Baseerat Online News Portal

عیدالفطر انعامات خداوندی کادن

محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری امام الہندفائونڈیشن
رمضان المبارک کے پورےماہ کےتکمیل روزوں کے بعد آج عید کی صبح آئی ہےبہت ہی خوبصورت اور رنگین صبح ہے جو پوری شب کے لمبے انتظار کے بعد آفتاب کی پہلی سنہری کرن کے ساتھ درختوں پر کھیتوں پر ہر طرف کچھ عجیب سا سماں بنائے ہے نور ہی نور بکھرا ہے آسمان پر بھی خوب رونق سجی ہے آج کا آفتاب بھی کتنا پیارا لگ رہا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ چرند پرند بھی جیسے خوشی سے جھوم رہے ہوآج ہوا بھی پر لطف ہو کر ہر طرف خوشبو بکھیر رہی ہےصبح ہی صبح سب نہا دھوکر تیار ہوگئے۔گھر گھر میں سویاں اور نہ جانے کتنے طرح کے پکوان پکنے لگےمرد حضرات عید کے نئے کپڑے پہن کر وقت مقررہ پر عید گاہ پہنچے نماز کی ادائیگی کے بعد مسلمان عاجزی و انکساری اتحاد اور بھائی چارگی کے جذبے سے مسرور ہو کر اللہ رب کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریزہ ہوکر شکر بجا لاتے ہیں ہر کوئی عید گاہ میں ہی خوشی سے گلے مل کر عید کی مبارکباد پیش کر رہے ہوتے ہیںکوئی بھی ہو دوست،دشمن، امیر، غریب کا فرق نہیںگھر پہنچ کر گھر والوں سے عید مل کر پاس پڑوس میں عید ملنے جاتے ہیں بچوں کے چہرے خوشی سے روشن ہوتے ہیںاپنے بڑوں سے عیدی کے لئے تقاضے کرتے ہیں بچوں کا یہ سلسلہ تو پورا دن چلتا ہے۔ عیدالفطر گھر میں مسرت لاتی ہےہر آنگن خوشی سے جھوم اٹھتا ہےاور صحیح معنوں میں عید نام ہی ہے خوشی کا روٹھوں کو منانے کا بچھڑوں کو ملانے کا،صلہ رحمی کا،رنجش دور کرنے کا،عید آتی ہے خوشیوں کو آباد کرنے،خواہشوں،تمناؤں،خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنانےکااپنی خوشی میں غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریںاور سب کے ساتھ خوشیاں، محبتیں اور مسکراہٹیں بانٹیں یااللہ عید کے اس خوشی کے دن ہر مومن کا دامن خوشیوں سے بھر دےکوئی غم باقی نہ رہےہر آنگن خوشی سے مہکتا رہے۔
اللہ رب العزت کا ہزارہاشکر واحسان ہےجس نے ہمیں پیداکیا, انواع واقسام کی نعمتوں سے مالامال کیا ،سوچنے،سمجھنے اوربرےبھلے کوپہچاننےکی صلاحیت بخشی اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کےامتی بننےکاشرف بخشاہماری نجات اورمغفرت کیلئے رمضان کامقدس مہینہ عطافرمایا اوررمضان کے روزوں کی اجرت کیلئے عیدالفطر کایہ مبارک ترین تہوارمنانےکاموقع نصیب فرمایا ’’فاللہ الحمد حمداکثیرا‘‘جس طرح سے ایک مزدورکو مزدوری ملتے وقت خوشی ہوتی ہےاسی طرح سےروزہ دارکو عیدالفطرکےدن خوشی ہوتی ہےاسلام نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ اس دن روزہ دارنہ صرف یہ کہ خوش رہےبلکہ خوشی ومسرت کااظہاربھی کرےیعنی عیدگاہ جانےسے قبل غسل کرے،حسب استطاعت نئے اوراچھےکپڑےپہنے،خوشبولگائے،طاق کھجوریں کھاکرعیدگاہ جائے اوردل میں اللہ کی عظمت کااحساس اورزبان پراس کی وحدت وکبریائی کایہ ترانہ ہو’’اللہ اکبر اللہ اکبرلاالہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبروللہ الحمد‘‘اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سےبڑاہے،اس کے سواکوئی معبودنہیں اوراللہ سب سےبڑاہے،اللہ سب سے بڑاہےاوراسی کیلئے ہرقسم کی تعریف ہے۔
بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے ماہ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھاپورے ماہ تقوی کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہ ربّ العزت میں مغفرت کیلئے دامن پھیلائے رکھایہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کیلئے ہے اور اب انہیںمزدوری ملنے کا وقت ہےتاہم، صحابہ کرامؓ اور بزرگان دین اپنی عبادات پر اترانے کےبجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا قول ہے کہ’’ عید ان کی نہیں، جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو ان کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں، جنہوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو ان کی ہے، جنہوںں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے،عید