Baseerat Online News Portal

عہدِ حاضر میں سر سید کے صحافی کردار کی معنویت.!

عبّاس دھالیوال
مالیر کوٹلہ،پنجاب
رابطہ 9855259650
[email protected]

ملک کے موجودہ حالات میں میڈیا خصوصاً نیوز چینلز کے گرتے معیار کو اگر دیکھیں. تو اسے ہم لوگ موجود ہ دور کی بد قسمتی ہی کہیں گے. اس دور میں چند با ضمیر صحافیوں کو چھوڑ ایسا لگتا ہے جیسے مجموعی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ایک مخصوص طبقہ کی رائے کو رائے عامہ پر تھوپنے میں لگا ہو جیسے میڈیا دانستہ یا نا دانستہ طورپر اپنی حقیقی قوت کو سمجھنے سے قاصر ہو. اس کے ساتھ ساتھ جیسے میڈیا خود تو گمراہی کے اندھے کنوئیں کی طرف گامز ن ہو ساتھ میں ملک اور اس کے عوام کو بھی جبراً تاریکیوں میں غرق کرنے کو بضد ہو۔میڈیا کی مذکورہ حالت یقیناً کسی بھی ملک کے جمہوری نظام کی صحت اور اس کے امن و استحکام کے و بقا کے لیے قطعاً درست و جائز نہیں ٹھہرا ئی جا سکتی۔
صحافت کی حقیقی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے کبھی نیپولین بوناپاٹ نے کہا تھا کہ۔
”I FEAR THREE NEWSPAPERS MORE THEN HUNDRED THOUSAND BAYONETS’’
ٰؑ ’’یعنی ? میں لاکھوں سنگینوں سے زیادہ تین اخبارات سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘
جبکہ اس ضمن میں سرسید کے ہم عصر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا کہ:
کھینچو نہ کمانوں سے،نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
آج ملک جن پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے اور ایسے میں ملک کا بیشتر میڈیا جس طرح سے حقیقی مسائل سے لوگوں کا دھیان بھٹکانے کو ہی صحافت کا نام دے رہا ہے میرے خیال میں ایسے میں سر سید کے صحافتی کردار کا مطالعہ کرنا اشد ضروری ہو جاتاہے۔
سب سے پہلے تو سرسیدّ کا نام زباں پہ آتے ہی اسمعیل پانی پتی کی طرف سے کھینچی ان کی ایک قلمی تصویر سامنے آجاتی ہے کوڈ ’’رنگ سرخ و سفید،چہرہ نہایت پر رعب،پیشانی بلند،سر بڑا، بھویں جدا جدا،آنکھیں متناسب اور نہایت روشن،ناک چھوٹی،کان لمبے،گلے میں بڑی سی رسولی، لمبی داڑھی میں بالکل چھپی ہوئی،جسم فربہ،قد لمبا،ہڈی چوڑی چکلی،ہاتھ پائوں قوی اور زبردست،بدن گٹھیلا اور مضبوط، صورت وجیہ،وزن پورا ساڑھے تین من،لباس ترکی،معاشرت انگریزی۔یہ تھے جوادالدولہ عارف جنگ ڈاکٹر سر سید احمد خاں مرحوم،بانئیِ علی گڑھ کالج،مجدد زبان اردو،باعثِ تخلیق،مسدس حالی‘‘ (اقتباس۔۔نقوش لاہور کے ’شخصیت نمبرسے ماخوذہے)
کسی ماہر مفکر کے خیال میں اگر کوئی فن پارہ سو سال گزرجانے کے بعد بھی پڑھا جاتا ہے یا اس پہ تحقیقی کام ہوتا ہے تو یہ اسکی عظمت کی د لیل ہے۔سر سید کی تخلیقات کو آج وجود میں آئے تقریباً دیڑھ سوسال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے یقینا یہ انکی عظمت کی دلیل ہے کہ آج ہم لوگ انکی شخصیت و فن کے بارے میں جاننے کی نہ صرف سعی کر رہے بلکہ آج کے دور میں ان کے صحافی کردار کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں صحافت کا آغاز جیمس اگست ہکی کے اخبارTHE BENGAL GAZETTE OR CALCUTTA GENERAL ADVERTISE سے 1780میں ہوا۔ جہاں تک اردو کے پہلے اخبارجامِ جہاں نما کا تعلق ہے۔ اس ضمن میںڈاکٹر اخترالسلام خورشید نے اپنی تحقیق میں جو شواہد و حقائق رکھیں ہیں وہ زیادہ و درست و قابل اعتماد ہیں،ڈاکٹر صاحب نے جامِ جہاں نما کے دو ہم عصر اخباروں کلکتہ جرنل اورجان بل کے اقتباسات سے یہ ثابت کیا ہے کہ’جامِ جہاں نما‘ہی اردو کا پہلا اخبار تھا،خورشید نے کلکتہ جرنل کے1822 ء کے فائل کے حوالہ سے اخبار کی اوّلیت ثابت کی ہے۔اس کے تقریباً 14برس بعد’دہلی اردو اخبار‘ کا آغاز ہوتا ہے اس سلسلے میں پروفیسر ناڈگ کرشنا اپنی کتاب ہندوستانی صحافت ’’Indian journalism‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’دہلی اردوخبار کے بارے میں یقین سے کہاجاتا ہے کہ اس کی اشاعت1836ء میں دہلی سے ہوئی تھی۔‘‘دہلی اردو اخبار کو مولوی محمد باقر نے نکالا۔سرسید جنھیں مطالعہ کا بچپن سے ہی شوق تھا نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنے تشکیلی زمانہ میں دہلی اردو اخبار سے مسلسل استفادہ کیا۔
سر سید کا صحافت سے اصل تعارف انکے بڑے بھائی سید محمد خاں کی جانب سے 1841ء میں جاری سیدالاخبار سے ہوا،کیونکہ سید محمدخان ایک سرکاری ملازم تھے اس لیے اخبار کی ادارت کی ذمیداری مولوی عبدالغفو کو سونپی گئی۔مگراس اخبار میں زیادہ تر مضمون سرسید خودہی لکھا کرتے تھے،بھائی کے انتقال کے بعد اخبار کی ادارت کی ذمیداری بھی آپ نے سنبھالی،اس کے علاوہ سر سید کے مضامین اس وقت کے دوسرے اخباروں اودھ پنچ وغیرہ میں بھی شائع ہوتے تھے۔سید الاخبارآگے چل کر 1849ء میںسر سید کی بے جا مصروفییات کے چلتے بند ہو گیا۔
1857 ء کی جنگی ناکامی کے بعد مسلمانوں کے شب و روز کے متعلق نویدپاشا اپنے ایک مقالہ ’سر سید احمد خاں اور رسالہ تہذیب الاخلاق کی اہمیت‘ میں لکھتے ہیں کہ’’سر سید احمد خان کے نزدیک اعلی تعلیم کا حصول مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تھا،1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان اقتصادی طورپر تباہ ہوگئے،ان کی جائیدادیں نیلام ہوگئیں،ان کی جاگیریں ضبط ہوگئیں،اور ہزاروںافراد کو انگریزوں نے انتقامی جذبے کے تحت تختہء دار پر چڑھا دیا۔لاکھوں کھاتے پیتے افراد نانِ شبینہ کے لیے محتاج ہوگئے‘‘۔مذید آگے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے رہ گئے،سر سید احمد خان کے زمانے میںکلکتہ یونیورسٹی سے 240امیدوار بی۔اے کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو پنکھا،قلی،مالی، گھسیارے اور کوچوان کے علاوہ کوئی ملازمت نہیںملتی تھی،وہ تجارت اور تعلیم کے میدان میں،دوسرے فرقوںسے بہت پیچھے رہ گئے ہیںاور انکا بال بال قرض میں پھنسا ہو اہے۔وہ فضول رسمیں ادا کرنے اور رسم و رواج پورے کرنے کے لیے مہاجنوں سے سود پر بڑی بڑی رقمیںلے رہے ہیں، چوں کہ وہ قرض واپس نہیں کر سکتے اس لیے انکی جائیدادیں مہاجن ضبط کروالیتے ہیں۔‘‘

