Baseerat Online News Portal

غلام سرور دیار حرم میں

۱۰؍ جنوری یوم پیدائش کی مناسبت سے

پروفیسر شکیل احمد قاسمی
شعبۂ اردو ، اورینٹل کالج، پٹنہ سٹی
M : 9431860419

صحافتی دنیا میں امتیازی حیثیت رکھنے والے غلام سرور کا نام کئی حیثیت سے مشہور ہے۔ اردو تحریک کے قائد ، بے باک صحافی ، اچھے ادیب ، مثالی مقرر اور جرأت مند سیاسی رہنما کے لحاظ سے وہ جانے جاتے ہیں ۔ آج ہم عازمین حج سے ان کے خطاب اور دیار حرم کے مشاہدات سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ جناب شکیل احمد خاں بہار ریاستی حج کمیٹی کے چیرمین تھے اور انہی کی دعوت پرالحاج غلام سرور وزیر زراعت ،حکومت بہار زیر تعمیر حج بھون پٹنہ میں عازمین حج کے تربیتی اجتماع میں خطاب کے لئے تشریف لائے تھے۔ان کا خطاب تربیتی ، معلوماتی اور تفصیلی تھا ، مجمع ہمہ تن گوش تھا اور منظر کشی اس قدر معیاری کہ عازمین زبان حال سے صدا لگا رہے تھے ۔ع ’میں یہاں ہوں میرا دل مدینے میں ہے ‘۔ اس موقع پر جناب غلام سرور نے اپنے خطاب کے دوران فرما یا تھا : ’مجھے یقین ہے آپ بھی اپنے سینے میں وہی تڑپ ،دل میں وہی کسک ، اور ذہن میں وہی بے قراری محسوس کریں گے ،جو میں نے کی تھی کاش اپنا سینہ ، آپ کے سینہ میں منتقل کر سکتا ۔ اے کاش کعبہ دل آپ کو بھی دکھا سکتا ۔ آپ کس نیند میں سوئے ہیں۔ زمانہ پکار رہا ہے ۔ حجاز سے نسیم آکر آپ کو جگا رہی ہے ۔اب کون دانائے راز آپ کو جھنجھوڑے گا ۔ پہلو بدلئے ، اٹھ بیٹھئے ، صبح ہو گئی ۔ بطن گیتی سے آفتاب تازہ پیدا ہو چکا ، خون صد ہزار انجم سے سحر پیدا کیجئے ، آئیے میں آپ کو سر زمین ہندوستان سے دور، چار ہزار میل دور، پہاڑوں ، چٹیل میدانوں، ریگ اور بالو کی زمین میں لے چلتا ہوں وہاں ایک دوسری دنیا آباد ہے ۔ اس دنیا کی ہوا ، اس کا پانی ، اس کا ماحول ، اس کی فضا سب اس دنیا سے الگ ہے ۔ وہاں انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے وہ اپنے آپ کو دوسری دنیا میں پاتا ہے ۔ وہاں اسی وقت باریاب ہوتا ہے ، جب وہ اپنی آل اولاد ، زر جائداد ، کرسی اقتدار جاہ و جلال سب کچھ تج دیتا ہے ۔ وہاں وہ ہوتا ہے اور اس کا خدا، تیسرا کوئی نہیں ہوتا ۔ آئیے آپ کو اپنے کاندھوں پہ ، سر پہ ، آنکھوں میں ، دل میں بٹھالوں اور پھر خیالات کے اڑن کھٹولہ پر بٹھا کر آپ کو اس دنیا کی سیر کرائوں جہاں جاکر آپ دینی و دنیاوی نعمتیں اور دولت سمیٹ لائیں گے ۔ اگر جائیے ، تو غلاف کعبہ تھام کر ، ملتزم سے لپٹ کر ، رکن یمانی پکڑ کر میرے لئے بھی دعا کیجئے اوروضۂ حبیب خدا ؐ کی جالی سے لگ کر میرا سلام بھی پہنچا دیجئے۔‘ میں نے اس موقع پراظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تاثراتی گفتگو میں کہا تھا کہ آج کا خطاب اس شخصیت کا ہے جس نے عقیدت و محبت سے اس دیار کو دیکھا ہے ۔طبع ِحساس اور دل زندہ نے اس سرزمین سے اکتساب فیض کیا ہے اور اپنے حاصل مطالعہ و مشاہدہ کو ’پہلا وہ گھر خدا کا ‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کیا ،جس سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا ہے ۔
