Baseerat Online News Portal

فکر جمیل : مسٹر فیصل رحمانی سے دوٹوک سوال!  خودساختہ امیر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 

مولانا جمیل احمد قاسمی مدھوبنی

 

9/ اکتوبر کو امارت شرعیہ میں جو کچھ ہوا اس سے مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ صدمہ اس لئے نہیں کہ میں کسی کا حمایتی طرف دار ہوں یا کسی کا مخالف ہوں بلکہ اس لئے کہ مجھے اپنے اکابرین علماء اور اس عظیم الشان ادارہ سے والہانہ لگاؤ ہے۔ مجھے اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا منظور نہیں ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے علماء مشائخ اور امارت شرعیہ کو جو ذلت و فضیحت اٹھانی پڑی ہے اس سے اندر تک ٹوٹ چکا ہوں۔ حد تو اس وقت ہو گئ جب سابقہ روایت کے مطابق امیر شریعت کا انتخاب اتفاق رائے سے نہیں ہونے دیا گیا۔ اور جبرا الیکشن کے لئے علماء کو مجبور کیا گیا۔ کئی مؤقر علماء فرط غم سے نڈھال آب دیدہ نظر آئے ۔ آج بھی مریدین و متوسلین کو چھوڑ کر عام علماء ائمہ مضطرب نظر آرہے ہیں۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اسی وقت ٹھان لیا۔میں اس صورت حال کے ذمے دار سے سوال ضرور پوچھوں گا۔ سوال پوچھنا ہمارا دینی اخلاقی فریضہ ہے۔ مسٹر فیصل رحمانی کو میرے استفسار کا جواب ضرور دینا چاہیے لفظ "خود ساختہ” پر آپ کے ساتھ ساتھ ممکن ہے کئی لوگوں کو برا لگا ہوگا. برا لگنے پریشان ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ میری بات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں اور بتائیں کہ آپ کو امیر شریعت کس نے بنایا۔؟ ارباب حل و عقد نے! ارباب حل و عقد کو کس نے بنایا ؟ آپ نے! نتیجہ کیا نکلا ۔آپ از خود امیر شریعت بن گۓ ۔” من ترا حاجی بگویم تو مرا قاضی بگو” میں تمہیں حاجی صاحب کہتاہوں تم مجھے قاضی صاحب کہو۔ بالفاظِ دیگر۔میں تمہیں ارباب حل و عقد بناتا ہوں تم مجھے امیر شریعت بناو۔

اگر اس فیکٹ fact کو چیک کرنا ہے تو تین ریاستوں کے کل اضلاع پر 850 ارباب حل و عقد کی اسامیوں کو برابر سرابر سے تقسیم کر دیں اور عامۃ المسلمین کے ذریعے ضلعی سطح پر ارباب حل و عقد کا انتخاب کرائیں۔ منتخب ارباب حل و عقد کے ذریعے امیر شریعت کا انتخاب کرواکر دیکھیں۔ انشاءاللہ آپ کسی قطار وشمار میں نہیں ہونگے ۔ ملت کو منصب کے شایان شان امیر شریعت ضرور مل جائے گا

آپ نے دستور و روایات کو معطل کرتے ہوئے انتخاب کے شرعی Methods کے بجائے جمہوری patterns پر الیکشن کی بدعت کا آغاز کیا ہے۔ تو اس طریقہ کا لازمہ یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر آنے والے امید وار کو Leader of the Opposition حزب اختلاف کا لیڈر تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ کیونکہ ارباب حل و عقد کا ایک بڑا طبقہ انہیں بھی لیڈر منتخب کیا ہے۔ تو کیا آپ مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کو حزب اختلاف کا لیڈر تسلیم کرنا چاہینگے۔،؟اور ان کے لئے امارت میں کوئی نشست گاہ chamber مختص کرینگے ۔؟

آپ نے الیکشن election کے جس طریقہ کو اپنایا ہے اس میں میقات،(دورانیہ) مقرر ہونا ضروری ہے. ایسا نہیں ہو سکتا کہ ووٹر ایک بار آپ کے مکر و فریب میں آکر یا فرط جذبات سے مغلوب ہو کر آپ کو اپنا قیمتی ووٹ دے دیا۔ یا الٹا سیدھا کرکے امیر شریعت بن گۓ۔ تو آپ کو یہ حق ہرگزنہیں مل جاتا کہ پوری زندگی لا الی نہایہ مزے کرتے رہیں۔اورآپ کو ووٹ دینے والے تا حیات پچھتاتے اور کف افسوس ملتے رہیں۔ بلکہ اس طریقہ کے مطابق آپ کو ایک میقات مقرر پر الیکشن کرانا ہوگا تاکہ علماء و مشائخ نہ سہی کم از کم پھر کسی دوسرے انجینئر ڈاکٹر اور پروفیسر کو خدمت کا موقع تو مل سکے گا۔ تو کیا پانچ سال بعد میقات term پوری ہونے پر الیکشن کرانے کو آپ تیار ہیں؟