1857 ء کی بغاوت کے ضمن میں سر سید احمد خاں کاخیال تھا کہ اس نے ہندوستانیوں کے اعتبار کو سو برس پیچھے ہٹا دیا ’’اگریہ واقعہ ظہور میںنہ آتا توآج ہمارے سینکڑوں جوان و النٹیئرز ہوتے،ایکٹ اسلحہ کبھی وجود میں نہ آتا اور ہم میں سے بہت سے لوگ فوج کے کپتان اور کرنیل و جرنیل نظر آتے‘‘
قوم کی مذکورہ قابلِ رحم حالت کو دیکھ کر سر سید کے دل میں (ہوک)ٹیس اٹھتی تھی او ر وہ چاہتے تھے کہ میری قوم تعلیم کی اہمیت کو سمجھے اور جہالت کے اندھیروں سے نکل کر زمانہ کے نشیب و فراز سے واقف ہو،سرسید کی اس فکر کا اندازہ ان کے ان جملوں سے لگا سکتا ہے کہ’’جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا،چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کردیا اور میرے بال سفید کر دیئے‘‘
سرسید نے اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے، ۹ جنوری1864ء کو ’سائینٹفک سوسائیٹی‘ قائم کی۔اسی بیچ آپ علی گڑھ آگئے ان کے ساتھ سوسائیٹی کا دفتر بھی۔ سوسایئٹی کی جانب سے 1866ء میں سرسید نے ایک ہفت روزہ اخبار کا آغاز کیا۔سوسائیٹی کے قیام اور اخبار کے حوالے سے سر سید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ’’اس زمانہ میں میرے خیالات یہ تھے کہ ہندوستان میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لیے ایک مجلس مقرر کرنی چاہیئے جو اپنے قدیم مصنفوں کی عمدہ کتابیں او ر انگریزی کی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ کراکے چھاپے‘ انکوڈ(اقتباس۔۔عظیم الشان صدیقی ??’مشاہیر کی آپ بیتیاں‘ ص، ۳۳۔اردواکادمی دہلی)
اخبار سائنیٹفک سوسائیٹی میں سر سید نے منفرد خصوصیات کو گویاایک جگہ یکجا کر دیا تھا. یہ اخبار ہندوستانی تاریخ میں قدیم و جدید صحافت کے بیچ ایک پل کی حیثیت رکھتا تھا،اس اخبار نے ملک کی صحافت کو پہلی دفعہ ادارت کی اہمیت سے واقف کرایا گیا. اردو صحافت میں اس سے پیشتر اکثر عبارتیں مقفی،اور نثر بوجھل اور غیر ضروری تشبیہوں اور استعارات سے پر ہوتی تھی،اس کے دور میں کی آرا ستگی اور نشست وبرخاست پر بے حد زور دیا جاتا تھا، اس تعلق سے سرسید لکھتے ہیں کہ ’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔رنگیں عبارت سے جو تشبیہات اور استعاراتِ خیالی سے بھری ہوئی،ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لٖفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اسکا کچھ اثر نہیں ہوتا پر ہیز کیااس میں کوشش کی۔جو کچھ لطف ہو صرف مضمون کی ادا میں ہو جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے‘‘
سر سید کے مذکورہ خیالات کی عکاسی اقباؔل نے کچھ اس انداز میں کی ہے۔کہ
بات دل سے جو نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
سر سید پہلے ایسے صحافی ہیں جنھونے اردو زبان کو پستی سے نکالا اور تصنیفی معیا ر و مرتبہ دلانے نمایاں رول ادا کیا۔سر سید نے الفاظ کی خوبصورتی کی جگہ اپنے خیالات کی ترسیل پر توجہ دی،اور ایک ایماندار صحافی کا کردار ادا کرتے ہوئے اردو صحافت کو ایک کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع دیا۔ شبلی نعمانی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’سر سید کی بدولت آج اردو اس قابل ہوئی کہ اس کو عشق و عاشقی کے دائرے سے نکال کر ملکی،سیاسی،معاشرتی،اخلاقی اور تاریخی غرض ہر طرح کے مضامین اس خوش
اسلوبی،وسعت،جامعیت،سادگی اور صفائی سے بیان کر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو یہ نصیب نہ ہوئی‘‘
کہتے ہیں حکمت کی بات مومن کا کھویا ہواسرمایہ ہے جہاں سے ملے اسے حاصل کر لو۔اس وقت انگریز قوم تہذیب و تمدن اور تعلیم وتربیت کے سا تھ ساتھ گویا ہر شعبہء زندگی میں ہم اہلِ وطن سے آگے تھی، چنانچہ 1869ء میں سر سید نے انگریزوں کے رہن سہن اورتعلیم وتربیت کے طریقوں کی واقفیت حاصل کرنے کے لیے لندن کا سفر کیا،اس ضمن میں سر سید کہتے ہیں۔کوڈ’’میرا ایک بڑا مقصد انگلستان کے طریقہء تعلیم کو دیکھنا تھا اور اس پر غور کرنا تھا،چنانچہ اس غرض سے کیمبرج یونیورسٹی کو خود جاکر دیکھا اور ہر بڑی چھوٹی چیزکو غور سے دیکھا، تمام نقشہ ذہن نشین کر لیا اور عام تعلیم پر غور کیا‘‘
جب آپ انگلستان سے واپس آئے تو ’تہذیب الاخلاق‘کے اجراء کے موقع پر لکھا کہ’’اس پرچے کے اجراء سے میرا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی سیویلائزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سیویلائزڈ یعنی مہذب قومیں انکو دیکھتی ہیں وہ رفع ہوجائے‘‘
ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قاری کو ملک کے تمام حالات سے باخبر رکھے ساتھ ہی روزمرہ زندگی سے جڑی دوسری دلچسپیوں پر بھی اخبار اپنی پینی نظر رکھے۔ سر سید نے اپنے پرچوں میں مذکورہ باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہی، زندگی سے وابستہ مختلف موضوعات پر مضامین لکھے،ساتھ ہی ضروری اطلاعات بہم پہنچائیںجیسے علاج معالجے،غلے کی قیمت،تاربرقی کامحصول،گھریلو روزگار،ہیئر آئل وغیرہ وغیرہ۔