آج سے پچپن سال قبل پینتالیس سال کی عمر میں دیار حبیب کی زیارت کی خواہش جناب غلام سرور کو ہوئی ۔ ان کے بقول ’جیل کی کال کوٹھری میں ایک بار یہ خیال آیا تھا کہ دیار حبیب کی زیارت کرتا ، میرے خدا نے میری دعاء سن لی ۔ فارم بھر کے بھیج دیا اور قرعہ فال ہزاروں دوسرے خوش نصیبوں کے ساتھ میرے نام بھی گرا ۔پس میں اللہ تبارک تعالی کے کرم سے ، بزرگوں کے فیض سے اور آپ سب کی دعائوں سے زیارت حرمین شریفین کے لئے روانہ ہو گیا ۔‘
جناب غلام سرور حج کا تعارف ، اہمیت و فضیلت اپنے خاص انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’حج کیا ہے ؟ ہم حج کیوں کرتے ہیں ؟ حج کا مقصد کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟….حج کے دو پہلو ہیں ۔ ایک بنیادی پہلو ہے ، اس کا تعلق اصول اور روح سے ہے ، دوسرا رسمی ہے ارکان کی ادائیگی اور احکامات کی تکمیل سے اس کا تعلق ہے ۔ حج ایک فریضہ ہے نماز ، روزہ ، زکوۃ کے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ صاحب استطاعت پر حج فرض ہے ۔ دراصل مرکزیت ، اجتماعیت ، اتحاد اور تنظیم ایک ساتھ عملاً اور بہترین طور پر ہمیں کہیں ملتی ہے ، تو یہیں ملتی ہے ۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کر لو تو تمہیں بیک وقت و یکجا یہ تعلیم ملے گی کہ مرکزیت اسلام کی روح ہے ۔ اجتماعیت اسلام کی جڑ ہے ۔ اتحاد اسلام کا پیغام ہے ۔ اور تنظیم اسلام کا سبق ہے ۔ ‘
اتحاد اسلامی کے پیغام کے ساتھ مومن کو اپنی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے خانۂ کعبہ کی تاریخ سے واقف کراتے ہیں اور ہر طرح کے بت سے ، غیر اللہ کی پرستش سے، دل کو پاک کرنے کے ساتھ دعوت توحید دیتے ہیں: ’یہ وہی خانہ کعبہ ہے ، جس میں فتح مکہ سے پہلے ۳۶۰ بت پوجے جاتے تھے ۔ ہر موسم کا ایک بت ، ہر مراد پوری کرنے والا ایک بت ، ہر فرقہ و قبیلہ کا اپنا اپنا بت ، جس کا جی چاہا اور جس مقصد کے لئے جی میں آیا ایک بت تراش لیا ۔ حضرت احمد مجتبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا اور ان دیکھے خدائے واحد کی پرستش شروع کی ۔ آج ہم نے اپنی آستینوں میں اقتدار ، وجاہت ، کرسی ، عہدہ ، طاقت اور حکومت کے نہ معلوم کتنے بت چھپا رکھے ہیں۔ ہم نے بت شکنی کو چھوڑ کر بت گری کو پیشہ کر لیا ہے۔ ہمارے کعبۂ دل میں آج ایک نیا بت خانہ بسا ہوا ہے ۔ آئو سب سے پہلے دل کے اس خانۂ خدا سے دنیاوی جاہ و جلال کے بتوں کو الگ کر دیں اور ایک خدا کی پرستش زندگی کا شعار بنا لیں۔ ‘
