Baseerat Online News Portal

فریضۂ امر بالمعروف‌ و نہی عن المنکر : اہمیت و‌ضرورت

 

عبید الرحمٰن بن مفتی محمد عمر صاحب جونپوری

خادم جامعہ اسلامیہ تلوجہ نوی ممبئی

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا) اس امت کی منجملہ خصوصیات کے ایک نمایاں خصوصیت ہے
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جابجا اس فریضہ کو انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے اور اس کے چھوڑ دینے پر سخت دنیوی اور اخروی عذاب کی دھمکی دی گئی
تاریخ عالم کی ورق گردانی سے یہ بات عالم آشکارا ہوتی ہے کہ جس قوم نے بھی (خصوصا علماء نے ) اس فریضہ کے دامن کو مضبوطی سے تھاما وہ قوم ہر اعتبار سے پھلتی اور پھولتی رہتی رہی
اور جس قوم نے اس فریضہ سے غفلت برتی اس‌قوم کو سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس قوم کا صفحۂ ہستی سے نام و نشان تک مٹ گیا اور آئندہ کے لیے وہ درس عبرت بن گئی
اور اگر ہم اس فریضہ کے تئیں اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اس فریضے سے ہم کس درجہ غافل ہیں جس کے نتیجے میں ہم آئے دن ہوش ربا حالات اور نئے نئےفتنوں کا سامنا کر رہے ہیں چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس فریضہ کی اہمیت کو سمجھیں اور مضبوطی سے اس پر عمل پیرا ہوں ذیل میں آیات قرآنی احادیث شریفہ اسی کے ساتھ ساتھ بعض اقوال
سلف سے اس فریضہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے
"آیات قرآنی”
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ۔۔۔۔۔۔(آل عمران۔110)
تم ایک بہترین امت جو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے برپا کی گئی ہو ( تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ )تم اچھی باتوں کاحکم دیتے‌ہو‌ اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو
دیکھئے آیت شریفہ میں اس امت کی امتیازی خصوصیت یعنی خیر امت ہونے کی شرط ہی "امر‌ بالمعروف ونہی عن المنکر” کر کو قرار دیا گیا جیسا کہ ائمہ تفسیر میں سے‌حضرت مجاہد اور زجاج رحمہما اللہ کا قول ہے نیز اس‌قول کی تائید حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس‌ارشاد‌ گرامی سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص اس فضیلت ( خیر امت )کا مصداق بننا چاہتا ہے جو اس آیت میں مذکور ہے تو اسے چاہیے کہ اس کی شرط کو پورا کرے یعنی "امر بالمعروف ونہی عن المنکر "کا فریضہ ادا کرے (امر‌بالمعروف‌ونہی عن المنکر بحوالہ زادالمسیر صفحہ ١٩١)
ایک جگہ اللہ تعالی نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی باہمی دوستی اور اس دوستی کا حق ادا کرتے رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
۔۔۔۔والمؤمنون والمؤمنات بعضہم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینہون عن المنکرو یقیمون الصلاۃ ویؤتون الزکوۃ ویطیعون‌اللہ ورسولہ‌‌ اولائک‌ سیرحمھم اللہ ان اللہ عزیز حکیم۔۔۔۔،(سورۃ التوبہ آیت ٧١)
مومن مرد مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں بری باتوں سے روکتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالی رحم فرمانے والا ہے اور اللہ تعالی‌غالب حکمت والا ہے
اسی سورت میں منافقین کا حال بالکل اس کے برعکس بیان کیا گیا ہے
"المنافقون والمنافقات بعضہم من بعض یأمرون بالمنکر وینہون عن المعروف۔۔۔۔الی‌آخرالآیۃ
منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ ایک دوسرے کو بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں

مذکورہ آیات میں مومنوں اور منافقوں کی خصوصی علامتوں کو واضح طور پر بیان کر کے اس کے ذریعہ اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ سماج و معاشرہ میں اچھی باتیں پھیلانا اور بری باتوں سے لوگوں کو منع کرتے رہنا تقاضۂ ایمان ہے اس کے برخلاف بری باتوں کی اشاعت اور اچھی باتوں سے منع خاصۂ نفاق و شقاق ہے
ایک دوسری جگہ منافقین بنی اسرائیل کی بدحالی بیان فرما کر اس کی وجہ ان کے علماء کی جانب سے "امر بالمعروف ونہی عن المنکر” سے کوتاہی کو قرار دیا ہے اور ان کے علماء کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ارشاد ربانی ہے ۔۔۔۔۔
"وتری کثیرامنھم یسارعون فی الاثم والعدوان وأکلھم السحت لبئس ما کانوا یعملون لولا ینھاھم الربانیون والاحبار عن قولھم الاثم وأکلھم السحت لبئس ما کانوا یصنعون”
اور آپ دیکھتےہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ گناہوں ظلم کے کاموں اور حرام خوری میں آگے نکل گئے تھے یہ انکی بہت بری حرکت تھی ان کے علماء و مشائخ نے گناہ کی باتوں اور حرام خوری سے انہیں کیوں نہیں روکا یہ ان کی بدترین سازش تھی
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کے ذیل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک خطبہ نقل فرمایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی تعریف و توصیف کرنے کے بعد فرمایا
لوگو! تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت ان کے عوام کی گناہوں پر جرأت اور علماء وصلحاء کی طرف سے نکیر و اصلاح میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئی تھی جب یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا تو وہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے عذاب میں گرفتار کیے گئے پس‌تم لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو قبل اسکے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی عذاب تم پر نازل ہو جائے
اور جان لو کہ اچھی باتوں کے حکم دیتے رہنے اور بری باتوں سے لوگوں کو روکتے رہنے کا کام نہ تمہاری روزی کو گھٹائے گا اور نہ عمر میں کمی کریگا یعنی بے خوف و خطر اس ذمہ داری کو نبھاتے رہو
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے تو اس کی عوام گناہوں اور نافرمانیوں میں غرق ہو جاتی ہیں اور اس کے خواص یعنی درویش و علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں۔۔۔ بنی اسرائیل کا حال یہی ہوا کہ لوگ عموماً دنیوی لذات و شہوات میں منہمک ہو کر خدا کی عظمت و جلال اور اس کے قوانین واحکام بھلا بیٹھے اور جو مشائخ و علماء کہلاتے تھے انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردیا کیونکہ دنیا کی حرص‌اور اتباع شہوات میں وہ اپنی عوام سے بھی آگے تھے مخلوق کا خوف یا دنیا کی لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہو جاتی تھی اسی سکوت و‌رہبانیت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں اسی لئے امت محمدیہ کو بےشمار نصوص میں بہت ہی سخت تاکید کی گئی ہے کہ کسی وقت اور کسی شخص کے مقابلے میں اس فریضۂ أمر بالمعروف ونہی عن المنک کے ادا کرنے سے تغافل نہ برتیں۔
اختصار کے پیش نظر مذکورہ چند آیات اور اس کی تفسیر پیش کی گئی ہیں ورنہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں قرآن کریم میں 13 آیات تو انہی‌‌الفاظ(امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کےساتھ نازل ہوئی ہیں اور جو آیتیں تذکیر و تبلیغ، نصیحت و موعظت، ارشاد و انذار، دعوت وہدایت ،جیسے الفاظ و تعبیرات کے ذریعے اس فریضے کی جانب مخاطبین قران کو متوجۂ و متنبہ کرتی ہیں وہ بے‌شمار ہیں۔۔۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.