آپ کی تشریح کے مطابق دستور امارت میں عالم باعمل ہونے کا مطلب کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل ہونا نہیں ہے۔ مگر دنیا کو معلوم ہے کہ آپ کے دادا رحمۃاللہ علیہ سے پہلے عالم ہونے کا مطلب کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا۔ عالم ہونا تھا۔ اور آپ کے دادا رحمۃاللہ علیہ کے زمانہ کے بعد عالم ہونے کا مطلب باضابطہ کسی مدرسہ میں نصاب کے مطابق علوم دینیہ شرعیہ حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جس کے بغیر تفقہ فی الدین و استحضار شرعیہ تک رسائی محال ہے۔ ہاں الا ماشاء اللہ کچھ لوگوں کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ مگر آپ تو اس زمرے میں بھی نہیں آتے۔ کیونکہ آپ کی دینی تعلیم وتربیت کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں ۔ آپ کو تو اپنے بزرگوں سے تعلیم وتربیت ملنا تو دور کی بات مجھے نہیں معلوم ان کی انگلی پکڑ کر چلنا بھی میسر آیا بھی ہے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ مالد کا جنازہ تک نصیب نہیں ہوا۔ عام لوگوں کو تو ابھی ابھی آپ کے والد رحمۃاللہ علیہ کے انتقال کے بعد معلوم ہوا ہے کہ مفکر اسلام کے دو صاحبزادے ہیں۔ جن میں سے ایک کو رحمانی فاؤنڈیشن و رحمانی 30 اور دوسرے کو خانقاہ رحمانی و جامعہ رحمانی کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ آپ نے بیرون ملک عیسائیوں اور یہودیوں کے اسکول و کالج میں جدید اعلی تعلیم حاصل کی ہے اور مغرب کے ماحول میں پرورش پائی ہے ۔ بڑا مقام بھی حاصل کیا ہے۔ مگر دینی وروحانی تعلیم سے آپ کا دامن یکسر خالی ہے۔ اس لیے آپ اپنے والد کی جائداد کے وارث تو ہو سکتے ہیں ان کا جا نشین وقائم مقام نہیں ہو سکتے۔ آپ نے ایک ایسے شخص کو نائب امیر شریعت مسلط کردیا ہے۔ جن کا تقرر نامہ آج بھی معمہ بنا ہوا ہے۔ کیا یہ محبوب نظر اسی لیے نائب امیرشریعت مسلط کئیےگیے تھے تاکہ ہر سیاہ و سفید میں آپکی وفاداری کریں’؟ ۔ اگر امیر شریعتِ رحمۃاللہ علیہ نے اس شخص کو اپنا نائب مقرر کیا ہوتا۔ تو وہ ضرور حضرت کا جنازہ پڑھاتے۔ ایک امیر شریعت کے رہتے ہوئے کوئی دوسرا شخص کیسے امیر شریعت کا جنازہ پڑھاسکتاہے۔ ۔اس کا مطلب ہے اندرون خانہ لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ شخص فرضی اور جعلی ہے۔ ایک روحانی بزرگ کا جنازہ کیسے پڑھا سکتا ہے ۔ اس وقت کہاں تھا اس شخص کا علم و لیاقت تقویٰ و طہارت ۔ اہلیت و قابلیت جس کا حوالہ دے کر آپ نے انہیں امارت پر مسلط کر رکھا ہے ۔یہ protocol کے خلاف ہے ۔ بتائیں جب اس شخص کو امیر شریعت بننے کا پروانہ ملا ہوا تھا تو ان سے جنازہ کیوں نہیں پڑھوایا گیا ۔ جب انہیں جنازہ پڑھانے کا حق نہیں تو نائب امیر مثل امیر کیسے بنے پھرتے تھے۔؟ پتہ چلا جس مشن کے تحت ان کو نائب بنایا گیا تھا انہوں نے حق ادا کردیا اب شاید انھیں فرصت دیدی جائے گی مسٹر! آپ نے High profile ڈرامہ کر کے علماء برادری بشمول اپنے آبا و اجداد سب کی جگ ہنسائی کرائی ہے۔ آپ نے امیر شریعت بننے کے لئے دستور آداب اخلاق سب کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ امیر شریعت ہونے کے لئے أمیر شریعت کا وارث ہونا ہی کافی ہے تو پہلے آپ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جنرل سیکریٹری ہونا چاہیے۔ جس کے آپ لائق بھی ہیں۔ مگر آپ کی نظر اس طرف نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں آپکی دال نہیں گلنے والی ہے۔ نہ وہاں مریدین کی بھیڑ ہے نہ فرضی ووٹ ملنے کے امکان۔ نہ جعلی امیر کی سازش میرے برہمی کی اصل وجہ منصب امیر شریعت کے اہل موضوع اور مناسب ترین شخصیات کو درکنار کیا جانا ہے۔ مجھے آپ سے نہ ذاتی رنجش ہے۔ نہ کسی کی اندھ بھگتی کا شکار ہوں۔ بلکہ دیکھا جائے تو آپ سے مجھے قلبی لگاؤ ہے۔ میں آپ کے بہتر مستقبل کا خواستگار ہوں۔ اس لیئے کہ میرے دادا دادی ماں باپ سب آپ کے دادا کے مرید ہیں۔ میں خانوادہ رحمانی کا شیدائی و معتقد رہا ہوں۔ اس لیئے میرے استفسار میری تلخ نوائی کیلئے معذرت چاہتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ میری معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے مع السلام

جمیل احمد قاسمی (مدہوبنی)

Comments are closed.