Baseerat Online News Portal

عیدمحکوماں ہجوم مومنین

عبدالرافع رسول
خون میں ڈوبے فلسطینی مسلمانوں کی عیدبھی خون میں ڈوبی ہے۔ان کی بستیوں پرآتش وآہن برس رہاہے ،ان کاساراوجودزخموں سے چورہے ۔بچوں اورخواتین کی چیخ وپکارسے زمین شق ہورہی ہے اورآسمان لرزرہاہے ۔ہائے افسوس! آزاد اور محکوم و مجبور مسلمانوں کی عید میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے آزاد مسلمان کی عید میں دین و حکومت کی شان و شوکت ہوتی ہے۔ جبکہ غلاموں کی عید کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ہجوم کچھ دیر کے لیے ایک جگہ جمع ہوگیاہو۔ لیکن بنظرغائردیکھیں آج مسلمان کہیں آزادنہیں۔کئی عشروں سے لگاتار عید کے موقع پر چشم فلک فلسطین ،کشمیرافغانستان میںمسلمانوں کے مذبح خانوںکے مناظر دیکھ رہی ہے۔مظلوم مسلمان جس صورتحال سے دوچارہیں، مسلم ممالک کے حکمرانوں کی قومی و ملی غیرت جگانے کیلئے اس میں دعوت فکر و شعور کا وافر سامان بھی موجود تھا۔لیکن افسوس کہ ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی دینی غیرت جاگ نہ سکی۔ مسئلہ فلسطین اورمسئلہ کشمیر دو ایسے مسائل ہیں جن کی سنگینی سے جان بوجھ کرتوجہ ہٹائی جاتی ہے یہ صرف اس لئے کہ دونوں خطوں میں محکوم و مجبور عوام چونکہ مسلمان ہیں اس لئے تمام تر استحقاق کے باوجود عالمی طاقتوں کی بے مہری اور منافقت کا شکار ہیں۔ دونوں کے جائز اور پیدائشی حق آزادی کو دبانے والے ممالک اسرائیل اور بھارت اس وقت عالمی استعمار امریکہ کی چھتری کے نیچے سر جوڑ کر سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس طاغوتی اور شیطانی تکون کی سازشوں کا اہم ہدف مسلمان ہے اسی لئے چاردانگ عالم وہ قتل ہورہاہے ۔ بدقسمتی سے عالمی سیاسی قوتیں بھی اسلام کو چونکہ ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہیں اس لئے کسی ایسے معاملے میں اخلاص اور وفاداری برتنے سے گریز کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کو تقویت مل رہی ہواور فلسطین اور کشمیر اسی عالمی سرد مہری کا شکار ہے۔
انسانی خون کی ندیاں رواں ہیں اور پیدائشی حق کیلئے برسرمطالبہ فلسطینی اورکشمیری عوام پربالترتیب اسرائیلی اوربھارتی مسلح افواج دن دیہاڑے مظالم کے پہاڑ گراتی ہیںاور خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت سب کو نہایت بے رحمی کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مگر کسی کا ضمیر جاگتا ہے اورنہ ہی کسی کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ہر طرف خاموشی چھا جائے اور کسی عالمی فورم پر اس مسئلے کی بازگشت سنائی نہ دے۔تواس کالامحالہ نتیجہ یہ نکلا بھارت اوراسرائیل کوشہہ مل رہی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں کاقتل عام کریں۔ ایسے میں فلسطینی اورکشمیری مسلمان عید اس بے چارگی کے عالم میںمنارہے ہیں کہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے جارہے ہیںاوران کاخون بے دریغ بہایاجارہاہے۔
