Baseerat Online News Portal

عُمان کے دارالحکومت مسقط میں چند دن(۲)

شمع فروزاں:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
آج شب ہم لوگ تفریحاََ مسقط کی بلند پہاڑیوں پر لے جائے گئے، یہاں سے پورا مسقط شہر نظر آتا ہے، پورے شہر میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے، اور اس کے دونوں طرف اسٹریٹ لائٹ کا معقول انتظام ہے، یہ اتنا خوبصورت منظر ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اس کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لیا جائے، ایسا لگتا ہے کہ پورے شہر کو سونے کے ہار اور کنگن پہنا دیے گئے ہوں، ایسے مواقع پر یہ احساس دل میں کروٹ لیتا ہے کہ جب اس دنیا میں انسانوں نے اللہ کی دی ہوئی عقل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زینت وآرائش کا یہ سحر انگیز انتظام کر رکھا ہے تو جنت کتنی سجی سجائی اور آراستہ وپیراستہ ہوگی!
چوں کہ اسلام میں مجسمہ سازی کی ممانعت ہے؛ اس لئے مسلم حکمرانوں میں یہ ذوق مسجدوں، قلعوں، باغات اور قصورومحلات کی تعمیر کی شکل میں نمایاں ہوا، عمان کی حکومت چوں کہ مذہبی رنگ کی حامل ہے؛ اس لئے یہاں شاہی محلات کم ہیں، چند قدیم قلعے ہیں؛ لیکن بہت ہی خوبصورت اور قابل دید مسجدوں کی کثرت ہے، ان میں سب سے نمایاں نام ’’جامع قابوس الاکبر ‘‘ ہے، جو موجودہ فرمانروا کی بنائی ہوئی ہے، اور جامع اکبر یا جامع کبیر کے نام سے معروف ہے۔
۱۳؍جولائی ہفتہ کو اس مسجد کی زیارت کا موقع ملا، مسجد کا احاطہ بہت بڑے رقبہ میں واقع ہے، جس میں ایک وسیع پارک اور گھنے درختوں کا باغ بھی ہے، پانی کے فوارے بھی ہیں، مصنوعی نہریں بھی ہیں، مسجد کی عمارت کئی حصوں میں ہے، اس کی اونچے مینار اور خوبصورت محرابیں دیکھنے کے لائق ہیں، کثرت سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں، بیرونی ملکوں کے سربراہان بھی اس کی زیارت کرتے ہیں، اس مسجد کا بڑا حصہ نماز کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور ایک ہال سیاحوں کے لئے رکھا گیا ہے، جس میں مسلمان اور غیر مسلم سیاح آیا کرتے ہیں، نیز عورتوں کوبرقعہ یا پورے جسم کو ڈھانپنے والے گون کے ساتھ ہی آنے کی اجازت ہے، اس کے برخلاف بہت ہی وسیع اور خوبصورت سفید سنگ مرمر سے بننے والی مسجد ابو ظہبی (امارات) میں واقع ہے؛ لیکن وہاں پوری مسجد سیاحوں کے لئے ہے، اور ایک مختصر سا ہال نماز کے لئے ہے، اس سے دونوں ملکوں کے سربراہوں کے مزاج ومذاق کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مسجد کی زیارت کے بعد ہم لوگ جامع نورالدین سالمی گئے، یہیں ظہرانہ کا انتظام تھا، شیخ اسماعیل عوفی اس مسجد کے امام وخطیب ہیں، وہ وزیر اوقاف کے مشیر خصوصی، بڑے صاحب علم اور صاحب تصنیف ہیں، انھوں نے پُر تکلف کھانے کا اہتمام کیا، اور بڑی لذیذ تازہ کھجوریں بھی پیش کیں، اللہ نے ان کو تعلیم وتربیت کا بڑا ذوق عطا فرمایا ہے، انھوں نے سالانہ تعطیل کی مناسبت سے طلبہ کے لئے ایک ماہی تربیتی کیمپ رکھا تھا، آج اس کا آخری دن تھا اور کیمپ میں شریک طلبہ اپنے گھروں کو واپس ہو رہے تھے، یہاں کے طلبہ بر صغیر کے مدارس کی طرح ہی بہت سعادت مند، اساتذہ سے عقیدت واحترام کا تعلق رکھنے والے اور پوری طرح شریعت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آئے، یہاں اساتذہ وطلبہ، ائمہ وخطباء ، سرکاری افسران کا عمومی لباس عمانی جبہ، پگڑی یا خاص قسم کی ٹوپی، ہاتھ میں عصاء ،کمر میں خوبصورت نیام کے اندر خنجر ہے، یہاں تک کہ کم عمر طلبہ بھی بینت کا عصاء اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، شیخ اسماعیل نے اس موقع پر راقم الحروف اور اس کے رفقاء کے علاوہ متعدد مقامی علماء کو بھی مدعو کیا تھا، جن میں ان کے بھائی شیخ محمد عوفی (جو محکمہ علیا کے قاضی ہیں) اور ڈاکٹر محمد معولی استاذ کلیۃ علوم الشریعۃ خاص طور پر قابل ذکرہیں، شیخ اسماعیل اچھے صاحب علم نظر آئے، اور محسوس ہوا کہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان سے متعلق علوم– نحو وصرف وغیرہ– پر بھی ان کی گہری نظر ہے، میں نے ان کو ہندوستان آنے اور بالخصوص اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا معائنہ کرنے کی بھی د عوت دی۔
آج شام میں مسقط کے ایک محلہ ’’روئی ‘‘ میں واقع ’’جامع الفلاح ‘‘ میں میزبانون کی طرف سے اس حقیر کا ایک خطاب رکھا گیا تھا، یہ ایک بڑی مسجد ہے، جس کے امام بھٹکل کے رہنے والے حافظ حشمت اللہ صاحب ہیں، یہاں ہندوپاک کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی، موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے کیا لائحہ عمل ہو؟ اس پر گفتگو کی گئی، خاص طور پر اتحاد امت، غیر مسلموں کے ساتھ بہتر روابط، آئندہ نسلوں کے دین وایمان کا تحفظ اور خاندانی نظام کے تحفظ پر زور دیا گیا۔
۱۴؍جولائی کا دن بہت مصروف دن تھا، پہلا پروگرام استقامت ٹی وی چینل کے لئے تھا، یہ ایک مقامی عرب سرمایہ دار کا ہے؛ لیکن اس میں مختلف زبانوں میں پروگرام پیش کیا جاتا ہے؛ چوں کہ یہاں اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد مقیم ہے؛ اس لئے اردو پروگرام کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، اس کا اردو پروگرام مولانا ازہر ندوی چلاتے ہیں، اور ان کے برادر نسبتی سید قمر ندوی ان کا تعاون کرتے ہیں، اور ایک ہندو ورکر جن کا تعلق پاکستان سے ہے ، وہ کیمرے کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں، مولانا ازہر ندوی نے اس ہندو کارکن کی بڑی تعریف کی، میں نے ان سے پوچھا کہ ہمارے یہاں ہندوستان میں عام تأثر ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں آپ کے کیا احساسات ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ یہ صرف میڈیا کی کارستانی ہے،ہم لوگ بہت امن کے ساتھ ہیں، ہمارے ساتھ مساویانہ برتاؤ کیا جاتا ہے، اور ہمیں کہیں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، مجھے ان کی اس بات پر بڑی حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی، نہ معلوم یہ امر واقعہ ہے یا انھوں نے ایک مسلم ملک میں موجود ہونے اور ایک مسلمان کا ملازم ہونے کی حیثیت سے یہ بات کہی؟ لیکن بہر حال اقلیتوں کے ساتھ اسلام نے اسی طرح حُسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔
یہاں راقم الحروف کے تین پروگرام ریکارڈ کئے گئے، ایک کا عنوان تھا’’ اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں‘‘ دوسرا عنوان تھا ’’ مسلمان اور عصر حاضر کے تقاضے‘‘ اور تیسرا عنوان تھا ’’ تعلیم وتربیت کا فریضہ‘‘ ہر موضوع پر بیس بائیس منٹ کی گفتگو ریکارڈ کی گئی، راقم الحروف نے غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے، مغرب کی طرف سے اسلام کے خلاف پیدا کئے جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے، مسلمانوں کی اخلاقی صورت حال کو بہتر بنانے اور تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دینے کے بارے میں عرض کیا، معلوم ہوا کہ عمان اور دوسرے خلیجی ملکوں میں یہ ایک مقبول پروگرام ہے، اور برصغیر اور یوروپ کے اردو داں حلقوں میں بھی اس پروگرام کو سنا جاتا ہے۔
