Baseerat Online News Portal

قرآنی اوراق کی حفاظت اور اسکااحترام کیجئے،توہین سے بچئے!!!

 

سرفراز احمد ملی القاسمی
جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد

قرآن کریم دنیا کی ایک ایسی واحد کتاب ہے جسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے،اور اسکی حفاظت کاوعدہ فرمایا ہے،ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ”بلاشبہ اس قرآن کو ہم نے ہی نازل کیاہے اورہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں”(سورہ حجر)اس آیت کے ضمن میں علماء نے لکھاہے کہ ‘تمام اہل علم اس پرمتفق ہیں کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآنی کانام ہے اورنہ صرف معانی قرآن کابلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہاجاتا ہے،وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے اوراسلامی تصانیف میں تو عموماً مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں،مگر انکو قرآن نہیں کہاجاتا،کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں،اسی طرح اگرکوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ یاجملے لیکرایک مقالہ یارسالہ لکھ دے اسکو بھی کوئی قرآن نہیں کہے گا،اگرچہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہرکانہ ہواس سے معلوم ہواکہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کانام ہے،جسکے الفاظ ومعانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں”(معارف القرآن)علماء نے یہ بھی لکھاہے کہ حفاظت قرآن کے وعدے میں حدیث بھی داخل ہے،یعنی جسطرح اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح حدیث کی بھی حفاظت ہوتی رہےگی،جسطرح قرآن خلط ملط اورکمی وزیادتی سے محفوظ رہےگا ٹھیک اسی طرح حدیث بھی صحیح سالم رہےگی اوراس میں کسی بھی حذف واضافہ کو قبول نہیں کیا جائے گا،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ قرآن کریم کا یہ وعدہ آج تک بالکل درست ثابت ہوا،زمانہ نزول سے لیکر تقریباً ساڑھے چودہ سوسال گذرجانے کے بعداب بھی محفوظ ہے،اوراس میں کسی زیروزبر کابھی فرق نہیں آیا،جسطرح الفاظ قرآنی کاوعدہ اورذمہ داری ہےاسی طرح معانی ومضامین قرآن کی حفاظت اورمعنوی تحریف سے اسکے محفوظ رکھنے کی بھی ذمہ داری اللہ تعالیٰ ہی نے لی ہے،مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ:
’’جولوگ آج کل دنیا کو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ احادیث کاذخیرہ جو مستند کتب میں موجود ہے وہ اسلئے قابل اعتبار نہیں کہ وہ زمانہ رسول ﷺ سے بہت بعدمیں مدون کیاگیاہے،اول تو انکا یہ کہنا ہی صحیح نہیں،کیونکہ حدیث کی حفاظت و کتابت خود عہد رسالت میں شروع ہوچکی تھی،بعدمیں اسکی تکمیل ہوئی،اسکے علاوہ حدیث رسول ﷺدرحقیقت تفسیر قرآن اور معانی قرآن ہیں،انکی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے،پھر یہ کیسے ہوسکتاہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں اورمعانی یعنی احادیث ضائع ہو جائیں؟”