Baseerat Online News Portal

قربانی کے مسائل اور چند غلط فہمیوں کی نشاندہی

 

محمد عارف رضا نعمانی مصباحی

عبادات الٰہیہ میں غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبادت قربانی چاہتی ہے، قربانی کے بغیر عبادت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔قربانی کبھی وقت کی ہوگی کبھی جان و مال کی ہوگی،کیا یہ بات صحیح ہوگی کہ قربانی بھی دی جائے اور عبادت بھی صحیح نہ ہو، تو عبادت کی درستگی کے لیے صحیح مسائل سے آگاہی بہت ضروری ہے، تبھی ہم عبادات بطریق احسن ادا کر سکیں گے۔
یوں ہی قربانی جو کہ ہر مالک نصاب پر واجب ہوتی ہے عبادت بھی ہے اور حقیقی قربانی بھی، اس میں بہت سے لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں،اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنی قربانیوں کو برباد کرتے ہیں اور صحیح مسائل جاننے کی زحمت نہیں کرتے یا ضروری نہیں سمجھتے اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم نے تو قربانی کر دی،لہٰذا ایسوں کو چاہیے کہ دین کے ضروری مسائل سیکھیں، اپنی عبادات اور قربانیوں کو صحیح طریقے سے ادا کریں۔
عوام میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہتے ہیں کہ پچھلی بار ہم نے دادا کے نام سے قربانی کی تھی اس بار نانا کے نام کرنا ہے، پچھلی بار حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم کے نام کی تھی اس بار بڑے پیر صاحب کے نام کرنا ہے، ایسے ہی بزرگانِ دین یا دیگر رشتے داروں کے نام گنانے لگتے ہیں، ایسے لوگ اچھی طرح یاد رکھیں کہ جب تک اپنے ذمے کی واجب قربانی نہیں کریں گے تب تک کوئی نفلی قربانی قبول نہیں ہوگی۔
بسا اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گھر کے ذمہ دار یعنی باپ کا انتقال ہوگیا ہے اور تمام بچوں کا مشترکہ کاروبار ہے اور سبھی مالک نصاب ہو جاتے ہیں تو تمام بھائیوں پر قربانی واجب ہوگی، ایسا نہیں ہے کہ صرف بڑے بھائی کے قربانی کرنے سے دوسروں کی قربانی ساقط ہوجائے، بلکہ سب کو قربانی کرنی ہوگی، یوں ہی ایک شکل یہ ہے کہ تمام لڑکے کاروبار سے پیسے کما کر اپنے باپ کو دے دیتے ہوں جو سب کا ذمے دار ہے اور خود اتنا پیسا نہ رکھتے ہوں جو نصاب تک پہنچ جائے تو اب صرف اسی ذمہ دارباپ پر قربانی واجب ہوگی جس کے پاس نصاب بھر مال ہے، دوسرے بیٹوں کے پاس نصاب تک مال نہ ہونے کی صورت میں ان پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
قربانی کے دنوں میں بھی اگر کسی کے پاس اتنا مال آگیا جو نصاب تک پہنچتا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہوجاتی ہے زکوٰۃ کی طرح سال گزرنا ضروری نہیں اور قربانی کے ایام ختم ہونے سے پہلے پہلے قربانی کرنا ضروری ہے ورنہ گناہ گار ہوگااور بعد میں قربانی کے برابر صدقہ کرنا بھی ضروری ہوگا۔یہ قربانی آنے والے سال کرنے سے ادا نہ ہوگی۔ہاں آئندہ سال قربانی کے دنوں میں اگر مالک نصاب رہا تواس سال کی قربانی کرنی واجب ہوگی۔
