Baseerat Online News Portal

فریضۂ زکوۃ رحمت ہے نہ کہ زحمت!

عبید الرحمن غفر لہ
خادم جامعہ اسلامیہ تلوجہ نوی ممبئی
قرآن پاک کی تعلیمات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کہ سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ انسان دنیا کے مال و اسباب کا نہ اصل مالک ہے اور نہ خود اپنے اختیار سے دنیوی دولتوں کو اکٹھا کرنے کا اختیار رکھتا ہے بلکہ سارے اسباب وسائل کی باگ ڈور اللہ رب العزت کے ہاتھ میں میں ہےوہ جس کو چاہے جب چاہے رزق سے نوازدے اور جس کو چاہے مفلس و قلاش بنا دے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے :اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر
اللہ تعالی کشادہ کرتا ہے روزی جس کو چاہےاور تنگ کرتا ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر نہ کسی مالدار کو اپنی دولت پر گھمنڈ اور غرور کرنے کا حق ہےاورنہ کسی غریب کو اپنی غربت وافلاس پر پریشان ہونا چاہیے بلکہ مالدار کو اپنی دولت پر اللہ تعالی کا شکر کرنا چاہیےاور غریب کو اپنی غربت پر صبر و رضا کا مظاہرہ کرنا چاہیے نیز ہر صاحب ثروت کو اپنی دولت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کاوہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو طریقہ شریعت و سنت نے ہمیں بتایا ہے ۔
چنانچہ شریعت مطہرہ نے ہر مالدار (صاحب نصاب) کے مال پر سال میں ایک بار زکوۃفر ض کی ہے۔
زکوٰۃ کیا ہے ؟
زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں70 سے زائد مقامات پر زکات اور نماز کا کا اکٹھاذکر موجود ہے۔
زکوٰۃدر اصل مال کی تطہیر، مال میں اضافہ وخیر و برکت، دنیا میں میں حفاظت، اور آخرت میں بے حساب اجر و ثواب کا ذریعہ ہےعام طور پر شرعی عبادات کے ثواب اور نتیجہ کا وعدہ آخرت کی زندگی میں کیا گیا ہے ہے مثلا نماز سے جنت میں فلاں نعمت ملے گی اور روزے داروں کو فلاں ثواب کا مستحق بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ مگر زکوۃ و صدقات کے لیے جہاں آخرت میں عظیم الشان اجروثواب کا ذکر ہے و ہیں دنیوی نقدفائدے کو بھی بیان فرمایا گیا ہے اور یہ فائدہ اتنا عظیم ہے کہ دنیا کی کسی دولت سے اس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی اور اس فائدے کے حصول کے لیے انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے اور مالی نقصان برداشت کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔
وہ فائدہ یہ ہے کہ زکات اور صدقہ ادا کرنے سے بلائیں اور مصیبتیں ٹلادی جاتی ہیں حدیث پاک میں ہے۔
بادرو بالصدقۃ فان البلاء‌ لا یتخطاھا۔۔۔۔۔
صدقہ دینے میں جلدی کرو کرو اس لیے کہ مصیبت صدقہ سے آگے نہیں بڑھتی یعنی اللہ تعالی صدقہ اور زکوۃ کی برکت سے مصیبت کو دور کر دیتا ہے ہے ایک دوسری حدیث میں ہے ۔۔۔۔۔۔ان الصدقۃ لتطفئ غضب الرب وتدفع‌ میتت السوء۔۔۔۔‌
بے شک صدقہ اللہ تعالی کے غصے کو ٹھنڈا کر دیتا اور بری موت سے بچاتا ہے یعنی سخت بیماری اور سنگین حالات سے بچانے میں مفید ہے علاوہ ازیں صدقہ اور زکوۃ کی ادائیگی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ برکت کے اعتبار سے زیادتی ہوتی ہے یہ دنیا کے چند اہم فائدے ہیں رہے زکات اور صدقات کے اخروی منافع تو وہ بیشمار ہیں اور اصل میں یہی منافع ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے ذیل چند منافع لکھے جاتے ہیں:
١} ایک روپیہ کے بدلے میں ساتھ سو گناہ اجر مقرر ہے اور اخلاص وغیرہ کی وجہ سے اس میں زیادتی کا بھی وعدہ ہے۔
٢} زکوۃ اور صدقہ میں خرچ کرنا گویا کہ اللہ کے ساتھ تجارت کرنا ہے جس میں کسی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ۔
٣} صدقہ قیامت کے دن ہمارے لئے حجت بنے گا ۔
٤} یہ صدقہ قیامت کے دن ہمارے لیے سائبان ہوگا۔
الغرض یہ اشارات‌ ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ ہمارے لیے کتنی بڑی رحمت کی چیز ہے۔
پھر غور فرمائیے مطلق مال پر اللہ رب العزت نے زکوۃ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ایک متعین مقدار کا بندہ جب مالک ہو جاتا ہے جسکو‌ شریعت کی اصطلاح میں( صاحب نصاب کہا جاتا ہے ) بشرطیکہ وہ مال‌ نامی (بڑھنے والا)‌ ہو‌ ضرورت اصلیہ سے زائد اور اس پر سال گزر گیا ہو اسوقت اس مال کا ڈھائی فیصد اللہ تعالی نے اپنے راستے میں نکالنے کا مطالبہ کیا ہے‌ ما بقیہ ساڑھے ستانوے فیصد بندوں کو اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کا کلی اختیار دیا ہے اور اس کی حفاظت و برکت کا وعدہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان اللہ اللہ تعالی کی شان کریمی پر قربان جائیں سارا کا سارا مال انہیں کا دیا ہوا ہے لیکن صرف ڈھائی فیصد کا مطالبہ کیا وہ بھی مذکورہ شرائط کے پائے جانے کی صورت میںا سے تو اسکا پورا حق تھا ‌کہ‌ ساڑھے ستانوے فیصد کا خود مطالبہ کرتا اور بقیہ ڈھائی فیصد اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کا اختیار دیتا لیکن بندوں کی کمزوری کا لحاظ کرتے ہوئے ایک ادنیٰ سی مقدار کا مطالبہ فرماکر بے انتہا ‌کرم‌ کا معاملہ فرمایا لیکن یہ‌ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں زکوۃ کو ایک بوجھ سمجھا جانے لگا جو کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ والزکوۃ‌ مغرما۔۔۔۔۔۔کہ قرب قیامت میں زکوۃ کو ایک بوجھ سمجھا جانے لگے گا لہذا ضرورت ہے اس‌ بات کی کہ ہم نہ صرف اہتمام کے ساتھ پوری پوری زکوۃ ادا کریں بلکہ خوشی خوشی اپنے پیارے اللہ کا حکم سمجھ کر نہایت فراخدلی کے ساتھ فریضۂ زکوۃ پر عمل اور حقیقی مستحقین تک مال زکوٰۃ کو پہنچانے کی فکر کریں ۔
اللہ تعالیٰ ان معروضات پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں {آمین}

Comments are closed.