Baseerat Online News Portal

عورت۔۔۔اسلام کی نظرمیں

شاداب انظارندوی
منیجنگ ڈائریکٹر مدنی اسکول پاکٹولہ ،سیتامڑھی بہار
بعثت نبویؐ سے پہلے کی دنیا کا مطالعہ کرینگے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کے سلسلے میں دنیا کے نظریات کیا تھے انسانی برادری میں اس کے حقوق اور مقام کیا تھے، لوگ عورتوں کو شیطان کی بیٹی اور منحوس سمجھا کرتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسے مردوں کی تسکین کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ہندوستانی تہذیب و تمدن میں شوہر کے مرنے کے بعد اس کو جینے کا حق ہی نہیں تھا وہ اپنے شوہر کی چتا پرستی ہو جایا کرتی تھی ،یعنی اپنےمردہ پتی کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی تھی۔
اور اہل عرب دور جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے وہ بھی ناقابل بیاں ہے۔ غمزدہ کردینے والی روداد ہے۔ ان لوگوں نے ظلم و بربریت کی انتہا ہی کر ڈالی۔ ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوا کرتے تھے ۔اس معاشرے میں عورت کی کوئی حقیقت نہ تھی ،مال وجائیداد میں کوئی حق نہ تھا، باپ اپنی بیٹی کی پرورش پر خائف تھا ۔یہی وجہ تھی کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اور معاشرے میں بیٹی کی پرورش معیوب سمجھی جاتی تھی ،جس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:لاتقتلو ااولادکم خشیة املاق نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطا کبیرا۔ (اپنی اولادوں کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دینگے اور تم کو بھی ۔ان کا قتل بڑا گناہ ہے۔
اللہ کا یہ فر مان لیکر آپؐ مکہ میں مبعوث ہوئے اور پوری دنیا کی قیامت تک کی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ عورتوں کا کیا مقام ہے۔ اگر وہ ماں ہے تو سنو ۔قرآن نے کیا کہاماں کے عنوان سے سورہ احقاف، آیت 15 میں ارشاد الٰہی ہے: "وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا”،’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے زحمت کے ساتھ اسے پیٹ میں رکھا اور زحمت کے ساتھ اسے جنم دیا‘‘۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔(بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب من احق الناس بحسن الصحبة، 5 : 2227، : 5626
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی ہو،اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔ماں کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے ،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسا ن ہے ۔یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دئیے، بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا۔
بیٹیوں کے حقوق کے سلسلے میں نبی کریم ؐ کا فرمان ہے ۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’جس شخص نے 3لڑکیوں کی پرورش کی پھر ان کو ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘ (ابوداؤد) الغرض قرآن وحدیث میں کثیر تعداد میں ایسے احکامات موجودہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘
وراثت میں عورت کا حق: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا، لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْانْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے ۔ (النساء) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے ، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے ، اولاد سے ، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حقدار ہے۔
اسلام نے معاشرے میں عورت کے حقوق، فرائض ودیگر مسائل کے لیے سورۃ النساء میں تفصیلی احکامات دیے ہیں جس میں نکاح،طلاق، خلع، وراثت ودیگر صنفی مسائل میں رہنمائی کی گئی ہے عورت کی عزت عصمت کی حفاظت کے لیے حجاب(پردہ)کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں پاکیزگی واخلاقی اقدار برقراررہیںایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو اورلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاو کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
دنیا میں شور برپا ہے کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے ۔اس کو اس کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی مذاہب نے یا کسی قوم نے عورتوں کو عزت نہیں دی ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (حضرت عمرؓ فاروق اس دور جاہلیت کے معاشرے میں گواہی دیتے ہیں کہ ’’قسم بخدا ہم دور جاہلیت میں عورتوں کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنی ہدایت نازل کی اور ان کے لیے جو کچھ حصہ مقرر کرنا تھا مقرر کیا‘‘(صحیح مسلم شریف) ۔جدت پسند لوگ عورتوں کی حیا کا سودا کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے انکے حقوق ادا کردئیے حالانکہ انہوں نے عورتوں سے اس کا سکون اس کی غیرت سب چھین کر آزادی کے نام پر انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق ان عورتوں کا استعمال کیا ہے افسوں میں بازاروں میں، مارکیٹوں میں کیونکہ یہ دل لگی کا ساوان بن کر ابھرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کی عدالتوں میں سب سے زیادہ کیس عصمت دری کے ہی ہیں جہاں عورتیں عدل و انصاف کی دوہائی لگاتے ہوئے ذلیل و خوار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جج اور وکیل گواہ اور ثبوت تو ں کے انتظار میں اس کی بے کسی کا مظاہرہ کرواتے ہیں اور اگر یہی Women’s rights ہے تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو ڈوب کے مر جانا چاہیے کہ وہ انسانیت سے گر کے خواہشات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

Comments are closed.