صحافت پر سر سید کے کردار کی نمایاں چھاپ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مسعود ’’اردوصحافت 19ویں صدی میں‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’نئے اخبارات کے اجراء کے باوجود بھی حالات اردو صحافت کے حق میں ہموار نہیں ہوئے تھے اور بظاہر اسکا مستقبل تاب ناک دکھائی نہیں دیتا تھا اور بہت ممکن تھا کہ مسلمانوںکے زوال کے ساتھ یہ اخبارات بھی رفتہ رفتہ دم توڑدیتے،اگر سر سید احمد کی شخصیت حالات کا رخ موڑنے کے لیے میدانِ عمل میں کود نہ پڑتے‘‘
’ر سید ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ پر کسی انگریز کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے انھیں کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں‘‘

تہذیب الاخلاق اپنے مقصد میں کہاں تک کامیا ب ہوا اور اسکا اثر کس پر کتنا ہوا یا نہیں ہوا۔اسکا خلاصہ کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں کہ ’’تہذیب الاخلاق کے جاری ہونے سے رفتہ رفتہ ایک (معتدبہ)گروہ ایسا بھی پید ا ہوگیا جو اس پرچہ کا ایسا ہی دلدادہ تھا جیسے انگلستان والے ٹیٹلر او ر اسپیکٹیٹرکے دلدادہ تھے،وہ اس کے مضامین پر وجد کرتے تھے اورتاریخ معین پر اسکے انتظار میں ہمہ تن چشم رہتے تھے،اگر سرسید یہ پرچہ جاری نہ کرتے اور مسلمانوں کے خیالات کی اصلاح کا اظہارچھوڑ دیتے،بلکہ صرف ان کی تعلیم کا انتظام کرتے تو ظاہراً ان کی مخالفت کم ہوتی بلکہ شاید نہ ہوتی، مگر اس کے ساتھ ہی اعانت اور امداد بھی کم ہوتی اور جو تحریک چند سال میں مسلمانوں میں پیدا ہوگئی اس کا صدیوں تک کہیں نام و نشان نہ ہوتا‘‘ (اقتباس۔۔اخذ۔۔آب حیات۔ص۔165)
ناوید پاشا اپنے ایک مضمون تہذیب الاخلاق کے مشن کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’سر سید احمد خان نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین میں کوشش کی کہ ہندوستان کی مختلف اقوام خصوصاً ہندوئوں اور مسلمانوں میں آپس کی رنجشیں اور نفسا نفسی ختم ہو اور تمام قومیں ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے ان کی فلاح،ترقی کے لیے کام کریں۔ سر سید نے ہندو اور مسلمانوں کو ایک دلہن کی دو آنکھیں قرار دیتے ہوئے انھیں صلح و میل ملاپ سے رہنے کی تلقین کی۔یہی تہذیب الاخلاق کا مشن تھا‘‘
موجودہ دور کی بات کریں تو جس طرح سے گزشتہ چند سالوں سے ملک کے بیشتر میڈیا خصوصاً نیوز چینلز نے جس طرح سے اپنے فرضی قسم کے بحث مباحثے مباحثوں کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلاتے ہوئے ملک کے لوگوں کے دلوں میں زہر بھرنے کا کام کیا ہے. آج یقیناً ان چینلز کی طرف سے پھیلائی جا رہی مذہبی منافرت سے لوگ بے حد تنگ آ چکے ہیں کہ کتنے ہی بڑے صنعتی گھرانے والے منافرت پھیلانے والے نیوز چینلز سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے ہیں یعنی ان اشتہارات دینے بند کرنے کا فیصلہ لے چکے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جھگڑوں سے دو مختلف فرقوں کے لوگ بھی اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ بقول شاعر:
مذہب کے نام پر یہ فسادات دیکھ کر
ہندو ہے غمزدہ تو مسلماں اداس ہے..!
سرسید نے صحافت میں جو سنگ میل قائم کیے ہیں. جس طرح سے انھوں نے غیر جانبدارانہ اور حکیمانہ انداز میں صحافت کی. ا گر آج انھیں گراں قدر اصول و ضوابط کو ملحوظِ کار لاتے ہوئے صحافت سے وابستہ لوگ عمل پیرا ہوں، تویقینا یہ ملک دنیا کا بہترین ملک اور ہماری قوم ایک اعلیٰ درجے کی مہذب قوم بن سکتی ہے. آخر میں سر سید کے تعلق سے یہی کہوںگا کہ:
دیتا رہوںگا روشنی بجھنے کے بعد بھی
میں بزمِ فکر و فن کا وہ تنہا چراغ ہوں

Comments are closed.