ان کی نہیں، جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کئے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی، عید ان کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کیساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوف خدا اختیار کیا، عید اُن کی نہیں، جنہوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو دوزخ کے پل سے گزر گئے‘‘حضرت علیؓ عید کی مبارک باد دینے کیلئےآنے والوں سے فرمایا’’ عید تو اُن کی ہے، جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچکےہیں۔‘‘اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمرؓبن خطاب کےدور خلافت میں لوگ عید کے روز آپؓ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کئےزارو قطار رورہے ہیں لوگوں نے عرض کیا’’ امیرالمومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپؓ رو رہے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا’’لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی آج جس کی نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہوگئیں بلاشبہ اس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، اُس کیلئے وعید کا دن میںاس خوف سے رو رہا ہوں کہ نہیں معلوم میری عبادات قبول ہوئیں یا انہیں رد کردیا گیا۔
عیدالاضحی اورعیدالفطر‘‘اسلام کے یہ دوعظیم الشان تہوار جنہیں عیدین کہاجاتاہےان معروف اورمخصوص معنوں میں تہوارنہیں ہےجوعام طورپربولایاسمجھاجاتاہےبلکہ ان کے پس منظرمیں تقدس،پاکیزگی ،روحانیت اورقلب ونظرکی طمانیت پائی جاتی ہے۔حضرت سعدبن اوس انصاری ؓ اپنےوالدمحترم حضرت اوس انصاری ؓ سے روایت کرتےہےکہ رسول اللہ ﷺ نےارشادفرمایا’’جب عیدالفطرکادن آتاہےتو خداکےفرشتےتمام راستوں کے موڑپرکھڑےہوجاتےہیں اورکہتےہیں اےمسلمانوں! رب کےپاس چلوجوبڑاکریم ہےجونیکی اوربھلائی کی باتیں بتاتااوراس پرعمل کرنےکی توفیق دیتاہے،پھراس پربہت زیادہ انعام دیتاہے ،تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنےکاحکم دیاگیا توتم نے تراویح پڑھیں ،تم کودن میں روزےرکھنےکاحکم دیاگیاتوتم نے روزےرکھےااوراپنے رب کی اطاعت گذاری کی تو اب چلواپناانعام لےلو ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عیدالفطرہماری خوشی ومسرت کاتہوارہےاوراسلامی مساوات کا عملی نمونہ ہے،اتحادواتفاق کا شاندارمظاہرہ ہےاوراپنی عبدیت اوراللہ کی معبودیت کا برملااظہارہےرمضان المبارک کامقدس مہینہ گذرگیا اس کےروزے پورے ہوگئے،سحری اورافطاری کادورختم ہوگیا اب ہم میں سےجولوگ پورےایک سال زندہ رہیں گےوہی آئندہ رمضان المبارک کی بہاریں دیکھ سکیں گےلیکن کسی کوکیا خبر کہ وہ زندہ رہےگا یاآئندہ رمضان آنے سے پہلے قبرکے حوالے کردیاجائیگاخوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس مقدس مہینےکی قدرکی اوراللہ کی رضاکیلئے بھوک وپیاس کی مشقتیں برداشت کی اوربدنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس کی برکتوں سے اپنی آنکھیں موندلیں ۔رمضان المبارک کے مہینےمیں ہم نے ایک پابندزندگی گذاری ہے،ہم نمازتراویح پڑھ کرسوگئے،لیکن صبح صادق سے کچھ پہلے ہی اٹھ گئےسحری کھائی پھرجماعت کیساتھ فجرکی نمازاداکی اورپورادن بھوکاپیاسارہ کر گذاردیا ۔ہمیں بھوک لگی لیکن ہم نے کھانانہیں کھا یا،پیاس سے ہونٹ سوکھ گئے مگرپانی کاایک قطرہ بھی حلق میں نہیں ڈالایعنی اللہ کی رضاکیلئے ہم نےحلال چیزوں کوبھی اپنےاوپرحرام کرلیا پھرشام ہوئی ،سورج غروب ہواتوہم کھانےاورپینےکی طرف لپکےاوریہ پورےایک ماہ تک جاری رہا ۔