Baseerat Online News Portal

قربانی کی اصل روح اور حقیقت

وردہ صدیقی نوشہرہ کینٹ
قربانی شعائر اسلام میں سے ایک عظیم ، عاشقانہ ، والہانہ اور بے حد فضیلت والا حکم ہے ۔ ہر دور میں مسلمانوں نے نہایت محبت ، عشق و اہتمام سے اس حکم کو پورا کیا۔
قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہے اور ہر امت میں مشروع رہی۔ ارشاد ربانی سے خوب واضح ہے ۔
و لکل امۃ جعلنا منسکالیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام۔ (الحج )
ترجمہ :۔ اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقر ر فرمائے ہیں ، تاکہ وہ ان چو پائے ، یعنی جانور پر اللہ کا نام لیں جواللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کی قربانی کا بھی قرآن نے تذکرہ فرمایا:
واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اذقربا قربانا فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الآخر۔ (الانعام)
ترجمہ: ان لوگوں کو آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعی قصہ سنا دے، ان دونوں نے قربانی کی پھر ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔
ایسے ہی حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام کی قربانی کا تذکرہ تو زبان زد عام ہے۔ رحمت خداوندی کو ان کے حکم کی تعمیل کی ادا ایسی پسند آئی کہ اسی ادا سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیا ورنہ اس سے قبل امتوں میں قربانی کا یہ طریقہ تھا کہ قربانی کو ایک کھلے میدان میں رکھ دیتے، آسماں سے آگ آتی اور قربانی کو جلا ڈالتی۔ یہ قربانی کی قبولیت کی نشانی ہوتی تھی۔
قربانی کی فضیلت
اللہ رب العزت نے قرآن مبین کے ذریعے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور امت محمدیہ کو قربانی کا حکم دیا ۔ فصل لربک وانحر (الکوثر )
ترجمہ : اپنے رب کے لئے نماز پڑھئیے اور قربانی کیجیے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قربانی کیا ہے.؟؟
آپ نے فرمایا :” تمھارے باپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے.” صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول للہ! ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا..؟
آپ نے فرمایا: ” ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی.” صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ! اون کے بدلے میں کیا ملے گا ” فرمایا: "اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ملے گی” (الجامع الترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی کام میں مال خرچ کیا جائے وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا” (سنن دار القطنی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو”. (الجامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور دوعالمﷺ نے فرمایا : ” قربانی کیا کرو..! اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو پاک کرو۔ اس لئے کہ جب مسلمان اپنی قربانی کا رخ قبلے کی طرف کرتا ہے تو اس کا خون گوبر اور اون قیامت کے دن میزان میں نیکیوں کی شکل میں حاضر کئے جائیں گے۔” (مصنف عبد الرزاق)
جامع الترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا ( اور اس قیام کے دوران )آپ قربانی فرماتے رہے۔
قربانی میں کوتاہی
قربانی کے بے انتہا فضائل وثواب ہونے کے باوجود کئی لوگ اس فریضے کی ادائیگی سے غفلت برتتے ہیں۔
قربانی واجب ہونے کے باوجود نہیں کرتے۔ بعض اوقات گھر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہونے کے باوجود ایک ہی فرد کی ادائیگی کو کافی و شافی سمجھتے ہوئے باقی کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں
ایسے لوگوں کے بارے میں سخت وعید نازل ہوئی ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو، اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ بھٹکے”. ( سنن ابن ماجہ)
دشمن کی سازش
ایسے ہی نام نہاد روشن خیالوں نے مسلمانوں کے دل سے قربانی کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے کچھ لاعلم لوگ ان کی سازشون میں گھر کر کہنے لگتے ہیں کہ قربانی کے بجائے پیسہ کسی فلاحی اداروں میں دے دئیے جائیں۔ تاکہ اس سے انسانیت کی فلاح وبہبود کا کام کیا جائے یہ سادہ عوام جانتی نہیں کہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے نام پر بنے یہ ادارے مقصد میں کم اور اپنی ذات و ادراے پر ان کا دیا ہوا پیسہ خوب لگاتے ہیں۔
حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام کے واقعے کی اصل روح ہی تعمیل حکم ہے کہ مالک نے جو حکم دیا اس پر بلا چوں وچرا کے سر تسلیم خم کردیا جائے۔اصل مقصد اور حکم ہی جانور قربان کرنے کا ہے تو حکم کی تعمیل بھی قربانی کی صورت میں ہی قابل قبول ہوگی اگر حکم کے مطابق تعمیل نہیں کی چہ جائے کہ اپنے خیال کے مطابق اس سے ہٹ کر کے کوئی دوسرا طریقہ اپنایا ہو اللہ رب العزت کے ہاں قبول ومنظور نہیں ہوگا۔
اخلاص نیت
قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاح نیت کی بھی بیحد ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کا قربانی کرنے کا مقصد ہی اللہ کے حکم کی تعمیل کرکے اس کی رضا مقصود ہویعنی اخلاص سے بھرپور ہو اور ریاکاری، دکھلاوے اور ذاتی برتری سے پاک ہو
ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہمیں اسی سبق کی یاد دھانی کرواتی ہے ۔ ان صلاتی و نسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین۔
ترجمہ: "بلا شبہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے : ” جو شخص اس طرح قربانی کرے کہ اس کا دل خوش ہو اور اپنی قربانی میں ثواب کی نیت رکھتا ہو وہ قربانی اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ ہوجائے گی” ( الطبرانی ، الحاکم)
قربانی کی حقیقت
قربانی کی اصل روح اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ سے محبت کرے اور اس محبت میں فقط اللہ رب العالمین کے لئے اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کی ظاہری صورت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت حاصل کرنے کا عزم کریں،اللہ رب العزت ہمیں قربانی کو اس کی حقیقت اور اخلاص سے کرنے والا بنائے (آمین)

Comments are closed.