Baseerat Online News Portal

عیدالفطر کاحقیقی پیغام

 

از: محمدفیاض عالم  قاسمی

عیدالفطر کی آمد کے ساتھ رمضان المبارک  کاعظیم الشان مہینہ گزرجاتاہے، جس  میں  مسلمانوں کو روزہ  رکھنے اورتراویح پڑھنے کاحکم دیاگیاہے۔اس  لئے دنیا بھر کے مسلمان  بڑے جوش وخروش کے ساتھ پورے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہیں،تراویح پڑھتے ہیں،قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، مگر عیدالفطرکےدن روزہ نہ رکھنے اورکھانے پینے کاحکم دیاگیاہے۔عیدالفطرکے معنیٰ ہی کھانے پینے کی خوشی کے ہیں،عیدالفطراس بات کی غماز ہے کہ ہمارے جسم وجان کے مالکِ حقیقی اللہ رب العزت ہیں،اس نے جب اس جسم و جان کے بارے میں حکم دیا کہ اسے میری یاد میں میرے نام کے ساتھ تھکاؤ۔ قسم قسم کے حلال اناج ، غلہ،پھل فروٹ،وغیرہ کا کھانا اب بند کرو،ان حلال اشیاء کو پیٹ میں ڈال کر اپنے جسم کے لئے قوت و توانائی حاصل کرنابھی دن کے اوقات میں تمہارے لیے حرام ہے،توگویاکہ ہمارے جسم و جان پر اسی مالک حقیقی کا قبضہ ہے ؛لہذا مہینہ بھر کی قید و بند کی صعوبتیں اور حلال اشیاء کی پابندی سے آزادی عید کے دن مکمل مِل جاتی ہے۔ یہ آزادی اس بے بس اور نا تواں انسان کے لیے یقینابا عث ِخوشی اور پر مسرت یادگارہے؛لیکن اصل خوشی  اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےہم کو اسلام کی دولت سے نوازا، اس نے ہمیں صحت دی، ایسی صحت جس سے روزہ رکھ سکیں اور پھر اس کے بعد سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ روزہ رکھنے ،تراویح پڑھنےاوردیگر خیرکے کام کرنے کی  توفیق دی،سارے اسباب موجود ہوں اورتوفیق خداوندی نہ ہو تو روزہ رکھنا تراویح پڑھناناممکن ہے۔پس اس توفیق خداوندی پر اللہ کاشکریہ اداکرنا،اورجبین نیاز کو خم کردینااصل عید ہے۔

اسلام کایہ عالمی جشن صرف موج ومستی اور اظہار خوشی کانام نہیں ہے، بلکہ سب سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شکرانہ کے طور پر دورکعت نماز اداکرنی ہے۔چوں کہ  عموماانسان موج مستی کے وقت اپنے حدود سے باہر نکل جاتاہے، اور اس خوشی میں اپنے کو وجود بخشنے والے خالق ہی کو بھول جاتاہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی یاد اور اپنے سامنے سر بسجود ہونے کو واجب قرار دیا۔

یوں تو ہرمذہب اورہر قوم میں سینکڑوں کی تعدادمیں تہوار اورفنکشنس ہیں،مگر اسلام میں صرف  اورصرف دوتہوارہیں، اوروہ عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ دو  دنو ں میں کھیل کو داورموج مستی کر رہے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دن کیسے ہیں؟تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فر ما یا : اللہ تعالی نے تمہارے ان دنوں کو ان سے اچھے اور بہتر دن سے بدل دئے ہیں اور وہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہیں ۔ (ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۱۳۴)یعنی یہ دونوں دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے جشن اور رسم کے طور پر خوشی منا نے کے لئے عطا کئے گئے۔جس میں مسلمان مذہب اسلام کی شایانِ شان جشن اور خوشی مناتے ہیں، نہ کہ جاہلیت کے طریقہ پرجیساکہ آ ج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی بعض قوموں کاجشن ہے کہ کھاؤ، پیو،خوب گھومو، پھرو، ہوٹلوں اورپارکوں میں جاکروقت ضائع کرو، پیسے اڑاؤ،اورپٹاخے پھوڑووغیرہ وغیرہ، مگر اسلام کےاس عالمی جشن میں  حکم ہے کہ  پہلےغریبوں کو فطرہ دو،تاکہ وہ بھی  عیدکی خوشی میں شامل ہوجائیں،ان کے گھرمیں بھی خوشی کاچراغ جلے،اس جشن میں کسی کالے گورے کاکوئی فرق نہ ہو، مالداروں اورغریبوں کاکوئی امتیاز نہ  ہو،کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہ کیاجائے،اورنہ ہی کسی کے ساتھ چھوت چھات کامعاملہ کیاجائے،عصبیت اوراونچ نیچ کو بالکل بھی جگہ  نہیں دی جائے؛ بلکہ سب مل کر اللہ کو خوب خوب یادکرو،اوراس  کے سامنے دورکعت شکرانہ کی نمازپڑھو ۔

رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ روزہ رکھتے ہیں،بھوکے اورپیاسے رہتے ہیں،نماز،تلاوت،صدقہ اوربھلائی کے کام کرتے ہیں،جھوٹ، غیبت، چغلی دھوکہ دہی، ایذارسانی  اوردیگر گناہوں سے بچتے ہیں۔یہ  روزہ دراصل یک ماہی کورس ہے،جس میں انسان کو نیک کاموں کے کرنے اورگناہوں سے بچے رہنے  کی تربیت دی جاتی ہے،اب عیدکے بعد اصل امتحان شروع ہوتاہے کہ ہم نے اس مبارک مہینے میں کس قدرتربیت حاصل کی،اس کے ثمرات وبرکات سے کس قدرمحظوظ ہوئے؟

حضرت مولاناابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے بقول انسان  پر دوقسم کے روزے فرض ہیں، ایک وہ جورمضان میں رکھے جاتے ہیں، یہ چھوٹے روزے ہیں،اوردوسراوہ  جو زندگی بھی رکھناہے اوروہ اسلام کاروزہ ہے۔یعنی مذہب اسلام خود ایک روزہ  ہے، رمضان کے روزے کی شروعات صبح صادق سے  ہوتی ہے اورغروب آفتاب پرختم ہوجاتاہے،جب کہ اسلام کاروزہ  بالغ ہونے کے بعد سے یا کلمہ طیبہ لاالہ محمدرسول اللہ کی شہادت کے بعد سے وفات تک درازہوتاہے۔جس طرح چھوٹے روزے میں بہت سارے اصول وضوابط ہوتے ہیں، بہت سارے احکام ہیں، بہت سارے ممنوعات ہیں،اسی طرح اس بڑے روزے میں بہت سارے احکام ہیں، بہت سارے ممنوعات ہیں،جس طرح رمضان کے روزوں میں بہت سارے کام کئے جاتے ہیں اوربہت سارے کاموں سے رُکاجاتاہے اسی طرح زندگی بھر کے روزے میں بھی بہت سارے کام کرنےکے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کاسبب ہوتے ہیں اوربہت سارے کاموں سے رکناہوتاہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کاذریعہ ہوتے ہیں۔سب بڑاحکم  یہ ہے کہ  توحید کااقرارکرلینے کے بعدانسان اس پر جمارہے،اورسب سے بڑاممنوع یہ ہے کہ  شرک سے بچاجائے،اس کے علاوہ  اوامرمیں سے یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے،حلا ل روزی کمائی اورکھائی جائے،غریبوں کی مددکی جائے، سچ اورحق  بولاجائے،امن و امان اور عدل وانصاف قائم کیاجائے،محبت اوربھائی چارگی کوفروغ دیاجائے،نواہی میں سے یہ ہے کہ غیراللہ  کی پرستش سے بچاجائے،حرام مال نہ کمایاجائے، اور نہ  کھایاجائے، مال ودولت اوردنیاکی محبت کو دل میں جگہ نہ دی جائے،جھوٹ، غیبت،بہتان،دھوکہ،اختلاف،جھگڑا،گالم گلوچ،لڑائی قتل وغارت گری سے بچاجائے۔ظلم وستم ،بدامنی اوردہشت گردی کا سدباب کیاجائے۔یہ اوراس طرح کے احکام بڑے روزے یعنی اسلام کے تقاضے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ چھوٹاروزہ یعنی رمضان کاروزہ ایک ٹریننگ کورس تھا؛تاکہ بڑے روزے کے اصو ل وضوابط پر  اچھی طرح سے عمل کیاجاسکے۔جس طرح رمضان کے روزے رکھنے پرمغفرت، جنت کے وعدے اورخداکی رضامندی کاوعدہ کیاگیاہے، اسی طرح زندگی بھرکے روزے پراللہ تعالیٰ کوخوشنودی اورایسےایسے اکرامات سے نوازنے کاوعدہ کیاگیاہے کہ آج تک    نہ  کسی آنکھ نے دیکھاہے ، نہ  کسی کان نے  سنااورنہ کسی  انسان کےدل میں  وہم وخیال میں آیا۔

بہرحال عیدالفطر کایہ جشن توفیق خداوندی اخوت وبھائی چارگی، اوراتحاد ویکجہتی کا پیغام دیتاہے، عیدالفطر کایہ جشن غریبوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کرنے کاپیغام دیتاہے۔عیدالفطر ایک بڑے روزے یعنی اسلام کے سارے مقتضیات پر عمل کرنے کی  تلقین کرتاہے۔

*مضمون نگار دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی کے قاضی شریعت ہیں۔

Comments are closed.