اوپر ذکر آچکا ہے کہ عمان کے ایک صحابی حضرت مازن بن غضوبہؓ تھے، یہ مسقط سے تقریباََ سو کیلومیٹر کی دوری پر ایک آبادی میں آسودۂ خاک ہیں، اگرچہ وقت کی کمی کے لحاظ سے فاصلہ کافی تھا؛ لیکن طبیعت کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی کہ صحابی ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے بغیر یہاں سے واپس ہوا جائے؛ اس لئے جناب مستفیض الرحمن صاحب کے ساتھ وہاں پہنچے، یہ قبر سڑک سے کچھ فاصلہ پر چھوٹی سی آبادی کے اندر کھجور کے گھنے باغ میں واقع ہے، قبر کے ساتھ چھوٹا سا چبوترہ ہے، اور ایک سبز چادر سے قبر ڈھانپ دی گئی ہے، محسوس ہوا کہ یہاں لوگوں کی آمدورفت ہوتی رہتی ہے، ہم لوگوں نے بھی فاتحہ پڑھا اور اس کے بعد واپسی ہوئی، فاصلہ کی وجہ سے آتے ہوئے عشاء کا وقت قریب ہوگیا۔
آج عشائیہ کی دعوت مولانا معاذ صدیقی صاحب کی طرف سے تھی، یہ معروف عالم وقائد اور سابق صدر جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹرمولانا ظل الرحمن صدیقیؒ کے پوتے اور مولانا عطاء الرحمن صدیقی (مقیم قطر) کے صاحبزادے ہیں، ان کے دادا کو تو ہم لوگ دور بیٹھ کر اسٹیج پر دیکھا کرتے تھے؛ لیکن ان کے والد ماجد ہمارے معاصر ہیں، ان سے زیادہ ملاقات رہی ہے، اور قطر میں ان کی ضیافت سے محظوظ ہونے کا موقع بھی ملا ہے، مولانا معاذ صدیقی سلمہ اللہ تعالیٰ بھی ماشاء اللہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر ہیں اور وہی رکھ رکھاؤ ان کے اندر بھی پایا جاتا ہے، یہ مسقط میں ’’بینک اہلی‘‘ کے شریعہ ڈپارٹمنٹ میں خدمت کرتے ہیں، بڑی محبت سے پیش آئے، اپنے بزرگوں سے دیرینہ روابط کو ملحوظ رکھا، نیز پُر تکلف عشائیہ کا انتظام کیا، یہاں مسقط میں موجود بہت سے علماء کو بھی مدعو کر لیا اور ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا، زیادہ تر لوگوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ، حالیہ قانون طلاق وغیرہ کے بارے میں استفسار کیا، بعض فقہی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی، اس طرح یہ بڑی اچھی مجلس رہی، ان شرکاء میں جناب فیضی ایڈوکیٹ بھی تھے، یہ میرے بہت ہی قابل احترام دوست جناب شکیل سید (وکیل سپریم کورٹ) کے صاحبزادے ہیں، شکیل صاحب بہت سے مقدمات میں بورڈ اور جمعیۃ علماء کی طرف سے وکالت کرتے ہیں، اور متعدد مسائل کے سلسلے میں ہم لوگوں کا ساتھ بیٹھنا ہوتا رہتا ہے، صاحبزادے بھی بڑی محبت سے پیش آئے اور ان سے بات کر کے خوشی ہوئی۔
۱۵؍جولائی کو قیام مسقط کا آخری دن تھا، آج مفتی مملکت شیخ احمد بن حمد الخلیلی نے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا، مفتی صاحب اس وقت دنیا میں مسلک اباضی کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ سمجھے جاتے ہیں، میں رابطہ عالم اسلامی اور تقریب بین المذاہب کے مختلف بین الاقوامی پروگراموں میں ان سے مل چکا تھا، اس بات کا اندازہ تو پہلے سے تھا کہ وہ بہت متواضع، منکسر المزاج اور صاحب علم شخصیت ہیں، مسقط میں ان کے شاگردوں سے ان کے احوال سن کر اِس کا مزید اندازہ ہوا، اور اُن کی تالیفات کو دیکھ کر ان کی علمی وتصنیفی فتوحات کا بھی علم ہوا، وہ نہ صرف عمان کے مفتی اعظم ہیں؛ بلکہ یہاں کے سربراہ حکومت انہیں اپنے سرپرست کے درجہ میں رکھتے ہیں، اور انتظامی امور میں بھی ان کے مشورہ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، اس کے علاوہ مغرب، جزائز، مراکش، لیبیا اور جہاں جہاں مسلک اباضی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، مفتی صاحب ان کا مرجع ہیں۔
