Baseerat Online News Portal

قطر ایک طاقتور ملک بن کر ابھرا ہے

 

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

کہتے ہیں کہ کبھی بھی کسی کم نہیں آنکنا چاہیے، وقت اور ضرورت صرف انسان کو ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کو بھی مضبوط جگر، حوصلہ مند دل اور پرواز کی نئی فضا فراہم کردیتے ہیں، بی بی سی نے قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے استوار ہوتے رشتوں پر تجزیاتی رپورٹ تیار کی ہے جس سے "کم من فئۃ غلبت” کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، چنانچہ اس دفعہ سالانہ گلف کارپوریشن کاؤنسل (GCC) کی میٹنگ کے دوران خلیجی ممالک کی یکجہتی اور اتحاد نے گرمجوشی پیدا کردی ہے، جس قطر کا بائیکاٹ کیا گیا تھا، بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، اخوان المسلمین، فلسطین، غزہ وغیرہ اسلام پسند تحریکوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مدد کرنے پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کر کے خلیجی ریاستوں سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اسی کے ساتھ اب ایک نئے رشتے کی شروعات ہوچکی ہے، سعودیہ عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کی سختی پگھل گئی ہے، وہ خود ان سے سفارتی اور معاشی بنیاد پر رشتہ بحال کر رہے ہیں، اب وہ آگے بڑھ کر قطر کے شاہ تمیم بن حمد آل ثانی کو گلے لگانے کیلئے تیار ہیں، یا کہنا چاہئے کہ کرونا وائرس کی تمام پروٹوکول کو نطر انداز کرتے ہوئے معانقہ کرنے پر آمادہ ہیں، تیس لاکھ سے بھی کم آبادی والے دیش قطر کو مذکورہ چاروں ممالک نے فضائی، سمندری اور معاشی بحران میں ڈالنے کی کوشش کی تھی، لگ بھگ ساڑھے تین سال کی پابندیوں کے باوجود قطر نہ صرف اپنی ڈگر پر قائم ہے؛ بلکہ وہ پہلے سے بہت زیادہ طاقتور اور مضبوط ملک بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پر لاکھ دباؤ ڈالنے کے باوجود اس نے اخوان المسلمین اور دیگر تنظیموں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اسے بار بار ایران اور ترکی سے دور رہنے، ساتھ ہی یہ کہ دوحہ میں موجود الجزیرہ خبر رساں ادارے پر پابندی لگانے پر مجبور کیا گیا؛ لیکن اس نے کسی آن نہ سنی، بلکہ وہ ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ اس کا تعلق کسی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نہیں ہے، اس کے تعلقات کسی سے بھی ملک مخالف نہیں ہیں، وہ مختار ہے کہ کس سے دوستی کرے اور کس سے دوستی نہ کرے، اسے اپنے بیرونی پالیسیوں سے خوب واقفیت ہے، اسے معلوم. ہے کہ کون دوست ہے اور کون دشمن ہے؟ ایسے میں یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آخر چاروں ممالک کیوں قطر سے سیاسی و معاشی تعلقات بحال کرنے پر راضی ہوگئے؟ یہ بات سچ ہے کہ اس میں کویت اور امریکہ کا خاص کردار رہا ہے، انہوں نے ثالثی کرتے ہوئے ان ممالک کو قریب کرنے کی کوشش کی ہے، مگر غور کیا جائے تو پس پردہ کئی معاملات ہیں جن پر سے پردہ کشائی ضروری ہے، ایک بڑی وجہ یہ تسلیم کی جاتی ہے کہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی شکست ہوگئی ہے اور ان کی جگہ پر جوبائیڈن نئے صدر بننے والے ہیں، بائیڈن نے یہ صاف کردیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ پرمانو سمجھوتے میں پرانے نہج پر کچھ شرطوں کے ساتھ لوٹیں گے، اور یہ بھی یقین دلایا ہے کہ ترکی میں موجود سعودی سفارت خانے میں صحافی کمال خاشقجی کے قتل کو حقوق انسان کی پامالی قرار دیں گے، جس میں براہ راست محمد بن سلمان کا ہاتھ مانا جاتا ہے؛ بلکہ ترکی نے اس کے خلاف ثبوت بھی پیش کئے تھے؛ لیکن محمد بن سلمان اور ٹرمپ کا یارانہ ایسا ٹھہرا کہ یہ معاملہ معلق رہا، ایسا اندازہ ہے کہ اگر اس کی تفتیش کی گئی تو شہزاے بلاواسطہ مجرم قرار پاسکتے ہیں، اسی طرح بائیڈن نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یمن میں امارات اور سعودی عرب کی فوجی کارروائیوں کی بھی جانچ کروائیں گے، اس کا مطلب صاف ہے کہ ان ممالک کے شاہوں اور بادشاہوں کے گلے میں ہڈی پھنس سکتی ہے، ٹرمپ کا پٹہ اگر اترتے ہی بائیڈن ایک نئے ضابطے اور قانون کے ساتھ خلیجی ممالک کو نشانہ بنائیں گے اور یقینی بنائیں گے تو خلیج ان کے ہاتھوں میں مزید جکڑ جائے گا.

