Baseerat Online News Portal

عیدالاضحیٰ کا پیغام ،امت مسلمہ کے نام

 

مفتی محمد جمال الدین قاسمی

رکن آل انڈیا ملی کونسل پھلوا ری شریف،پٹنہ

 

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

 

مذہب اسلام میں صرف دو ہی عید یں ہیں ، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحیٰ،جوذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالم اسلام میں مسلمان عیدالاضحیٰ کی خوشیاں منارہے ہیں،شاداں وفرحاں ہیں ،ہر مسلمان کا چہرہ تروتازہ ہے،ہرایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں،چھوٹے بڑے سب خوش نظر آرہے ہیں،

 

عید کا آغاز 624ءمیں ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اہل مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہو ولعب میں مشغول رہتے تھے،اور بے راہ روی کے مرتکب ہو تے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہد جاہلیت سے ہم اسی دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا! اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر دودن تمہیں عطا کیے ہیں۔ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عیدالاضحیٰ کا دن،

عید الاضحٰی یعنی یہ عید قرباں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے فرزند ارجمند حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سنت ہے،اللہ رب العزت نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کئ امتحانات سے گزارا،اور آپ علیہ السلام تمام امتحانات میں گولڈ میڈل حاصل کیے۔

انھیں امتحانات میں سے ایک بے مثال یہ بھی تھا کہ اپنے ہونہار فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو راہ خدا میں قربان کر یں ،جیساکہ قرآن میں واضح طور پر ارشاد ربانی ہے :

اے میرے رب مجھے نیک بخت اولا د عطا فرما ،چنانچہ ہم نے اس کو ایک برد بار بیٹے کی خوشخبری دی،پھر جب وہ ابراہیم کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم نے کھا:اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم ذبح کر رہاہوں تو تم سوچ لو کہ تمھاری کیا رائے ہے ؟بیٹے نے کہا آپ کو جو حکم ہوا ہے ،اسے کر گزریے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ،چنانچہ جب دونوں نے حکم الٰہی کے سامنے سرجھکا دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا ،توہم نے اس کو آواز دی:اے ابراہیم! یقیناً تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ،ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ،حقیقت میں یہ بڑا امتحان تھا ،ہم نے ایک بڑا ذبح کیا ہوا جانور اس کے فدیہ میں دیا ،اور ہم نے ان کا ذکر خیر ،بعد کے آنے والوں میں باقی رکھا ۔

اس آیت کریمہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں

 

حکم خدا وندی کے سامنے کسی پس و پیش کے بغیر جھک جانا ،خواہ اس کی حکمت سمجھ میں آے یا نہ آئے ۔

ہمارا تعلق حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام سے ہے جو بارہا بڑے بڑے امتحانات سے گزارے گیے ہیں ،ہمارے ساتھ بھی اللہ رب العزت کا وہی معاملہ ہوگا ،اس لیے ہم ہمہ وقت اس کے لئے تیار رہیں ۔

ہم جس طرح رب کی خوشنودی کے لیے جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ،اسی طرح ہمیں اپنی خواہشات نفسانی کی بھی قربانی دینی ہوگی ۔

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنی اولاد سے زیادہ اپنے رب سے تعلق تھا تبھی تو اپنے فرزند ارجمند کو ذبح کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا ،آج ہمیں بھی اپنی اولاد سے زیادہ اپنے رب سے تعلق جوڑنا ہوگا۔

انسانی قربانی اپنی نوعیت اور تاریخ کے اعتبار سے پہلی قربانی تھی کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے تھی۔کسی دیو دیوتا کے نام پر نھی تھی،باپ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے خود ذبح کر نے کے کو تیار تھا ورنہ عموماً اس کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ کہ قربان ہونے والا بذات خود تیار تھا،ورنہ اس سے پہلے قربانی کے لیے زبر دستی پکڑ کر لایا جاتا تھا،یھی وہ سنت ابراہیمی ہے،جس کی یاد میں ہرسال مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر کرتے آئے ہیں۔

 

احادیث شریف میں قربانی کا بہت اجر وثواب بتایا گیا ہے،ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے ایام میں اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ کوئ عمل پسندیدہ نھی ہے،قیامت کے دن قربانی کے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے بدلہ میں بھی ثواب ملے گا،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پھلے ہی اللہ اللہ کے یہاں مقبول ہوجاتاہے،لہذاتم لوگ قربانی خوشدلی کے ساتھ کیا کرو،ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا،یارسول اللہ یہ قربانی کیا چیز ہے،آپ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابہ کرام نے پوچھا کے اس میں ھم کو کیا ثواب ملے گا،آپ نے فرمایا ہربال کے بدلے ایک نیکی،صحابہ کرام کو بھت تعجب ہواکہ بعض جانور پر بال ہوتے ہیں اور بعض جانور کے جسم پر اون ہوتی ہے تو کیا اون کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی آپ نے فرمایا جی ہاں! ہر اون کے عوض میں ایک نیکی ملے گی،جس طرح ہم بالوں کو نھی گن سکتے اسی طرح قربانی کی نیکیاں بھی اس کثرت سے دی جائیں گی کہ ہم شمار نھی کرسکتے یعنی بے شمار اور ان گنت نیکیاں ملیں گی۔

