Baseerat Online News Portal

غزل حامد تحسین کی نظر میں

منظور پروانہؔ
دورِ حاضر میں غزل کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ اب غزل اپنے لغوی معنی کے حصار سے آزاد ہوچکی ہے۔ اب غزل گل و بلبل، وصال و ہجر اور محبوب کے لب و رخسار اور اس کی عشوہ طرازیوں اور غمزدہ کی داستان بیان کرنے کے بجائے غمِ دنیا، غمِ جاناں، فکرِ معاش کے مسائل کے اظہار کا وسیلہ بن چکی ہے۔
لیکن حکیم حامد تحسین کی کتاب ’’غزل پیارکی منظوم کہانی ہے‘‘ میں شامل ان کے مضمون ’’غزل مرثیہ نہیں ہے‘‘کے مطالعہ سے غزل کے سلسلے میں حکیم حامد تحسین کے خیالات سے آگاہی ہوئی اور ان کا نظریہ سامنے آتا ہے۔
حکیم حامد تحسین کا ماننا ہے کہ ’’جس طرح گلشن میںطرح طرح کے پھول کھلتے ہیں، اسی طرح اقلیم شاعری میں اصناف سخن کا چمن مہکتا ہے، جس طرح پھولوں کی بناوٹ، ان کی ادا، ان کی شگفتگی اور خوشبو جدا جدا ہے، اسی طرح اصنافِ سخن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلّم اور جدا ہے،ان کی اہمیت و افادیت اور مقصدیت بھی علیحدہ علیحدہ ہے۔‘‘
اپنی بات کو مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’شاعری انسانی جذبوں کی نمائندگی کرتی ہے، جس کو زندگی کا درد، زندگی کا کرب اور زندگی کا المیہ بیان کرنا ہو اس کے لئے صنف مرثیہ موجود ہے، جس کو تعریفوں کے چراغ جلانے اور بلاغت کا آسمان روشن کرنا ہو اس کے لئے قصیدہ کی صنف ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے، جس کے ذہن میں کوئی کہانی کا خاکہ اس کے لئے نظم گوئی کا دامن وسیع ہے،کچھ لوگ کم بولتے ہیں اور اچھابولتے ہیں،ان کے اظہار کی ترجمانی کے لئے رباعی اور قطعہ موجود ہے، جن کو کوئی داستان نظم کرنی ہو ان کے لئے مثنوی ہے، اسی طرح دوسری اصنافِ سخن اپنی خوبیوں کے ساتھ موجود ہیں، پھر غزل کو مرثیہ کیوں بنایا جارہا ہے؟
غزل کو مرثیہ نہ بنانے پر اصرار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’خدا را غزل کو اس کے ادبی دائرے میں ہی رہنے دیں، یہ اس لباس و پوشاک میں ہی اچھی لگتی ہے جو میرؔ و غالبؔ کے زمانے سے پہنتی چلی آرہی ہے۔ یہ تو داغؔ کی زبان جانتی ہے، یہ تو ولیؔ کی مرید ہے، یہ تو امیر خسروؔ سے عقیدت رکھتی ہے، یہ تو چندربھانؔ برہمن سے پیار کرتی ہے، یہ تو آبروؔ کی لاج رکھنا چاہتی ہے،یہ تو ظفرؔ کے تاج کے ہیروں کی چمک برقراررکھنا چاہتی ہے۔ آپ اس کو نہ ستائیں اور اس پر ظلم نہ کریں۔‘‘
ہوسکتا ہے کہ قارئین کو حکیم حامد تحسین کے خیالات سے اختلاف ہو کیوں کہ فکری اختلاف ہمیشہ ہوسکتا ہے مگر حکیم صاحب کے غزل سے اس لگائو اور محبت کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں دوردرشن کے پروگرام کے لئے ’’بزم غزل‘‘ کے نام سے تحریر کردہ اسکرپٹس شامل ہیں تو دوسرے حصہ میں حکیم صاحب کی وضع کردہ غزل کی سو(100) تعریفیں شامل ہیں۔ حکیم حامد تحسین نے غزل کی جو توصیفیں کی ہیں اس کے ذریعہ غزل کی پوری تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ سب سے اہم اور لائقِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ کام انہوںنے عمر کی اس منزل پر انجام دیا جب لوگ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔
پوری کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر اس کتاب کا مطالعہ قاری یکسوئی اور دلجمعی سے کر لے تو یقینا وہ ایک کامیاب ناظم مشاعرہ کا کردار بخوبی ادا کرسکتا ہے۔