جناب غلام سرور عازمین حج کے قافلے کو دیار حرم میں حج کی روح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’ذراسوچو تو لوگو ! کیا ہم اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں؟ اسی شام مغرب کے وقت عرفات کے میدان سے کوچ کر کے رات کو مزدلفہ پہنچے ، یہاں نہ خیمہ ہے ، نہ سایہ ، اوپر آسمان کا سایہ اور نیچے ریگ اور ریت کا بستر ۔ ساری رات خدا سے مانگنے میں گذار دی ۔ وہاں حقوق اللہ بخشوا رہے تھے ۔ یہاں حقوق العباد معاف کرا رہے ہیں۔ پھر ۱۰؍ ذی الحجہ کو پو پھوٹنے سے پہلے مزدلفہ سے کوچ کر کے منی پہنچے ۔ ابھی کمر بھی سیدھی نہ کر سکے کہ جمرۃ عقبہ پر پہنچے اور سات کنکریاں ماریں ۔ پھر الٹے پائوں منحر روانہ ہوئے اور قربانی کی ۔ قربانی کرکے واپس ہوئے تو سر منڈایا ، غسل کیا اور اب جا کر احرام اتارا ۔ پھر مکہ گئے ۔ پھر منی واپس آئے ۔ ۱۱،۱۲، کو رمئی جمرہ کیا اور تب ۱۳ کو پھر مکہ واپس ۔ یہ مجاہدہ کی تربیت تھی ۔ چھ روز کیا بوڑھے ، کیا جوان ، کیا عورتیں ، کیا مرد ، کیا شاہ اور کیا گدا ، سب ایک پیر پر خدا کے حضور مارے مارے پھرتے ہیں ۔ ابھی یہاں ہیں اور ابھی وہاں پہنچے ۔ ابھی یہ کر رہے تھے اور ابھی وہ کرنے لگے ، پل مارنے کی مہلت نہیں ۔ آرام کرنے کی فرصت نہیں۔ دینے والے نے دینے کا وعدہ کیا ہے اور مانگنے والا بس مانگ رہا ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کی صحیح تعلیم و تربیت انہیں ایام حج میں ہو جاتی ہے ۔ نہ کھانے کا ہوش نہ پانی کا ٹھکانہ ، نہ بستر کا خیال، نہ لباس کی فکر ، دنیاوی وجاہت کے سارے لبادے تو کب کا اتار چکے ۔ بس یہی ہے ایک سچے مومن کی شان اور یہی ہے اللہ والے کی پہچان ۔ اس آئینہ میں اب ذرا اپنی صورت بھی دیکھ لو اور بتائو تمہارے رنگ ڈھنگ ، تمہاری چال ڈھال ، تمہارے شب و روز اور ان کے خد و خال میں کسی کی کوئی مناسبت ہے بھی یا نہیں ۔ بس یہی ہے حج کا فلسفہ ۔ یہی وجہ ہے کہ حج ہر اس مومن پر فرض ہے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ آج بھی جو لوگ اس مقدس سفر پر روانہ ہوتے ہیں وہ دنیاوی تجربات کی بیش قیمت دولت کے ساتھ ساتھ دین کی بے شمار دولت اپنی جیبوں میں بھر کر لوٹتے ہیں ۔ آج بھی ہم سب سچے معنوں میں اور صدق دلی سے ایک مرکز پر جمع ہو جائیں ، متحد اور منظم ہو جائیں ۔ امیری ، غریبی ، اونچ نیچ ، ذات پات ، عقیدوں اور ٹولیوں کے امتیازات مٹا ڈالیں ۔ ایک ہو جائیں اور نیک ہو جائیں ، ایک خدا کی بالا دستی اور اسی کی حکومت تسلیم کر لیں ۔ دنیاوی اقتدار کے سارے بتوں کو پاش پاش کر ڈالیں ، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مرعوب اور زیر دست نہیں کر سکتی ۔ یہ دنیا ہمارے قدموں میں ہو گی اور ہماری ٹھوکروں میں سارا زمانہ ہو گا ۔ ‘