فلسطین میںیہودی اورکشمیرمیں ہنودی فوجیں علمبرداران توحیدکے قتل عام کرنے میں مصروف ہیں ۔یہ بات الم نشرح ہے کہ امریکہ کی مکمل تائید وحمایت پروونوںجنونی حکومتوں کی قاتل اورسفاک فوجیں دومسلمان آبادیوں پرمشتمل مقبوضہ خطوں میںعرصہ سے قتل عام جاری رکھی ہوئی ہیں ۔اسی کا شاخسانہ ہے کہ فلسطین میں یہودکی ننگی بربریت، کشمیرمیںہنودکے ظلم و ستم اور کھلی سفاکیت پر دنیائے کفران کادرپردہ ساتھ دے رہی ہے ۔ عرب حکمران تو ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اورشراب وشباب کے وہ دلداہ بنے ہوئے ہیں۔وہ تواس دورکے ابوجہل ،ابولہب ،عتبہ ،ربیعہ اورشیبہ بن کراس دورکے ہبل یعنی ڈالرکے پجاری ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عجم کے مسلما ن ممالک پرمسلط پٹھو حکمران محض اپنااقتداربچانے کے لئے اغیارکی خوشنودی بجالانے میں مصروف ہیںمسلمان ممالک کے حکمرانوں کے اس شرمناک طرزعمل کی وجہ سے چاردانگ عالم مسلمانوں پر زمین اتنی تنگ ہوچکی ہے ۔
شکوہ مومنین توبڑی چیزہے ،پوری امہ آہ شکوہ مومنین کیاشکوہ ملک ہی سے محروم ہیں۔شکوہ ملک جس چیزکانام ہے وہ ہرقسم کے خارجی وداخلی اثرات سے آزاد اورپاک ملکی پالیسی ہے ۔داخلی اطمینان اور سرحدوں کی قوت وشوکت ہے ،دوسرے ممالک میں عزت ومنزلت کامقام ہے ، قوموں کی برادری میں سربلندی ہے،افرادِ قوم کااطمینان معاشی ومعاشرتی خوشحالی ہے لیکن خوردبین لگا کربھی آپ کویہ اوصاف کسی مسلمان ممالک میں نہیں ملتے بلکہ مسلمان مملکتیں اپنے اندرکئی گروہوں میں بٹ کرایک دوسرے کے خلاف سردجنگ اورپراکسی وارلڑرہی ہیں اوراپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں ۔اغیاراس بات پرخوش ہیں کہ ہزاروں میل دوربیٹھ کروہ ان پرحکومت کررہے ہیں۔اگردنیاوی دولت سے اللہ نے کچھ اسلامی ممالک کومالامال فرمایاہے توان کی دولت سے فائدہ بھی اغیار اٹھا رہے ہیں، ان مسلمانوں کے خزائن اغیارکے تصرف میں ہیں اوراسی سرمائے سے مسلمان ممالک کواسلحہ تیارکرکے فروخت محض اس لئے کیاجاتاہے کہ اس کاتجربہ بھی تم دوسرے مسلمان ممالک کی آبادی پرکرو۔
؎پھرشکوہ دیں یہ ہے کہ اللہ جس کے حاکم ہونے کااقرارہم سب کرتے ہیں جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اسی کاحکم اورقانون چلے اورجس کوآقامانا ہے، اس سے انحراف نہ ہو۔لیکن یہ عجیب مذاق ہے کہ ان الحکم للہ اسی کے حکم کی ذرہ بھرپرواہ نہ ہو۔ادھرہرطرف دین کے نشاناے مٹ رہے ہوں ادھررقص وسرورکی مجالس سج رہی ہوں، گانا بجاناکلچرکے نام پررواہو،شراب کی کھلی اجازت ہو، چوری چکاری ،بدعنوانی،رشوت خوری موجود ہو ، رزقِ حلال کاحصول ناممکن کر دیا ہو،جوبچاکھچادین قوم میں صدیوں کے انحطاط کے باوجودباقی چلاآرہاہواس کابھی صفایا کیا جا رہاہو،قوم باربارپکارے کہ ہمیں دین کی حکمرانی اوراسلام کاقانون چاہئے ،اسی کے خلاف ساری قوت اورطاقت استعمال ہورہی ہو اور دین سے ہرقدم دورجارہاہو،برسوں کاسفرزندگی مکہ مدینہ کی سمت چھوڑکرکسی اورہی سمت کیاگیاہوتووہاں شکوہ دین کہاں سے آئے گا؟پھر جب نہ شکوہ ملک ہونہ شکوہ دین توپھرآزادبندہ مومن کہاں ملے گا؟ اوریہی وجہ ہے کہ عیدکادن ہجوم ِ مومنین کے سواکچھ نہیں۔