جہاں قربانی کرنے کےبے شمار فضائل ہیں،وہیں پر قربانی نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے،اگر کوئ شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرےتو حضور صلی االلہ علیہ وسلم اس طور پر ناراضگی کا اظہارفرماتے ہیں”من لم یضح فلا یقربن مصلانا،،جو شخص گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آۓ۔ان احادیث کے باوجود کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں جہاں نماز روزے اور دیگر عبادات میں میں لوگ غفلت برتتے ہیں، وہیں لاکھوں انسان ایسے بھی ہیں جن کے ذمہ شرعاً قربانی لازم اور واجب ہے۔پھر بھی قربانی نہیں کرتے ،اورابتداۓ اسلام میں قربانی کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک آدمی سو سو اونٹ کی قربانی کرتاتھا ،خود حضور پرنور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سو اونٹوں کی قربانی کی جس میں تریسٹھ اونٹوں کو خود اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا ۔

یہ مثالیں ہمیں ابھارتی ہیں کہ ہم بھی ان دنوں میں خوب اخلاص وللہیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں،اور اللہ کے حضور میں سرخرو بنیں،

قربانی خوش حال لوگوں پر واجب ہے اور گوشت کا ایک حصہ غرباء پر ،ایک حصہ اپنے اپنے اقرباءورشتہ داروں پر خرچ کیا جا تا ہے۔موجودہ دور میں لوگوں نے فرج میں جمع کرکے رکھنا شروع کر دیا ہے۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور صاحب مال کو غریبوں کا خاص رکھنا چاہیے تاکہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہوسکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خود بھی ان کے یہاں جانا چاہیے ،تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوٰۃ دینا چھوڑ دیا ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔یہ خوبصورت اصول کو سکھ قوم نے اپنا لیا،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے۔

عموماً ایسا ھوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کوبلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کردیتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بار ہا تاکید کی ہے۔

 

عیدکی سنتیں:غسل کرنا،حسب استطاعت نئے کپڑےپہنا،خوشبولگانا،خالی پیٹ جانا جیسا کہ حدیث ہے: حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے لئے اس وقت تک نہ نکلتے جب تک کہ کچھ کھانہ لیتے اور عیدالاضحیٰ میں اس وقت تک نہ کھاتے جب تک کہ نماز ادا نہ کرلیتے (ترمذی)

عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے ( ابن ماجہ)

 

طریقۂ قربانی

قربانی کے جانور کے لئے اگر خصی ،بکری،بھیڑ،دنبہ ہوتو کم از کم ایک سال ،بیل،بھینس ہو تو کم از کم دوسال ،اونٹ ہو تو کم از کم پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ۔اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کر نا سنت ہے،اور خود اچھی طرح ذبح نہ کر سکے تو کسی اور سے اپنی موجودگی میں ذبح کراۓ ،اور پھر قربانی کا جانور ذبح کر تے وقت اسے قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑھیں:انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ،ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی لللہ رب العالمین ،لاشریک لہ وبذالک امرت وانا اول المسلمین ،اللہم منک ولک ،اس کے بعد ،،بسم اللہ اللہ اکبر ،،کھہ کر قربانی کا جانور ذبح کر یں۔(سنن ابوداؤد)

پھر ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں:اللھم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد وخلیلک ابراہیم علیھما السّلام ،،اگر قربانی کسی دوسرے کی جانب سے ہے تو "منی،،کی جگہ ،،من ،،کہیں۔

 

طریقۂ نماز عید الاضحٰی

نماز کی نیت کریں ،پھر امام کے ساتھ ،،اللہ اکبر،،کھتا ہوا ہاتھ اٹھا کر ثنا ءپڑھیں ،پھر اس کے بعد امام کے ساتھ ،،اللہ اکبر ،،کھتاہواہاتھوں کو کانوں تک لے جا کر چھوڑ دیں ،اسی طرح دوسری بار کریں،پھر تیسری بار ،،اللہ اکبر،،کھتاہوا ہاتھ باندھ کر بدستور پھلی رکعت پوری کریں،دوسری رکعت میں قرات کے بعد امام کے ساتھ تین بار تکبیر کھتا ہوا ہاتھوں کو کانوں تک لے جاکر چھوڑدیں ،چوتھی تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائیں ،اور بدستور نماز یں پوری کریں،نماز کے بعد امام خطبہ پڑھیں ،اور تمام مقتدی سنیں،خطبہ کا سننا واجب ہے ۔

 

عید قرباں ہرسال ھمیں یہ پیغام دیتی ہے اور یہ تجدید عہد کراتی ہےکہ تم اسوۂ ابراھیم کو کبھی فراموش نہ کرنا کیونکہ یہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کا طریقہ ہے۔سنت ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز یں پیش کی جائے،جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی ورضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں دکھلاوا اور ریا کاری نہ ہو،

اللہ تعالیٰ ہم تمام امت مسلمہ کو عید الاضحٰی کے تمام پیغامات پر صدق ودل سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین

Comments are closed.