وہ مومنوں کو غیرت دلاتے ہوئے کہتے ہیں : ’خدا کے لئے اٹھئے ، آپ کو حبیب خدا کا واسطہ ، اب بھی بیدار ہو جائیے اور ساری دنیا میں انسانیت ، امن شانتی ، اخوت ، مساوات ، بھائی چارگی ، عالمگیر برادری ، ہمہ گیر ابدی آفاقی قدروں کی دولت عام کر دیجئے ۔ اللہ تعالی ساری دنیا سے سال میں ایک بار اسی واسطے اپنے بندوں کو بلا کر ایک جگہ جمع کرتا ہے کہ پھر سب اپنے اپنے گھر واپس ہو کر اللہ کی دی ہوئی ان نعمتوں کو بھی تبرکات اور تحفوں کے طور پر لوگوں میں تقسیم کریں جو ان دنوں میں انہیں حاصل ہوتی ہیں۔ آج ہم حج کر کے گھر لوٹتے ہیں ، کلائیوں میں گھڑیاں بندھی ہو تی ہیں ۔ ذرا گریبان میں منہ ذال کر ہم یہ بھی دیکھیں کہ وہ روحانی ، ایمانی ، اخلاقی طاقت بھی لے کر ہم لوٹے یا نہیں ، جسے حاصل کرنے کے بعد غیر اللہ کی پرستش یا کسی دوسری طاقت کے آگے سر تسلیم خم کرنا باطل ، اور صرف ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک گھر ، ایک مرکز ، ایک دین ، ایک راہ پر گامزن ہونا ہی عین بندگی ہے ۔ ‘
مکہ مکرمہ میں ارکان کی ادائیگی اور تکمیل حج کے بعد اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’آپ مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔ چلئے مسجد نبوی ؐ چلیں ، نماز پڑھئے اور سلام پہونچائیے سیدنا حضرت ابوبکر ؓ اور سیدنا حضرت عمر ؓ بھی یہیں آرام فرما ہیں ۔ یہ اونچی جگہ وہ ہے جہاں اصحاب صفہ بیٹھا کرتے تھے ۔ خدارا شور نہ کیجئے ۔ آواز نہ اونچی کیجئے ۔ سلام اور درود بھی زور زور سے چلا کر نہ پڑھئے ۔ ادب و احترام کے ساتھ اور آہستگی سے ضلوۃ و سلام پڑھئے ۔ کم سے کم چالیس وقتوں کی نماز مسجد نبوی ؐ میں ادا کیجئے ۔ مکہ میں حرم الہی تھا ۔ یہاں حرم رسول اللہ ؐ ہے ۔ مسجد نبوی بعد نماز عشاء بند کر دی جاتی ہے، اور تہجد کے وقت کھولی جاتی ہے ، بڑی حسین اور دلکش مسجد ہے ۔ اسی دیار میں وہ مقام ہے جہاں اعلان کے بعد گھڑوں کے گھڑے اور پیپوں کے پیپے شراب انڈیل دی گئی ۔ یہیں وہ جگہ بھی ہے جہاں کے متعلق روایت ہے کہ خاک شفا یہیں ہے ۔ اسی علاقہ میں مسجد سلمان ہے ۔ باغ سلمان میں کھجوروں کے دو درخت اب بھی ہیں ، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ حضور ؐ کے لگائے ہوئے ہیں ۔ پورے باغ میں سب سے اونچے یہی دونوں درخت ہیں ۔ آج بھی یہ باغ حضرت سلمان فارسی ؓ کی اولاد کے قبضہ میں ہے ۔ ہم باغ سلمان فارسی سے پودینہ بھی اپنے ساتھ لائے ۔ اس میدان سے ہم سب نے خود خاک شفا اپنے لئے بھی جمع کر لی ۔ اور وہی ہم اپنے ساتھ لائے ۔ باوجودیکہ موجودہ سعودی حکمرانوں نے آثار مقدسہ اور آثار قدیمہ کے انہدام کی ایک ناکام و نامکمل کوشش کی تھی ۔ پھر بھی عربوں میں روایت کا احترام اب بھی کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی حد تک موجود ہے ۔ ‘
جناب غلام سرور کا مشاہدہ آج سے پچپن سال قدیم ہے لیکن اس میں عصری آگہی پائی جاتی ہے ، زبان و بیان کی صفائی ، دلکش انداز تحریر۔قاری ان کی تحریروں کی وساطت سے اس روحانی دیار کی سیر کرنے لگتا ہے ،اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر وہ موجود ہے ۔ ان کے مذکورہ بالا روحانی تاثرات ان کے ادبی سرمایہ میں غیر معمولی اضافہ ہے ۔

Comments are closed.