Baseerat Online News Portal

غداروں پر رحم نہیں کرنا چاہیے۔ محمد صابر حسین ندوی

غداروں پر رحم نہیں کرنا چاہیے۔

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

غداری، دھوکہ دہی منافقت کی دوسری تصویر ہے، اسلامی تاریخ میں ان ہی غداروں نے اسلامی شعائر کو گزند پہنچائی ہے، اسلام اور اسلامیت کی آڑ میں امت مسلمہ کو دوہرا چہرا دکھایا ہے، مشرکین، کفار اور صلیبیوں و صہیونی کی معاونت کی ہے، اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے ان کے شیرازے کو بکھیرا ہے، انتشار پیدا کر کے پوری قوم و ملت کو نقصان پہنچایا ہے؛ حتی کہ قرن اولی کی مبارک ساعتوں میں انہوں نے اسلامی اقدار کی پامالی کرتے ہوئے مختلف محاذ پر مسلمانوں کو مشکل سے دوچار کیا ہے، یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوجھ بوجھ اور اعلی کردار کی بات تھی کہ نہ صرف انہیں برداشت کیا گیا؛ بلکہ انہیں رام کرنے کی کوشش کی گئی، عمدہ سلوک و محبت کے ساتھ بہترین سیاسی سمجھ نے ان کے منصوبوں پر خاک ڈال دی، وہ بے مراد ہوئے، خلفائے راشدین اولین نے انہیں سر اٹھانے کی اجازت نہ دی، مگر ان کے سیاسی جال اور نفاق و دھوکہ دہی کا مکر کسی قدر متعدی ہوچکا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیر دور سے ان کے منصوبوں نے عالم اسلام کو یوں متاثر کرنا شروع کیا کہ پوری ملت ہمیشہ ہمیش کیلئے ایک سازشی ژون میں چلی گئی، ایک سلسلہ بندھ گیا، لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہئے کہ مسلمانوں نے انہیں تمام رخوں پر قابو میں کرنے کی کوشش کی، ایک دور وہ بھی آیا جب غداروں کیلئے محفوظ جگہ تلاش کرنا مشکل تھی، عباسی، اموی، فاطمی اور پھر عثمانی دور میں انارکی کے ساتھ ساتھ یہ بھی مسلم حقیقت تسلیم شدہ سمجھی جاتی تھی کہ غداروں کا ٹھکانہ جہنم ہے؛ حالانکہ اس حوالے سے کئی مرتبہ وہ واقعات بھی پیش آئے جن سے تاریخ دانوں نے اعتراض کیا ہے، مغربی متعصب مفکرین انہیں اچک کر پوری اسلامی تاریخ کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں، اور نت نئے الزام لگا کر مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی یہی صفت انہیں دشمنوں کے مابین سکون فراہم کرتی تھی، ان کی تلواریں ہمیشہ ننگی رہتی تھیں، غداروں کی گردنوں پر سونتی رہتی تھی، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم بتیس دانتوں کے بیچ ایک ایسی نرم و نازک زبان ہیں جس کو کہیں سے بھی کاٹا جاسکتا ہے، ویسے بھی گل و گلاب کے ساتھ ہر شاخ کانٹوں سے بھری ہے، خوشیاں اپنے ساتھ دبے پاؤں غموں کی ٹولی لیکر آتی ہے، ایسے میں کسی اطمینان کی کروٹ چمٹ کر رہ جانے سے وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس صفت کو پس پشت ڈال دیا، ایک عرصے سے انہوں نے مصالحتی ایجنڈے کو یوں اپنایا ہے کہ ہر شئی میں امن کی جستجو کرتے ہیں، انسانیت دم توڑتی ہے، دشمان اسلام اور غدار ان کے سروں سے کھیلتے ہیں، دیار حرم میں بھی گھس کر رسوا کئے جارہے ہیں، آستین کے سانپ اور بیرونی غداروں کا تانتا لگا ہوا ہے؛ لیکن وہ ہر موقع پر اسلام کی سلامتی و محبت کو سامنے رکھتے ہوئے "ولکم فی القصاص حیاۃ” کو نظر انداز کر جاتے ہیں، وہ اب غداری کو سرآنکھوں پر رکھتے ہیں، محبت کا تحفہ پیش کرتے ہیں، انہیں سے امن معاہدے کرتے ہیں اور خود اپنے بھائیوں کو ان کے مقتل میں بھیج دیتے ہیں، وہ گویا اجازت دیتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات مجروح کردیں جائیں، دنیاوی مفادات کے سامنے وہ یوں سرنگو ہوجاتے ہیں کہ بس زندگی ہی اصل ہے، موت سے انہیں نفرت اور علم اسلام کی سربلندی سے بیزاری لگنے لگی ہے، غدار وہ خود بھی بنتے ہیں اور غداری کو راہ دیتے ہیں، منافقین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں تسلیم بھی کرتے ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں؟ جنہوں نے غداروں کو سزا دینے کے بجائے انہیں محافظ مان لیا ہے، ان سے دوستی و رقابت کا تعلق قائم کر کے خود کی پیٹھ تھپتھپائی جارہی ہے، دنیا کے سامنے اپنی برتری ثابت کی جارہی ہے اور اسلام کے سینہ میں خنجر گھونپا جارہا ہے، کاش ان غداروں کا سر قلم کیا جاتا تو رسوائی نہ ہوتی اور اسلام و مسلمانوں کی یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی-

29/09/2020

Comments are closed.