انھوں نے کھانے پر نہ صرف مسقط کے اہم علماء اور بعض سرکاری عہدہ داروں کو مدعو کیا؛ بلکہ الجزائر اور لیبیا وغیرہ سے آئے ہوئے علماء کو بھی شریک فرمایا، اور اس طرح ڈھیر سارے اہل علم سے ایک ساتھ ملاقات کا موقع مل گیا، مفتی صاحب نے اعتقادی اور فقہی اختلافات پر صراحتاََ ایک لفظ بھی کہنے سے گریز کیا؛ البتہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات پوچھتے رہے؛ حالاں کہ دیوبند کے اجلاس صد سالہ میں میں شریک تھا؛ لیکن مجھے ان کی شرکت یاد نہیں تھی؛ مگر انھوں نے خود بتایا کہ وہ اجلاس صد سالہ میں شریک ہوئے تھے اور خطاب بھی کیا تھا، وہ شخصی طور پر ہر مہمان کی میزبانی پر متوجہ تھے، میں نے انہیں ہندوستان تشریف آوری کی اور یہاں کے اداروں کو دیکھنے کی دعوت بھی پیش کی، انھوں نے کہا: اب میری صحت بہت کمزور ہو گئی ہے اور کہیں آنے جانے کے لائق نہیں ہوں، پھر بھی اگر آپ دعوت دیں گے تو اپنی صحت کو دیکھتے ہوئے کوشش کروں گا ، واپسی میں گیٹ تک ہم لوگوں کو رخصت کرنے کے لئے آئے اور ہم لوگ ان کی بلند اخلاقی کا نقش لے کر واپس ہوئے، اس ملاقات میں مولانا ازہر صاحب کے علاوہ مولانا وسیم ندوی، مولانا شمشاد قاسمی اور مولانا سید قمر ندوی بھی شامل تھے، آج ہی شب کی فلائٹ سے ہم لوگ حیدرآباد واپس ہوئے اور خوشگوار یادوں کے ساتھ یہ سفر تمام ہوا۔
مسقط کا ذکر ادھورا ہوگا اگر فرقہ اباضیہ کا ذکر نہ کیا جائے، یہ حضرات اپنی نسبت ابو شعشاء جابر بن زید ازدی کی طرف کرتے ہیں، جو ۲۲؍ہجری میں پیدا ہوئے اور ۹۳؍یا ۹۶؍ہجری میں ان کی وفات ہوگئی، اس لحاظ سے یہ مسلمانوں کا ایک قدیم فرقہ اور اعتقادی وفقہی مذہب ہے، اس مذہب کے متبعین اور شارحین میں ایک اہم شخصیت عبداللہ بن اباض تمیمی کی تھی، جو عبدالملک بن مروان کے عہد میںتھے، یہ حضرات خود اپنے آپ کو’’ اہل الدعوۃ‘‘ کہا کرتے ہیں، بعد میں اپنے مقتدیٰ عبداللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب ہو کر اباضیہ کہلانے لگے، اور مرورِ زمانہ کے ساتھ انھوں نے خود بھی اپنے لئے اس نام کو قبول کر لیا، عام طور پر علماء اہل سنت والجماعت نے ان کو خوارج میں شمار کیا ہے؛ چوں کہ خوارج میں بھی مختلف فرقے ہو گئے تھے، بعض افکار میں اشتراک کی وجہ سے کچھ اہل علم نے ان کو بھی اسی زمرہ میں رکھا؛ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے اور کچھ غلط فہمی بھی، حقیقت یہ ہے کہ ان کے نزدیک خوارج کی طرح گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے؛ البتہ اگر وہ توبہ کر لے تو گناہ معاف ہو جاتا ہے؛ لیکن یہ خوارج کی طرح اجماع، سزائے رجم اور عذاب قبر کے منکر نہیں ہیں؛ اسی لئے یہ حضرات خوارج کی طرف ان کی نسبت کو اپنے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہیں، فقہی اعتبار سے ان کا مسلک احناف سے قریب ہے، میرے سامنے ایک اباضی عالم شیخ علی یحيٰ معمر کی کتاب ’’ الاباضیۃ‘‘ موجود ہے، جس میں ان کے اعتقادی اور فقہی نقطۂ نظر کو بہت ہی اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلک اباضی میں کئی فرقے پیدا ہوئے، جس میں بعض بہت ہی انتہا پسند اور غلو کے حامل تھے؛ لیکن اس وقت جو مسلک اباضی عمان اور بعض افریقی ملکوں میں پایا جاتا ہے، ان کا اہل سنت والجماعت سے چند مسائل کے سوا زیادہ اختلاف نہیں ہے، اور وہ بمقابلہ خوارج اور روافض کے معتدل نقطۂ نظر رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ اہل سنت اُن کو اپنے آپ سے قریب کریں، اس سے بہت کچھ اصلاح ہو سکتی ہے۔