ہاں البتہ اگرہم عید کی حقیقی خوشیوں کاحصول چاہتے ہیں تویہ بہترین موقع ہے کہ 57مسلمان ممالک اپنی آزادی کویقینی بنائیںعالم کفرکے سامنے سیسیہ پلائی ہوئی دیواربن جائیں ۔اپنے ہی اہل وطن کاقتل عام بندکرکے اپنے عوام سے مذاکرات اورگفتگوکے ذریعے خلیج کوپاٹنے کی مستقل سبیل کرلیں اورانہیں گلے سے لگائیںپھربیک آوازکشمیراورفلسطین کی آزادی کابیڑہ اٹھائیں ۔یہ امرواضح ہے کہ مسلم قوم کی عید تب ہوتی ہے جب ان کا ملک با وقار ہو، انکے اپنے عوام ان کے تمام شرورسے محفوظ ہوں اور دین سر بلند ہو۔ آج مسلم ممالک پرمسلط حکمرانوںکا اپنے عوام اوراپنے دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہماری حالت کیاسے کیاہوئی ہے؟ اس لئے ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب چاردانگ عالم مسلمان کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، خدا مختاری کادوردورہ ہوگا ، دین سر بلند ہوگا، اور کرہ ارض پرہم اپنے دین کے نفاذ اور سر بلندی کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔ اس لیے کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے؟
عید کا تعلق بنیادی اور اصولی طور پر عبادت کے ساتھ مربوط ہے۔ عیدالفطر نزول قرآن اور رمضان کی یاد گار ہے اور عیدالاضحی ایثار و قربانی، سرفروشی و جان نثاری سے عبارت ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز، تعلق با للہ اور بندگی رب سے ہوتا ہے۔ رمضان میں روزہ، تراویح، تلاوت، اعتکاف اور زکو اہ کے ذریعہ حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد عید الفطر اس امر کی ضمانت ہے کہ اللہ کے بندوں کو یقین و ایمان کی تازگی کے ساتھ قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ زندگی میں صرف مسرت و شادمانی کے لمحات آتے ہیں یا صرف عبادات کے مواقع ملتے ہیں لیکن عید کا معاملہ دوسرا ہے کہ عید میں عبادت و مسرت ، لذت کام و دہن کے ساتھ روحانی بالیدگی اور قوت و طاقت بھی میسر ہوجاتی ہے۔
عید میں اگر صرف لذت جسمانی اور لطف اور مسرت اور خوشی شادمانی کا معاملہ ہوتا اور اس کے ساتھ جذبہ ایمانی اور نشاط روحانی کو شامل نہ کیا گیا ہوتا تو اس صورت میں عیدکی نوعیت بس ایک باطل تہوار جیسی ہی ہوتی، جس کے ذریعہ محض مادی تقاضے پورے کیے جاتے ۔ عید میں بنیادی اہمیت چونکہ عبادت اور فکر آخرت کو حاصل ہے ۔ اس لیے عید کو ایک عظیم الشان اور ناقابل فراموش یاد گار کے ساتھ جوڑ دیا گیاکہ بستیوں سے نکل کرعیدگاہوں اورمیدانوں میں نمازعیداداکی جائے۔اس کی شان وشوکت اوراسکی عظمت کودوبالاکرنے کے لئے عیدپرزکواہ،صدقات اورخیرات بالالفاظ دیگر دامے، درمے ،قدمے، سخنے اپنا کردار ادا کیا جائے تاکہ امت کی اخوت کوچارچاندلگ جائیں۔

 

Comments are closed.