ایک شکل یہ ہے کہ باپ کا انتقال ہو گیا اب اس کے دویاچار یا اس سے زیادہ بیٹے ہیں اب مال اگر چہ مشترک ہے، جب تقسیم کریں گے تو سب مالک نصاب بن جائیں گے (اگر چہ ابھی تقسیم نہیں کیا)تو ہرایک کو اپنی طرف سے قربانی کرنی ہوگی۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ مرحوم باپ کی طرف سے ایک قربانی کر دی یا مال جو موجود ہے اس کے نام سے ایک قربانی کر دی اور سمجھ لیا کہ سب بیٹے بری الذمہ ہو گئے۔یوں ہی ایک بھائی، بڑے ہوں یا چھوٹے کی طرف سے قربانی کی تو سب کی نہیں ہوگی صرف اس ایک ہی کی ہوگی جس کے نام سے قربانی کی گئی۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ عیب دار جانور کی قربانی کر دیتے ہیں یا ایسا عیب جس کے ہونے سے قربانی کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا،اس کے عیب ہونے کے شک میں قربانی نہیں کرتے، ہر کوئی اتنی استطاعت والا بھی نہیں ہوتا کہ فوراً وہ دوسرا جانور لا کر قربانی کرے، اس لیے ہر قربانی کرنے والے کو ضروری مسائل سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، آج کل اینڈرائڈ موبائل کا دور ہے جس کے ذریعے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے، لہٰذا ایسے موقعے پراس کا بہتر استعمال کیا جائے۔
ہمارے ایک ملاقاتی نے بڑے جانور کے کسی عیب سے متعلق مسئلہ پوچھا،تو میں نے کہا کہ فوٹو کھینچ کر بھیج دیجیے تاکہ آسانی سے مسئلہ سمجھ میں آجائے تو فوٹو دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ عیب نہیں ہے، اس کی قربانی درست ہے، جب کہ لوگ اسے عیب گمان کر رہے تھے۔اس مثال سے یہ ثابت ہوا کہ کم ہی لوگ اس طرح باریک بینی سے غلط فہمیوں کو دور کرکے اپنی قربانیاں درست کرتے ہیں۔
یہ بات بھی عوام میں پائی جاتی ہے کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے اس کی قربانی صحیح نہیں، حالانکہ قربانی کا عقیقے سے کوئی تعلق نہیں، بغیر عقیقے کے بھی قربانی درست ہوگی، عقیقہ کا مسئلہ الگ ہے، قربانی کا الگ، ہاں بڑے کے حصے میں قربانی کے ساتھ ساتھ عقیقہ بھی ہو سکتا ہے،اس کے لیے الگ سے جانور لینے کی ضرورت نہیں۔یہ بھی یادرہے کہ عقیقہ سنت ہے استطاعت ہونے پر زندگی میں ایک ہی بار کرنا ہے، اگر باپ نے کسی وجہ سے عقیقہ نہیں کیاتو خود آدمی اپناعقیقہ بھی بڑے ہوکر کر سکتاہے۔اور عمر بھر میں کبھی بھی کر سکتا ہیہاں بہتر یہ ہے کہ بچے کا عقیقہ پیدا ہونے کے ساتویں روزکیا جائے۔
بسا اوقات گھر کے ذمہ دار نے اپنی طرف سے قربانی کر دی، لیکن عورتوں کے پاس اتنی مالیت کے زیورات ہیں جو نصاب کو پہنچتے ہیں اور ان کی مالک خود عورت ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، غفلت میں عورتیں قربانی نہیں کراتیں یا شوہر کی طرف سے قربانی کو کافی سمجھتی ہیں، ان کو چاہیے کہ ایسے مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لیں تاکہ جن جن پر قربانی واجب ہے وہ ادا ہوسکیں۔
قربانی کے گوشت کا تین حصہ کرنا مستحب ہے ایک حصہ فقراو مساکین کے لیے، ایک حصہ دوست احباب کے لیے، ایک حصہ گھر والوں کے لیے۔ تو جن کے دوست احباب کچھ غیر مسلم بھی ہوں تو وہ ان کوشامل نہیں کر سکتے۔کیوں کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیناجائزنہیں۔قربانی کا گوشت پکا کر بھی غیر مسلم کو نہیں کھلا سکتے،ہاں الگ سیگوشت خریدکران کو کھلا سکتے ہیں اوردے بھی سکتیہیں۔جن کو تعلقات نبھاناہیان کو ایساہی کرناچاہیے تاکہ شرعی مسئلے پرعمل بھی ہوجائے اورتعلقات بھی بحال رہیں۔
کہیں کہیں قصائی قربانی کا گوشت اجرت کے طور پر مانگ کر لے جاتے ہیں یا گھر والے اجرت میں گوشت دے دیتے ہیں، قصائی کو قربانی کا گوشت یا چمڑا اجرت میں دینا جائز نہیں ہے، ہاں اجرت کے بعد تبرعا ً(بطورنفل)دے سکتے ہیں۔
جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر تینوں رگ کاٹنا ضروری ہے، اگر ذبح کرنے والا تینوں رگ نہیں کاٹ سکا اور قصائی کو چھری دے دی تو اس سے بھی کہے کہ بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر بقیہ رگ کاٹے اگر بغیر بسم اللہ پڑھے بقیہ رگ کاٹ دی تو قربانی نہیں ہوئی، بسم اللہ پڑھ کر شہ رگ کاٹنا ضروری ہے۔اس سے بہت لوگ غفلت برتتے ہیں، خاص طور سے اس وقت جب ذبح کرنے والا کوئی کمزور ہو، اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔
سات حصے والی قربانی میں گوشت تول کر سب کو برابر برابر تقسیم کیا جائے، پائے اور کلیجی سب کو گوشت میں ملا دیا جائے تاکہ تقسیم میں پریشانی نہ ہو، یا ساتوں افراد کسی آٹھویں کو بالاتفاق پورے گوشت کا وکیل بنا دیں تو اب اسے اختیار ہے جس کو جتنا چاہے دے، ایسی صورت میں تولنے کی ذمہ داری سے بچا جا سکتا ہے۔
مسئلہ: قربانی اگر منت کی ہے تو اوس کا گوشت نہ خود کھاسکتا ہے نہ اغنیا کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کر دینا واجب ہے وہ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ نہ خودکھا سکتا ہے نہ غنی کو کھلا سکتا ہے۔(بہار شریعت،حصہ ۱۵،صفحہ ۳۴۵)
مسئلہ: ذبح کرنے سے پہلے چھری کو تیز کر لیا جائے(بارہا کا تجربہ ہے کہ قصائی حضرات گھر میں جتنی چھریاں رکھی رہتی ہیں بقرعید پر سب کو نکال دیتے ہیں اور قربانی کے لیے دے دیتے ہیں، جب چھری چلائی جاتی ہے تو چلنے کا نام نہیں، تو جانور کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔خودبھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لہٰذا چھریوں پر دھیان دینا بہت ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ جانور ڈبل قربانی سے گزرے) اور ذبح کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے،اس کے تمام اعضا سے روح نکل نہ جائے،اس وقت تک ہاتھ پاؤں نہ کاٹیں اور نہ چمڑا اتاریں اور بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو، حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:’’کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرے میں سب کی مغفرت ہوجائے گی۔اس پر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا نبی اللہ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم) یہ آپ کی آل کے لیے خاص ہے یاآپ کی آل کے علاوہ عامہ مسلمین کے لیے بھی،فرمایا کہ میری آل کے لیے خاص بھی ہے اور تمام مسلمین کے لیے عام بھی ہے۔ (بہار شریعت،حصہ۱۵، صفحہ ۳۴۴)
مسئلہ: اونٹ اور بھینس کے شرکامیں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ(صرف) گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔(درمختار،بحوالہ بہارشریعت، حصہ ۱۵ صفحہ۳۴۳)
کافر ہونے میں اہل سنت و جماعت کے علاوہ سارے فرقہاے باطلہ ہیں جن کے عقائد گستاخانہ ہیں، لہٰذا حصہ میں قربانی کرتے وقت حصے داروں کو خوب چھان پھٹک کر شامل کریں، حصہ داروں میں سارے اہل سنت ہی ہونے ضروری ہیں ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔
یہ چند عوامی غلط فہمیاں جو سامنے آئیں نقل کر دی گئیں، بقیہ قربانی کے مسائل سیکھنے کے لیے بہارشریعت کا پندرہواں حصہ، قانون شریعت وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات،علی گڑھ
7860561136
[email protected]

Comments are closed.