Baseerat Online News Portal

عمومی ضمیر فروشی کا دور –

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

انسان اور جانور میں ایک بہت بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ انسان خودداری اور غیرت کا مجموعہ ہوتا ہے، اس کے پہلو میں ضمیر کا وہ ترازو ہوتا ہے جس کے سامنے حق و صداقت اور باطل کو تولتا ہے، اس کا وزن کرتا ہے، اچھائی برائی کی پَرکھ کرتا ہے، زمانہ کی بھیڑ اور ہجوم میں کھونے کے بجائے روشن منار کی جانب دوڑتا ہے، اندھیرے سے بچتا ہے، تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے، بے ضمیری اور بے خودی کو مسَلتا اور کچلتا ہوا راہ حق کا مسافر بنتا ہے، دنیا خواہ اسے اپنی کشش اور رعنائی میں الجھائے، رنگ و روغن اور دلداری و دلبری کے جھانسے میں لینھ کی سعی کرے، رخ یار سے نقاب ہٹا کر اپنی مصنوعی جاذبیت دکھا کر دل یار کو لبھانے کی کوشش کرے؛ لیکن وہ ضمیر کا متوالا، دل کا یار اور انسانیت کا علمبردار صرف اور صرف دل کی سُنتا ہے، سچائی کا شیدا بن کر ہر جھوٹ، ستم، رسم اور زمانہ کی زنجیریں توڑ جاتا ہے، طوق و سلاسل اور پابندیوں کی بیڑیاں بکھیر جاتا ہے، کوئی کچھ بھی کہے، کتنا ہی زمانہ اور سماج، حکومت و مملکت، ظالم و ظلم کی دہائی دے وہ ضمیر کو روشن کئے صحراؤں کو عبور کرجاتا ہے، سمندروں کو پار کرجاتا ہے، اور شب ویجور میں ایک ہیرو بن کر ابھرتا ہے، سچ جانئے! اگر یہ ضمیر زندہ ہے تو انسان زندہ ہے، متحرک ہے، وہ نامور ہے، وہ تاریخ کا ہی نہیں بلکہ حال کا بھی نایاب ہیرا ہے، معاشرے میں ایسے افراد کی قدر ہوتی ہے، کیونکہ وہ اپنی ضمیر پروری سے زمانے کے سامنے ایک نئی دھارا قائم کردیتا ہے، بہتی رو کو موڑ دیتا ہے، طوفان میں بھی ٹھہراؤ لے آنے اور شدید ترین ہواؤں کو باد صبا میں بدل دینے کی قوت رکھتا ہے، یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ اسلام خود بھی اپنے ماننے والوں میں زندگی کی وہ رمق پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے اس کا ضمیر زندہ ہو، خودداری اور غیرت پروان پائے، وہ خق کو تذلیل و تنزلی سے بچائے، مسکینی اور فقیری سے نچائے، اپنے ضمیر کو بیچ دینے اور اس کا سودا کردینے سے روکے، وہ خودی میں نام پیدا کرے، اپنی فقیری میں ناموری حاصل کرے، جھونپڑی میں شاہوں پر فوقیت رکھنے کی طاقت رکھے؛ لیکن اپنے ضمیر کو داؤ نہ پر لگائے، وقت آتا ہے جاتا ہے، کچھ بھی زمانہ میں پائیدار نہیں؛ لیکن اگر ضمیر مر جائے تو اس کیلئے وقت رک جاتا ہے، وہ صرف قعر مذلت کی طرف ہی بڑھتا ہے، اور خود کو رسوا کر کے زمانہ کی رسوائی کا بھی باعث بنتا ہے.

افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے اندر بالخصوص اس کے اعلی طبقہ میں بے ضمیری اور بے مروتی عام ہورہی ہے، اس سے زیادہ حیرت اور شرمندگی کی بات یہ ہے کہ مذہبی گروہ اس سے محفوظ نہیں ہے، آج سکہ کی کھنک، حکومت کی لَلک اور زمانہ حاضر میں سیاہ و سپید کے مالکین کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے، انہیں اپنا سب کچھ مان کر پوری قوم کی عزت تار تار کردینے سے بھی گریز نہیں ہے، انہوں نے چند مفادات کی خاطر قوم پر بے ضمیری اور بے خودی کا ایسا نشہ طاری کردیا ہے کہ ایک بڑی جماعت نفس کے ہاتھوں شکست کھاتی ہوئی نظر آتی ہے، ہر کہیں سودا ہورہا ہے، ملت کو بیچا رہا ہے، قوم کی عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، اپنے آباء و اجداد کے نام پر کرسیاں سنبھالنے والے اور قیادت کا دَم بھرنے والے امت کشتی غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جنہیں جو کام سو سال پہلے کرنا چاہئے تھا، جس کی طرف خوددار اور اصحاب دل نے توجہ دینے کی گزارش بھی کی تھی، لیکن اس وقت انہیں نظر انداز بلکہ معتوب گردانتے ہوئے رد کردیا تھا، اب بے ضمیری دیکھئے کہ علی الإعلان انہیں ضرورتوں کا اعتراف کرتے ہیں، اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ بے ضمیری کہاں تک پہنچی ہوئی ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ عمومی بے ضمیر فروشی کا دور چَل پڑا ہے، ہر جگہ ہر کوئی اپنا ضمیر بیچنے کو تیار ہے، نہ اخلاقی اقدر ہیں اور ناہی اصول و ضوابط اور ٹھوس فکر پائی جاتی ہے، ہوا کے دوش پر چلنے والے ہی سب کچھ ہوگئے ہیں، سیدی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اسی لئے تو لکھ دیا تھا: ” یہ عام ضمیر فروشی اور دین فروشی کا دور ہے، بڑے بڑے فاضل اور صاحب قلم ہیں، جن کی ذہانت اور جن کے مطالعہ کے سامنے ہماری کوئی حیثیت نہیں، لیکن ضمیر کے نام. کی کوئی چیز ان کے یہاں پائی نہیں جاتی، ان کے دماغ کی جگہ پر دماغ ہے اور دل کی جگہ پر بھی دماغ ہی ہے، بلکہ ان کے پہلو میں ایک دھڑکتے ہوئے دل کے بجائے ایک رواں دواں قلم رکھا ہوا ہے، جو سب کچھ لکھتا ہے، جس کے یہاں آخرت کی جوابدہی اور ضمیر کی ملامت اور سرزنش کا کوئی سوال نہیں، ان میں زمانے کے ساتھ بدلنے اور اس کے مطالبوں کی ترجمانی کرنے کی غیر محدود صلاحیت ہے”.(پاجا سراغ زندگی _١٤٨)

بے ضمیری ترے ان کوچہ و بازار پہ تف

بیچنے والے پہ تھو اور خریدار پہ تف

 

 

 

Comments are closed.