ٹھیک اسی طرح ہمیں اپنی پوری زندگی گذارنی ہےکہ اللہ رب العزت نے جن جن کاموں کےکرنےکاحکم دیاہےاس کی طرف ہم لپک پڑیںاورجن کاموں سے روکاہے اس سے بالکلیہ طورپربچیں مسلمان کی زندگی ایک پابندزندگی ہے،مسلمان کوئی چھوٹاہواجانورنہیں ہوتاکہ جس کھیت میں چاہاداخل ہو گیا جہاںسبزچارہ دیکھا وہیں منہ ماردیا ایمان اورمسلمان کی مثال ہمارےنبی حضرت محمدﷺ نےاس طرح دی ہے’’ایمان اورمومن کی مثال ایسی ہےجیسےکھونٹےسے بندھاہواگھوڑاہوتاہےکھونٹےسےبندھاہواگھوڑاچاہے جتنی جولانیادکھائے،کتناہی اچھلےکودےلیکن تھوڑی سی اچھل کودکےبعد اس کے گلےکی رسی اسےمجبورکردیتی ہےکہ اپنے کھونٹےکی طرف واپس آجائے ‘‘یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ آج ہم اللہ اوراس کے رسول ﷺ کوچھوڑکرخدافراموشی اورخودفراموشی کےاندرمبتلاہوگئے،ہم نے اس بات کو بھلادیا ہےکہ اللہ ہی ہماراخالق ومالک ہےاوراس نے ہمیں ایک واضح مقصدکیلئے پیداکیاہےیہ اسی خدافراموشی اورخودفراموشی کانتیجہ ہےکہ ہرچہارجانب ذلیل وخوارہیں ،ہماری کوئی حیثیت نہیں ،ہماراکوئی سماجی مقام نہیں ،ہم پروہ قوم مسلط کردی گئی جوہمیں پھلتاپھولتانہیں دیکھ سکتی آج وہی لوگ ہماری قسمتوں کے مالک بن بیٹھےہیں مگرافسوس ہم ہوش میں آنےکیلئے تیارنہیں ہیں ۔
وائے نا کامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاںجاتارہا
آج ہم خوشی ومسرت کیساتھ ساتھ اپناجائزہ لیں کہ ہم نے کتنے روزے رکھے؟کتنوں کوافطارکرایا؟کتنےمحتاجوں کیلئے سحری اورافطاری کاانتظام کیا ؟ کتنے مجبوروں کی مددکی؟رمضان ا لمقدس کے احترام اوراس کے فیوض وبرکات سےفائدہ اٹھانےکیلئے کس حدتک پیش پیش رہے؟ کلام الہی کی کتنی تلاوت کی ؟اس کی آیات پر غورکرنے کیلئے اوراس کے مفہوم کوسمجھنےکیلئےکتناوقت نکالا؟اوراپنے مولی سے ہم کلامی کاکتنالطف لیا؟نمازمیں کتناوقت گذارا؟کتنی باراپنی خطائوں اورلغزشوں کویادکرکےروئیں؟اللہ رب العزت سے کتنی بارتوبہ و استغفارکیا؟راتوں میںکتنے لمحات سونےکےبجائےیادالہی میں گذارے؟خدانہ خواستہ اگراس کاجوب نفی میں ہے توپھر۔
حضرت کوحق ہی کیا ہے منائیںبہارعید
حقیقت یہی ہے کہ آج بہت سی باتوں کی طرح رمضان المبار ک کاماہ مقدس مہینہ بھی ہمارےنزدیک ایک رسم بن کررہ گیاہےہم محض پورے دن بھوکے پیاسےرہ کر وقت گذاری میںمصروف رہتےہیں اورہم یہ سمجھتےہیں کہ ہم نے اپنافرض اداکردیا حالانکہ روزےکےسلسلےمیں بتایاگیاہے’’لعلکم تتقون‘‘تاکہ تم متقی بن جائویعنی اللہ کی رضاکیلئے بھوک وپیاس کی مشقت برداشت کرنےکامقصدیہ ہےکہ مسلمان متقی وپرہیزگاربن جائیں ۔اسلئے آئیے آج ہم اس عیدالفطرکے مقدس موقع پریہ عہدکریں کہ اللہ کے دین پر کسی صور ت میں آنچ نہیں آنےدیں گےاوراس کی حفاظت وسربلندی کیلئے ہمیشہ تیاررہیں گےاس کے علاوہ آپس میں اتحادواتفاق قائم رکھیں گےاورہرحال میں اپنی مرضی اورخواہشات کواللہ اوراس کےرسول ﷺ کی مرضی کے تابع رکھیں گےاگرہم نے سچےدل سےیہ عہدکرلیااوراس پرپوری طرح کاربندہوگئےتوفتح وکامرانی ہمارےقدم چومنےپرمجبورہوجائےگی۔
عید کے اس پُرمسرّت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں ان میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علیؓ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیںکسی نے کہا’’ آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنہیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟
حضرت معروف کرخیؒ اکابر صوفیاء میں شامل ہیں، ایک عید پر نخلستان میں گری کھجوریں چن رہے تھےایک شخص نے پوچھا ایسا کیوں کر رہے ہیں؟تو فرمایامیں نے ایک لڑکے کو روتے دیکھا، تو اُس سے پوچھا’’ تم کیوں رو رہے ہو؟لڑکا بولامیں یتیم ہوں یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کران کے ساتھ کھیل سکوںاسلئےمیںکھجوریں چن رہا ہوں تاکہ انہیں فروخت کرکے اُس یتیم بچےکو اخروٹ لے دوں۔
عید سعید کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباسؓنے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف آتی ہے تو اسے ” لیلة الجائزة“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں“اے امت محمدیہ ﷺاس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔
اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس نماز عیدکے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرمائوں گا میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطائوں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں یعنی مجرموں کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جائوگے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔

Comments are closed.