Baseerat Online News Portal

فلمی دنیا کی منافقت!! 

 

 

نور اللہ نور

 

اسلام مخالف جماعتوں نے اس کی شبیہ مسخ کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا ہے ہر طرح کا حربہ انہوں نے اسلام کے خلاف استعمال کیا ہے اور عقل ، دماغ ، ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے اس کے خلاف برسوں سے محاذ کھولا ہوا ہے.

مرور زمانہ کے ساتھ اس کے طریقے میں بھی تبدیلی آئی ہے اب میڈیا ڈیجیٹل میڈیا اور فلم کے پردہ سیمیں سے بھی منافرت کی چنگاری کو ہوا دینے کا کام کیا جا رہا ہے.

فلم سازی کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ ایک آئینہ ہے جسے ہم سماج کو اس کی خامیاں دکھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں یقیناً وہ اس میں کچھ حد تک درست بھی ہیں مگر اس کا منفی اور مذہبی بھید بھاؤ کے لئے بھی استعمال خوب ہوا ہے اور اس کا اسلام مخالف آج کل کچھ زیادہ ہی استعمال ہو رہا ہے.

بالی ووڈ جہاں ہزاروں کی طرح کی فلمیں بنتی ہیں مزاحیہ ، تجزیاتی، سماجی اور شخصی ہر طرح کی فلمیں بنائیں جاتی ہے مگر جب یہ لوگ تاریخی اعتبار سے فلمیں بناتے ہیں تو بڑی جانبداری اور منافقت سے کام لیتے ہیں تاریخ کو مسخ کو کرنا اور حقیقت کو پس پردہ ڈالنا ان کا پسندیدہ عمل ہے.

اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بلکہ تشد اور اسلامی تعلیمات میں ہزاروں میل کی مسافت ہے مگر ان کی منافقت دیکھیں کہ جب کبھی بھی انہوں نے دہشت گردی اور عدم تشدد کو پیش کرنا چاہا تو اس کے لئے مسلمان اور اسلام کا سہارا لیا ہے اس کے برعکس آج دنیا میں بے شمار لوگ ہیں جو انسانیت کے منافی عمل انجام دے رہے ہیں ، روز انسانیت کا قتل خود انسانیت نوازی کا دم بھرنے والے کر رہے ہیں ، مگر تہذیب کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر قتل انسانی کے جرم میں شریک لوگوں کی طرف ان کی نگاہ بھی نہیں جاتی.

چند ایسی فلم بطور تمثیل پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد حقیقت کا پہلو بھی سامنے رکھتا ہوں اور اس کے بعد اندازہ لگائیں کہ کس طرح فلموں کے ذریعہ اسلام کی شبیہ خراب کی جارہی ہے.

"26/11” یہ فلم ممبئی بلاسٹ کے متعلق بنائی گئی تھی اس میں کچھ حقیقی واقعات بھی تھے مگر جس طرح اس میں اسلام کی تصویر پیش کی گئی وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے اس فلم میں "اجمل قصاب” جو کہ فلم کے ہیرو تھا اور "نانا پاٹیکر” کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا اور اس میں اجمل قصاب کے کردار کے ذریعہ اسلام کی جو تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ حقیقت سے عاری ہے اسلام کبھی بھی تشدد اور قتل و غارت گری کا روادار نہیں رہا.

اسی طرح سلمان خان کی فلم "ایک تھا ٹائیگر” جس میں یہ دکھایا گیا کہ انڈین لوگوں کو مجاہدین نے یرغمال بنا رکھا ہے اور ایک آفیسر اسے ان کے قید سے چھڑاتا ہے.

 

اسی طرح” 1992″ کے فساد کے اوپر فلمائی گئی فلم "بلیک فرائیڈے” میں یہ دکھایا گیا کہ مسلمان ہمیشہ ملک مخالف رہے ہیں ان کو نہ انسانیت سے ناتہ ہے اور نہ ملک و قوم سے کوئی محبت حالانکہ حقیقت سب کو معلوم ہیکہ ہندو مسلم فسادات کی پہل کس نے کی ہے.

اس کے برعکس انہوں نے اس پر کبھی بھی فلم سازی نہیں کی کہ گجرات میں کس طرح انسانیت شرمسار ہوئی؟ ، انہوں نے پاکستان کے مجاہدین کی خیالی تصویر پیش کردی مگر خود کے ملک میں آزاد گھوم رہے انسانیت کے دشمنوں پر ایک فلم نہ بنا سکے ، اگر ممبئی بلاسٹ میں اجمل قصاب تھا اور اسے پردہ سیمیں پر پیش کیا گیا تو پھر مالیگاوں کے بلاسٹ میں مجرمین کی مجرمانہ زندگی پر کوئی بایوپک ابھی تک کیوں نہیں بنی؟ اگر داؤد کو بار بار پردے پر لایا گیا تو سادھوی پرگیہ ، کرنل پروہت، جسٹس لوہیا کے قاتل کے لائف اسٹائل اور ان کے مجرمانہ سرگرمیوں کو پردہ سیمیں کے نظر کیوں کیا گیا ؟

اگر عالمی سطح پر بھی جائزہ لیں تو فلسطین میں بے گناہوں پر گولیوں اور توپوں کے دہانے کھولنے والوں کی زندگی پر ایک بھی فلم نہیں بنائی گئی ، کشمیریوں کی زندگی اجیرن کرنے والے کون لوگ ہیں ساری دنیا حقیقت سے باخبر ہے مگر ان کے درد کو کبھی بھی حق بیانی سے نہیں پیش کیا گیا، مذہبی جنون میں لوگوں کی لنچنگ کرنے والوں کی سفاکیت کو اجاگر کبھی نہیں کیا گیا ملک میں ایک ذہنیت کے فروغ کے لیے انسانیت سے عاری عمل انجام دیا گیا ، انصاف سے اعراض و انحراف کیا گیا، اقلیتی طبقے کو ایک عرصے سے تختہ مشق بنایا گیا مگر کیا مجال کہ کوئی فلم ساز اس جانب بھی توجہ دے!

یہ لوگ اسلام اور مسلمان دشمنی میں اندھے اور مسلوب العقل ہوگئے ہیں ان کا تو یہی کام ہے مگر ترس آتا ہے ان بے چارے نام نہاد مسلمان پر جو ان کی من گھڑت فلموں کے منتظر رہتے ہیں ، ایک خطیر رقم ادا کر کے اس دیکھتے ہیں اور اسلام مخالف پرو پینگڈے میں ان کے معاون ہوتے ہیں.

وقت کی ضرورت ہے ہیکہ ہم تعلیمی میدان میں سبقت و تقدم حاصل کریں اور ان کے من گھڑت اور غلط کہانیوں کا دلائل اور حقائق کی روشنی میں پوسٹ مارٹم کریں اور اسلام کی درست شبیہ پیش کریں!

Comments are closed.