قطر کا اپنے موقف پر ٹکے رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اسے بہتر دوستوں کا ساتھ ملا بالخصوص ترکی نے اسے تنہا نہیں چھوڑا؛ بلکہ اس بائیکاٹ کے دوران اس نے معاشی رو سے مدد پہنچانے کی پوری کوشش کی تھی، تجارتی راہ ہموار کئے، فضائی اور سمندری حدود بھی استعمال میں لائے گئے؛ حالانکہ یہ کوئی نیا رشتہ نہیں ہے بلکہ قطر اور ترکی کے تعلقات پہلے بھی بہت اچھے رہے ہیں، خاص طور پر ٢٠١٦ میں قطر نے ترکی کو فوجی اڈے کیلئے جگہ بھی فراہم کی تھی، جس سے سعودی عرب اور امارات نے سخت لہجہ اختیار کیا تھا؛ لیکن قطر نے ان پر کوئی توجہ نہ دی تھی، یہی وجہ ہے کہ بات بات بڑھتے بڑھتے جون ٢٠١٧ میں ان ممالک نے قطر سے سارے رشتے توڑ لئے، چونکہ ترکی کو سعودی عرب اپنا مدمقابل تصور کرتا ہے اور اسے یہ خوف ہے کہ خادم الحرمين الشريفين کی حیثیت سے پائی گئی بچی کھچی عزت بھی کبھی بھی تار تار ہوسکتی ہے، عوامی بغاوت، فوجی کارروائی یا عالمی سطح پر گھیرا بندی کی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ترکی کے متعلق غیر ضروری حساسیت دکھانے سے بھی باز نہیں آتا، چونکہ قطر حجم میں چھوٹا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے پیچیدگیوں میں الجھانے کی کوشش کی تھی، مگر اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھی بڑے اور طاقتور ہیں، ایسا مانا جاتا ہے کہ مقاطعہ کو ختم کرنے کیلئے قطر کے سامنے تیرہ شرطیں رکھی گئیں تھی، جن میں ترکی کے فوجی بیس کو ہٹانے کی بات بھی شامل تھی؛ لیکن قطر نے ایک دو کے علاوہ کوئی بات بھی تسلیم نہیں کی ہے، پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں یہ قطر کی جیت ہے، کیونکہ سعودی عرب اور اس کے ہم نواؤں نے ایسی ناکابندی کی تھی جس کو بہت آگے تک نہیں کھینچا جاسکتا تھا، اسی طرح سعودی اور امارات نے کبھی اندازہ بھی نہیں لگایا تھا کہ قطر اپنے آپ کو فوجی اعتبار سے بھی اتنا طاقتور بنا لے گا؛ کہ وہ خلیجی ممالک میں ایک طاقتور ملک بن کر ابھرے گا، بائیکاٹ سے پہلے اس کے پاس صرف بارہ فضائی فوجی جہاز تھے؛ لیکن پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ اب ڈھائی سو سے بھی زیادہ ہیں، پروفیسر صاحب یہاں تک کہتے ہیں کہ امارات اور سعودی عرب کے بینکوں نے ملکر قطر کی کرنسی کو کمزور کرنا چاہا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، الجزیرہ کے تیس صحافیوں کے اکاؤنٹس بھی ہیک کئے گئے پھر بھی کچھ نہیں ہوا، دراصل ان ممالک کی خواہش تھی کہ ایک چھوٹے ملک کو دبا کر ایک ایسے حکمراں کو بٹھایا جائے جو ان کے اشارت کا محتاج ہو؛ لیکن اس نازک مرحلے اور پابندیوں کے دور میں قطر کہیں زیادہ مضبوط دیش بن کر اٹھا ہے اور اپنے حریفوں کو حلیف بننے پر مجبور کردیا ہے.

 

 

Comments are closed.