(معارف القرآن)گذشتہ دنوں ایک یورپین ملک سے یہ خبر موصول ہوئی کہ 16نومبر کو وہاں کی ایک شدت پسند تنظیم جسکانام(اسٹاپ اسلامائیزیشن آف ناروے،سیان)نے کرسٹئین سینڈ میں مظاہرہ کیا اوراس مظاہرے کے دوران انھوں نے قرآن پاک کے نسخے نذرآتش کرنے کی کوشش کی،سوشل میڈیا پرگردش کررہی اس سانحہ کی ویڈیو میں یہ دکھایا گیاکہ جب سیان کے رہنمالارس تھورسن،نام کا ایک یہودی شخص جب قرآن کو نذرآتش کرنےکی کوشش کررہاتھاتبھی ناروے میں مقیم فلسطینی نوجوان اقصی راشد نے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بڑی ہمت وحوصلے کے ساتھ اس بدبخت پر جھپٹ پڑے اورپھرلات گھونسوں سے اس پرحملہ کیا،تاہم پولیس نے مداخلت کرکے راشد سمیت اس یہودی شدت پسند کو بھی حراست میں لے لیا،راشد کا جذبہ یقیناً قابل تعریف ہے اور قرآن کےتئیں انکی محبت واقعی قابل رشک ہے، اس فلسطینی نوجوان کا یہ قدم ظاہر ہے کسی لالچ اورکسی دوسرے مقصد کےلئے ہرگزنہیں ہوسکتا،اللہ اس نوجوان راشد کو سلامت رکھے جنھوں نے قرآن کی حفاظت کےلئے اپنے جان کی بازی لگادی،اس واقعے کے بعد ناروے کی عیسائی بڑے پیمانے پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کررہی ہیں،وہاں کے حکمران بھی افسوس کااظہار کررہے ہیں، جوایک خوش آئند خبرہے،خبریہ بھی ہے کہ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کو ناروے کے عوام کی حمایت حاصل ہونے لگی ہے،اس واقے کو سامنے رکھکر اگراپنے معاشرے کا ایک سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہو گاکہ آج ہمارے مسائل جس تیز رفتاری سے بڑھتے جارہےہیں اسکی اہم وجہ مال ودولت کی بےجا حرص اور قرآن کریم سے بڑھتی ہوئی دوری ہے،یہ وہ چیزیں جس نے مسلمانوں سے ایمان ویقین کی دولت کو سلب کرلیاہے،اکثر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ انکے پاس”تسیلمی ایمان”ہے”تکوینی ایمان”نہیں،یعنی مسلمان اس بات کو تسلیم توکرتے ہیں کہ نمازپڑھنا چاہئے،روزہ رکھنا چاہئے،صدقہ خیرات کرناچاہئے،اوربس لیکن ایمان کاتقاضہ کیاہے؟ اسلام ہم سے کیامطالبہ کرتاہے ؟قرآن ہم سے کیاچاہتاہے؟وقت اور حالات کاتقاضہ کیاہے، شریعت ہم سے کن چیزوں کامطالبہ کرتی ہے؟ان جیسے سوالات پر غور وفکر کرنے کی نہ کسی کے پاس وقت ہے اورنہ اسکی کوئی اہمیت،بیشتر مسلمان یہ تو سمجھتے ہیں اللہ موجود ہے،مگر یہ یقین کہ وہ ایک پل میں حالات کو تبدیل بھی کرسکتا ہے،کوئی چیزاسکے اشارے کے بغیر ہل بھی نہیں سکتی،یہ یقین اوراعتماد ہم میں نا کہ برابر ہے،زیادہ تر لوگوں کااعتقاد یہ ہوگیا ہے کہ پیسہ اور دولت ہی انسان کی تقدیر بنااور بگاڑسکتاہے،حالانکہ قرآن کریم نے جگہ جگہ انسان کی رہنمائی فرمائی ہے،ایک جگہ ارشادہے”اے انسان تم کو کس چیز نے تمہارے مہربان رب سے دھوکہ میں ڈال رکھاہے”(سورہ انفطار)ایک دوسری جگہ دنیوی زیب وزینت کو بیان کرکےیوں توجہ دلائی گئی ہےکہ”لوگوں کو انکی خواہش کی چیزیں،یعنی عورتیں، بچے اورسونے چاندی کے بڑے بڑے ڈھیراور نشان لگے ہوئے گھوڑے، مویشی اورکھیتی بڑی زینت کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں مگر یہ سب دنیوی زندگی کے سامان ہیں اوراللہ تعالیٰ کے پاس بڑااچھاٹھکانہ ہے”(سورہ عمران)ایک اہم افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ آج ہم خود قرآن کی بے حرمتی اوربے احترامی میں مبتلا ہیں،بے حرمتی کاعالم یہ ہے اب قرآن صرف سجانے کے واسطے اپنے گھروں اورمسجدوں کی الماریوں میں رکھی جانے لگی،قرآن پڑھنے اورپڑھانے والے دینی مدارس کے طلبہ اور علماء سے نفرت کی جانے لگی،اور افسوس کامقام تو یہ ہے کہ اب قرآنی آیات کو جلسے اورعرس کے پوسٹروں کی زینت بناکر اسکی بے حرمتی کی جارہی ہے،پوسٹروغیرہ پر قرآنی آیات لکھ کر دیواروں پر چپکا دیاجاتاہے،راستہ چلنے والے بعض شرپسند اور شریر لوگ ان پوسٹروں کوپھاڑکر روڈ پر پھینک دیتےہیں،جسکوراستہ چلنے والے مسافر معمولی کاغذ سمجھ کر روندتے چلے جاتے ہہیں،بعض اردواخبارات بھی بڑے اہتمام کے ساتھ قرآنی آیات اوراحادیث چھاپتے ہیں، جسکانتیجہ یہ ہے وہ اخبارات یاتو اسکراپ اورردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں اور وہاں سے پھر مختلف ہوٹلوں اوردکانوں کو جاتےہیں اورپھرہوٹل اوردکان والے اس اخبار کو جس میں قرآنی آیات یااحادیث لکھی ہوتی ہیں اپنے گراہک اورکسٹمروں سامان وغیرہ اسی میں پیک کرکے دیتے ہیں،کیایہ قرآن کی بے حرمتی اور بے احترامی نہیں ہے؟ آخرکون ہے اسکاذمہ دار؟میں نے خود شہر کے بعض مسلم ہوٹل میں جب یہ دیکھاتوکاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو توجہ دلائی تواسکاکہناتھاکہ”ہم کچھ نہیں کرسکتے مالک کاحکم ہے ہم تو کام کرنے والے لوگ ہیں”ایک فیشن آجکل یہ بھی چل پڑاہے کہ اب تو لوگ قرآنی آیات کو گاڑی کے شیشے اورگھروں کے دروازے اوردیواروں پر بڑے شوق اوراہتمام سے لکھواتے ہیں،پھرجب وہ دیوار توڑی جاتی ہے یاگاڑی کاشیشہ پھوٹ جاتا ہے تواسکی حفاظت کاکوئی اہتمام نہیں کیاجاتا نہ اس پرکوئی توجہ دی جاتی ہے،ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ گاڑے کے وہ ٹوٹے ہوئے شیشے جس پرآیات قرآنی لکھی ہوئی تھی اسکو ایسی جگہ ڈال دیاگیاتھا جہاں لوگ پیشاب وغیرہ کرتے ہیں نعوذباللہ،ایسا کرتے وقت کسی کو خیال تک نہیں آتاکہ اس میں قرآنی آیات لکھی ہیں،بعض اردو اخبارات جس میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوتی ہے اسکوتو کچرے دان میں دیکھکر طبیعت مضمحل ہوگئ،اور یہ سوچنے لگاکہ آخراسطرح کی حرکت کرنے والے کون لوگ ہوسکتےہیں؟جبکہ حقیقت یہ ہےکہ ایساکرنے والے لوگ غیرنہیں بلکہ مسلمان ہی ہوتے ہیں جو جانے انجانے میں قرآن کی بے حرمتی اوربے احترامی کامظاہرہ کررہے ہیں،اس سلسلے میں معاشرے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے،جبتک مسلمان خود قرآن کی توہین کرتےرہیں گے یہ یقینی ہے کہ ہمارے حالات درست نہیں ہوسکتے،اسلئے ضرورت ہے کہ مسلمان قرآن کی بے حرمتی اوراسکی توہیں سے بچیں،جہاں کہیں قرآنی آیات اور قرآنی اوراقِ کی بے حرمتی ہوفوری اس پر روک لگائی جائے،اسکاسدباب کیاجائے،اوراسکےلئے باضابطہ تحریک چلائی جائےجووقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے اورمذہبی ذمہ داری بھی، قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جسکے ذریعے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کےمقام ومرتبے کوبلند کرتاہے،اونچااٹھاتاہےاورآخرت میں بھی ایسے لوگوں کو سرخروئی نصیب ہوگی،اوراسی قرآن کی بے حرمتی اورتو ہین کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو ذلیل ورسوااورنیچاکرتاہے،اورآخرت میں بھی ایسے لوگوں کاانجام بخیرنہیں ہوگا،سوشل میڈیا اوردیگر ذرائع سے قرآن کی تعظیم و تکریم اوراسکا احترام کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے،اردو اخبارات کوبھی اس میں حصہ لیناچاہئےاور شعور بیداری کی مہم چلانی چاہیے،شہرکے بعض اخبارات اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں جولائق تحسین ہے،اللہ تعالیٰ ایسے اخبارات کوترقی عطافرمائے،اوراسکے ذمہ داروں کوسلامت رکھے،یہ چندسطریں اسی امید سے لکھی گئی ہیں خداکرے یہ تحریر،اردواخبارات کےذمہ داران اوردیگران افراد تک پہونچے جوسماج اورمعاشرے کے مسائل کےحل کےکوششیں کررہےہیں،اللہ تعالیٰ ہم سبکو قرآن کی تعظیم وتکریم اوراسکے احترام کی توفیق عطافرمائے،اوراسکی بے احترامی وتوہین سے حفاظت فرمائے۔آمین

Comments are closed.