دعویٰ بغیر ثبوت کے بیکار ہوتا ہے، لہٰذا پنے دعوے کے ثبوت میںچند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
ناظرین!
حامد جی! غزل کی پری جب چھم سے دل کے آنگن میں اترتی ہے تو قوس و قزح کے رنگ بکھر جاتے ہیں، سازِ دل پر جل ترنگ سا بجتا محسوس ہوتا ہے، چوڑیوں کی کھنک، پائل کی چھنک، کانوں میںشہد سا ٹپکانے لگتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اپنے آنچل پر کہکشاں سجائے آسمانی کی الہامی فضائوں سے خوابوں کی کوئی حسین پری چھم چھم کرتی سچ مچ دل کی وادی میںاتر رہی ہے۔
اس پری کو آپ کے دل کے آنگن میں اتار رہے ہیں ہندوستان کے نامور اور خوش نغمہ شاعر۔
ناظرین!
غزل جب امنگوں کے پیمانوں سے چھلکتی ہے تو آرزوئوں، تمنائوں اور خواہشوں کا دامن تر ہوجاتا ہے، جب ہم اس تر دامن کو نچوڑتے ہیں تو دل کے لہو کی بوندیں اس میں شامل ہوتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں سوئی ہوئی ان ہی امنگوں کے پیمانوں کو چھلکانے کے لئے تشریف لائے ہیں۔
ناظرین!
غزل کی پانچ سات یا نو اشعار پر مشتمل مشک و عنبر کی ایک ایسی ڈلی ہے جو بکھرتی ہے تو نہ صرف بزم غزل کی فضا معطر کرتی ہے بلکہ یہ خوشبو ہوا کے دوش پر سوار اردو دنیا کی فضائوں میں پہنچتی ہے تو سارا ماحول مستی میں جھوم جھوم جاتا ہے۔یہی غزل کا حسن ہے، یہی غزل کا جادو ہے اور یہی غزل کی مقبولیت ہے۔
ناظرین!
غزل خاتونِ خانہ نہیں ہے جو چولہے کے گیلے ایندھن میں پھونکیں مارتی دکھائی دیتی ہو، یہ تو کوہِ قاف کی پری ہے جو قوس قزح کا آنچل لہراتی اپنے مرمریں قدموں سے دل کے آنگن میں چھم سے اتر آتی ہے اور دل کی فضائوں میں روشنی پھیلادیتی اور رنگ بکھیر دیتی ہے۔
ناظرین!
کسوسو کہوں کہ کبھو کبھو آسمان کی فضائوں سے ٹوٹ کر آنے والے تارے کی لکیر کی طرح جب ولیؔ کے کلام کی روشنی شاہ جہاں آباد کے صحن میں بکھرتی ہے تو آپ کے سر پر مقبولیت کے تاج کے ہیروں کی چمک اہل دلی کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔
شمع اسی تاج دارِ سخن کے سامنے حاضر ہے۔
ناظرین!
شاعر جب اپنے فکر کے برش سے اپنے ہی صفحۂ دل پر کچھ نقوش بناتا ہے تو ایک حسین پیکر تخلیق پاتا ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں اسے غزل کہتے ہیں، گویا غزل ایک منظوم تصویر ہے جس کا ہر شعر اور شعر کا ہر مصرعہ خود چل کر انسان کے دل پر قدم رکھتا ہے اور دل کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔
غزل کی سو تعریفیں حکیم حامد تحسین نے تحریر کی ہیں، ان میں سے بھی چندمثالیں پیش ہیں:
٭ حسن و عشق کے شعری اظہار کا نام ہی غزل ہے۔
٭ غزل درد دل پر محبوب کے حنائی ہاتھوں کی دستک ہے۔
٭غزل ایوانِ دل میں امیدوں کے بجھے چراغ جلاتی ہے۔
٭ غزل شاعر کی ہتھیلی پر اس کے مقدر کی سب سے روشن لکیر ہے۔
٭ محبوب کی منظوم باتیںسنانے کا ہنر ہی غزل ہے۔
٭ غزل محبوبہ کی قربت کا احساس ہے۔
٭ ایک نشہ ہے جو فکر و ذہن پر چھا جاتا ہے۔
٭ غزل سخن ور کی ہم سخن ہوتی ہے
٭ غزل عارض کے شعلوں کا استعارہ ہے۔
٭ غزل گلاب کے پھول کی طرح ہے جس میں شاعر کی شخصیت بسی رہتی ہے۔
اردو غزل سے محبت کرنے والوں کے لئے یقینا یہ کتاب ایک بیش قیمت نمونہ ہے جس کا مطالعہ قارئین کے لئے سودمندثابت ہوگا۔ مجھے امید قوی ہے کہ کتاب کی پذیرائی ہر حلقہ میں ہوگی۔

’’دانش محل‘‘ نگر نگم، انڈر گرائونڈ پارکنگ کے سامنے، امین آباد، لکھنؤ
موبائل : 9452482159

Comments are closed.