث تشویش ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں وسائل سے زیادہ بیداری کی کمی ہے۔ آخر تعلیم کی سہولیات مفت ہونے کے باجود والدین بچوں کو تعلیم سے محروم کیوں رکھتے ہیں؟اور جس مذہب نے سب سے زیادہ تعلیم پر زور دےا، سبھی مردوعورت کے لئے فرض قرار دیا اور اس کی الہامی کتاب قرآن کا آغاز ہی ’اقراء‘سے ہوا،اسی طبقے میں تعلیم کی کمی کا کیا مطلب ہے؟ یہ کمی صرف بھارت کی حد تک نہیں ہے بلکہ دنیا کے تقریباً تمام مسلم ملکوں میں ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ ناخواندہ ممالک میں مسلم ممالک شامل ہیں ۔ ان ملکوں میں جن افراد کو خواندہ قرار دیا جاتا ہے،ا ن میں بھی بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں معمولی مذہبی تعلیم دی گئی ہوتی ہے۔ وہ اعلیٰ دینی اور عصری تعلیم سے محروم ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسلم ملکوں میں مجموعی طور پر اتنی یونیورسٹیاں نہیں ہیں جتنی کہ یوروپ کے ایک چھوٹے سے ملک میں ہوتی ہیں۔ دنیا کے تمام مسلم ملکوں میں اس قدر سائنسی ریسرچ نہیں ہوتی ہیں، جتنی مغرب کے کسی ایک ملک میں ہوتی ہیں۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان تعلیم میں کتنے پیچھے ہیں اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل کی بنیاد بھی یہی تعلیم کی کمی ہے۔ سعودی عرب، افغانستان، شام، عراق ،مصر اور افریقہ کے مسلم ملکوں میں عالمی قوتوں کی مداخلت کا ایک بڑا سبب، یہاں کے عوام کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہنا اور سیاسی حقوق کے تعلق سے عدم بیداری بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاسی بیداری بھی تعلیم سے ہی آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.