Baseerat Online News Portal

قانون ہو تو ایسا ؟

 

ڈاكٹر محمد مصطفی عبد القدوس  ندوی

صدر: كلیۃ البحث و التحقیق،جامعۃ العلوم گڑھا – گجرات

                ملك عوام كے لئے ہوتا ہے اور عوام ملك كے لئے ہوتی ہیں ، ملك انسانوں سے وجود میں آتا ہے ، اور انسانوں كے وجود سے ملك قائم رہتا ہے ، ملك كےوجود   كا تصوراس كے باشندوں سے  سمجھا جاتا ہے،  حكومت بنتی ہے انسانوں كو راحت رسانی  كے لئے ، حكومت كی رعایا  وپبلك كے مفاد كو منظم ومستحكم كرنے اور تحفظ كے لئےقانون بنتا ہے  ، جب بھی كسی ملك كا قانون بنتا ہے تو وہاں كے باشندوں كے حقوق  اور ان كی آزادی كا بھرپور خیال ركھا جاتا ہے اور ملك وحكومت كے مفاد كا بھی پاس ولحاظ ركھا جاتا ہے ،گویا قانون سازی میں توازن برقرار ركھا جانا ضروری ہے، توازن قائم رہنے سے قانون قابل قبول اور  اس پر  پبلك كا عمل  اور اس كا فالو كرنا ممكن ہوتا ہے ۔

                دیكھئے! كائنات كے نظام میں كتنا مستحكم  توازن ہے  كہ كبھی اس  میں ٹكڑاؤ دِكھنےكو نہیں ملتا ہے ، آسمان میں كتنے گھنے سیارے  ہیں جو ایك دوسرے كے اردگرد گھومتے ہیں  لیكن آپس میں كبھی  ٹكڑاتے نہیں ہیں ، سب كو معلوم ہے كہ  چاند  سورج اور زمین كی گردش كے درمیان فاصلے بہت كم رہتے ہیں ، پھر بھی ان میں كبھی ٹكڑاؤ نہیں ہوتا ہے ، قرآن نے سچ كہا :

{وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ . وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ . لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ}[يس:۳۸ – ۴۰]

“اور سورج اپنے ٹھكانے كی طرف چلا جارہا ہے ، یہ اس ذات كا مقرر كیا ہوا (نظام) ہے، جو بے حد طاقتور اور بڑا ہی باخبر ہے ، چاند كے لئے بھی ہم نے منزلیں مقرر كردیں، یہاں تك كہ وہ سوكھی ہوئی پرانی ٹہنی  كی طرح ہو جاتاہے ۔نہ سورج كی مجال ہے كہ وہ چاند كو آ پكڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسكتی ہے، سب كے سب ایك مدار میں تیر رہے ہیں ”۔

اللہ تعالی نے اس نظام ِكائنات سے اپنے بندوں كو یہ پیغام دیا ہے كہ دیكھو اس كا ئنات كو ہم بندوں ہی كی راحت رسانی كے لئے  پیدا كیا ،   اس كو مختلف سامان زینت سے سجایا اور  اس كے نظام كو متوازن اور   ٹھوس   بنایا ، اس سے سبق حاصل كروكہ تم لوگ بھی حكومت  كے نظام میں لوگوں كے مفاد كا بھر پور خیال ركھو، رعایا  كی راحت رسانی كو  مد نظر ركھو،  بھید بھا ؤ نہ ركھو؛ كیو نكہ سب اللہ كے بندے اور مخلوق ہیں ، اس میں كسی طرح كی تفریق جائز  نہیں ،  جس طرح اللہ تعالی نے اس كائنات سے  فائدہ اٹھانے  اور پہونچانے میں كسی طرح كی بھید بھاؤ  اور كوئی فرق  مراتب ملحوظ نہیں ركھا ، اسی طرح زمین پر ملك گیر ی  اورحكومت  كرنے كے لئے قانون سازی میں كوئی بھید بھاؤ نہ ركھو ، ان كے درمیان نفرت كا بیج مت بوؤ، بھید بھاؤ كی دیوار كھڑی مت كرو اور ہماری مخلوق  كے  درمیان آپس میں  دوری پیدا كرنے والا كوئی كام مت كرو  ۔

                 یہی ۲۶/ جنوری    كی تاریخ ہے جس كو یو م جمہوریہ كہا جاتا ہے ؛ كیونكہ اسی دن    بھارت  كا آئین بنا ، پاس ہوا اور تمام بھارتیوں كے لئے دستور  تیار ہوا  اور یہ طے پایا كہ آج كی تاریخ سے اس انڈیا میں دستور ہند كی حكومت رہے گی ،  قانون كو بالادستی حاصل رہے گی  اور تمام   انڈین باشیوں  پر اس كی حكمرانی رہےگی ۔ اس دستور سازی  میں ڈاكٹر  امبیڈ كر  نے تمام باشیوں كو اپنے اپنے مذہب  پر آزادی كے ساتھ عمل كرنے  كی آزادی دی تھی ، ساتھ ہی تمام انڈین كے حقوق كی حفاظت  كی تھی  ، آپس میں بھید بھاؤ  كا كوئی قانون اور دفعہ  نہیں بنایا  تھا، بلكہ آپس میں  محبت  و الفت اور یگانگت  كو ملحوظ ركھا ، گنگا جمنا  تہذیب كی بھر پور رعایت ركھی ،اوررنگا رنگ میں بھارت كی خوبصورتی كو برقرار ركھا ، اس بھارت كا دستور سیكولر ركھا ، صاف اعلان كیا كہ  انڈیا میں كسی ایك مذہب كی حكومت نہیں ہوگی بلكہ  حكومت سیكولر ہوگی ، جس میں ہر ایك  كو پوری آزادی كے ساتھ زندگی بسر كرنے كا اختیار  ہوگا، اس ملك میں ہر ایك كو  اپنی مذہبی اور قومی تشخصات  اور  پہچان كے ساتھ  رہنے كا حق ہوگا، كسی پر ظلم نہیں ہوگا ،  جتنا بڑی ذات  كو اس ملك میں  رہنے كا حق  ہوگا اتنا ہی چھوٹی ذات كو بھی  رہنے كا حق ہوگا، ہندو ، پارسی،  دلت، سكھ ، عیسائی اور مسلمان تمام لوگوں كو برابر حقوق كے ساتھ اس ملك میں رہنے كا حق ہوگا۔

                اس كے بعد اگر اس ملك میں  اگر ایسا كوئی قانون بنتا ہے ، جس سے آپس میں بھید بھاؤ  اور نفرت كی دیوار كھڑی  ہوتی ہو ، ملك كو  دو اور اس سے زائد حصوں میں بانٹا جاتا ہو ، تو  جہاں بابا امبیڈ كی روح كو اذیت پہنچےگی، وہیں اس  ملك اور  اس میں رہنے والوں كے ساتھ دشمنی ہوگی ، ملك كے ساتھ  بے وفائی  ہوگی ،  ملك كو تباہی كی طرف دھكیلنا ہوگا ،  ایك ایسے دلدل میں ڈالنا ہو كا جس سے نكلنا دشوار ہوگا ، اس خوبصورت ملك كے خوبرو چہرہ كو بدنما كرنا ہوگا ، ا س كی امتیازی شان  اور نمایاں  خصوصیت محتلف مذاہب  كے ماننے والوں كا  گلدستہ  پر آنچ آئےگی ، پوری دنیا  سے اس كی آن بان اور  شناخت جاتی رہےگی ، اور متعصب كنٹری ہونے    كا بدنما دھبہ  اس كے چہرہ پر     لگے گا ۔

Comments are closed.