مجھے سب سے قابل تعریف چیز جو نظر آئی، وہ حکومت عمان اور ان کے مذہبی مقتداؤں خاص کر مفتی خلیلی کا توسع ہے، عمان میں فقہ اباضی کے علاوہ فقہ شافعی اور فقہ حنفی پر عمل کرنے والے حضرات ہیں، زیادہ تر شوافع نسلاََ یمنی اور زیادہ تر احناف نسلاََ بلوچی ہیں، حکومت ہر علاقہ کی مسجد میں وہاں رہنے والوں کی مناسبت سے حنفی، شافعی یا اباضی امام مقرر کرتی ہے، دعوت واصلاح کے شعبہ میں بھی اہل سنت میں ان کے ہم مسلک علماء کام کرتے ہیں اور اباضی علماء اپنے ہم مسلکوں میں، مسجد یں تمام مسالک والوں کے لئے کھلی ہیں، حکومت کا شعبۂ امر بالمعروف کسی خاص مسلک کی دعوت نہیں دیتا اور نہ دوسروں کی تغلیط کرتا ہے، اس کا اثر ہے کہ وہاں دوسرے خلیجی ملکوں کی طرح مسلکی کشاکش نہیں ہے، سرکاری دینی جامعات میں بھی فقہ اباضی کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کی بھی تعلیم ہوتی ہے، سرکاری مسجدوں میں بھی ائمہ وخطباء مسلک اباضی کی طرف دعوت نہیں دیتے؛ بلکہ دین کی بنیادی باتوں اور امت کے متفق علیہ عقائد واعمال پر گفتگو کی جاتی ہے، میں نے شیخ خلیلی کے بعض ہندوستانی تلامذہ سے سنا کہ جو غیر مسلم ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے ہیں، وہ ان کو اس ملک کے علماء کے حوالہ کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے علاقہ کے مروجہ مسلک کے مطابق ان کی تربیت کریں؛ تاکہ جب یہ اپنے ملک واپس جائیںتو انتشار کی صورت پیدا نہ ہو، خود مفتی صاحب کو میں نے دیکھا کہ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور دارالعلوم دیوبند کا نام لیا۔
عمان جا کر اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے مدارس میں عقیدہ اور فقہ کی تعلیم کا ایسا نظام ہونا چاہئے کہ وہ اُس مکتبِ فکر کا تو تفصیل اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، جس سے ان کی وابستگی ہے؛ لیکن ساتھ ساتھ اہل سنت کے دوسرے مذاہب نیز اباضیہ اور اثنا عشری حضرات کے اعتقادات اور فقہیات کی بنیادی باتوں کا بھی خود ان کے مآخذ ومراجع سے مطالعہ کریں؛ کیوں کہ سنی سنائی باتوں میں بہت سی دفعہ معلومات کی کمی ہوتی ہے، اور یہ چیز ایک دوسرے کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے ،جب ہم ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ نہیں پاتے ہیں تو دوریاں بڑھتی ہیں، اختلاف ،تشدد کا رنگ اختیار کر لیتا ہے، اور صواب وخطا کی حدود متعین کرنے میں زیادتی ہو جاتی ہے۔
بہر حال یہ دلچسپ سفر تھا، جس سے ایک نئے مکتب فکر کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا، اور ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ میں بہت دنوں سے اپنی تالیف ’’ حلال وحرام‘‘ (جس کے ہندوپاک میں درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اور اس کا عربی، بنگلہ اور پشتو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے) پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، اس سفر میں میزبانوں نے میری خواہش پر کچھ وقت فارغ بھی رکھا ، اس فارغ وقت کو اللہ کی توفیق سے اسی کام کے لئے استعمال کیا گیا، اور یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا، ان شاء اللہ کتاب کا نیا ایڈیشن ان تبدیلیوں کے ساتھ قارئین تک پہنچے گا۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.