Baseerat Online News Portal

قفس میں قفس سے روح پروازہوگئی ان کی

عبدالرافع رسول
ریاست جموں و کشمیر کی ملی، دینی ،عسکری ، سیاسی، علمی اور روحانی تاریخ میں ایسے گوہر نایاب نظر آتے ہیں جن کے تب وتاب سے ہر کشمیری کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ان میں بلند قامت، نابغہ روز گار ہستیوں کا تذکرہ ہے جو نہ صرف ریاست بلکہ دنیائے عالم میں اپنی سیاسی بصیرت ، فکر و دانش، علم و حکمت اور فہم و فراست میں شہرہ آفاق انمٹ نقوش کے حامل ہیں۔ ہمالیہ سے بلند کردار اور انمول عمل ان شخصیات کا خاصا ہے اور اس کے اثرات سمندر سے بھی گہرے ہیں۔بانی اسلام کشمیر، محسن کشمیربطل جلیل امیرکبیرسیدعلی ہمدانی کی کشمیرتشریف آوری کے بعداس وقت کے حاکم کشمیرریچین شاہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے ساتھ جب بلبل شاہ بن گئے تویہیں سے ایسی نادر و نامور ہستیوں کا تسلسل شروع ہوجاتاہے اوربڈشاہ ، شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی، دانائے رازعلامہ ڈاکٹر محمد اقبال ،امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری، ، شاعرکشمیرغلام احمد مہجور تک جا ملتا ہے۔ یہ ایسی نامی گرامی ہستیاںہیں کہ جن کے طنطنوں سے قلوب و اذہان میں تازگی وارفتگی اور عزم و ایمان میں جدت و حلاوت ملتی ہے اورجن کی دینی و روحانی گہرائی و گیرائی کی وسعت کل کی طرح آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔بقول علامہ اقبالؒ
جس خاک کے ضمیرمیں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سردہووہ خاک ارجمند
عصرموجودمیں کشمیرکے سیاسی افق پرچھائی ہوئی ،کشمیرکازکے ساتھ والہانہ عقیدت اوربے پناہ محبت کی حامل ،شخصیات کا جب ذکرکیاجاتاہے تودیگرحضرات کے ساتھ ساتھ محمداشرف خان المعروف اشرف صحرائی اپنے جاندار کردار ، کشمیرکازسے نظریاتی پختگی ، علم و تجربہ ، فکر و دانش سے انکی شخصیت ابھرکرسامنے آجاتی ہے۔ کشمیرکاز کے ساتھ بھرپورکمٹمنٹ ان کا مقصد حیات رہا ہے۔ خود ایک کارکن کی حیثیت سے عملی جدوجہد میںمظلوم کشمیریوں کی آوازبن گئے۔ مجموعی طورپر وہ ایک فرد نہیں بلکہ انجمن اور ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔وہ اپنی سادگی ، ہمدردی ، اخلاص، مروت، معاف کرنے کے جذبے اور علم دوستی و نظریاتی تعلیم و تربیت میں یکتائے روزگار مرد کوہستانی تھے۔ ایک ہمہ جہت بلکہ شش جہت پہلو شخصیت تھے جن کے خمیر میں اسلام کا جذبہ صادق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ انکی ساری زندگی اسی مشن کے ساتھ گزری جس میں حوادث زمانہ میں اپنوں و بیگانوں کی طرف سے نفرتوں کے کئی طوفان آئے اور سازشوں کی آندھیاں چلیں لیکن انکے جذبوں اور حوصلوں میںاعصابی اور نفسیاتی طور تنزل ،تسفل ،تبدل و تغیر پیدا نہیں کر سکیں بلکہ اس مرد آہن نے ہر آزمائش کو اپنے پختہ یقین و عزم کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا’’فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یامردکہستانی ‘‘
اشرف صحرائی کی فکر میں (Clarity)عمل میں( Maturity) خطابت میں سیف زبانی اور عقیدے میں مدحت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔وہ کشمیرکے ان پاکبازاورپاک نفوس میں سے ایک تھے کہ جن کے رگ و ریشے میں کازکی فکراس قدر حلول کرچکی تھی کہ جوانہیں ہمہ وقت بے چین، بے قرار اور برسر پیکار رکھتی تھی،وہ صف اول کے ان قائدین میں سے تھے کہ جنہیں انقلاب کے مفہوم، ماہیت، نفسیات، حدود اربعہ، اہمیت، اختتام، ثمرات اور اسکے تقاضوں کا ادراک تھا،بلاشبہ ان کی ساری کاوشیں، کوششیں اور جدوجہدخالص اور فی سبیل اللہ تھی۔محمداشرف صحرائی اپنے سکون کو تج دے کر اپنی قوم کی بھلائی کو مقدم رکھنے کاروادارتھا۔ وہ اپنے اندر ایک انجمن اورنوجوانان کشمیرکے دلوں کی دھڑکن تھا۔ ان کی آواز تکبیر مسلسل ہوتی تھی ۔کسی لیپاپوتی کے بجائے ہمہ جہت اور ہر محاذ پر جدوجہد اور ہمہ گیر تبدیلی ان کامطمع نظرتھا ۔وہ مشکلات کو سینے سے لگانے کا ہنر جانتاتھا اور مصائب میں ملت کشمیرکی ڈھارس بندھانا بھی جانتا تھااوروہ باطل پرستوں کے تخت طائوس کی چولیں ہلاکر رکھ دینے کاہنرمندتھا۔اشرف صحرائی مقبوضہ کشمیر کاآبائی علاقہ ٹکی پورہ وادی لولاب ضلع کپوارہ تھااور وہ اپنے عہدشباب سے ہی سیدعلی گیلانی کے معتمداورمتحرک ساتھی رہے اورسیدعلی گیلانی پیارکے ساتھ انہیں ’’عشہ لالہ ‘‘کے نام سے پکاراکرتے تھے۔
اشرف صحرائی وہ پہلے کشمیری قائد تھے کہ جن کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فرزندجنیدصحرائی 2019میںمجاہدین کی صف میں شامل ہوئے اور19مئی2020میں سری نگرکے علاقے ڈائون ٹائون میں قابض بھارتی فوج کے ساتھ ہوئے ایک طویل معرکے میںشہادت کارتبہ پاکرسرخروہوئے ۔اپنے بیٹے کی شہادت کے بعدصحرائی ابوشہید کہلاتے تھے۔12جولائی 2020میںانہیں بھارتی کالے قانون کے تحت گرفتارکیاگیااورادھم پور جیل جموں میں اسیربنادیاگیاصحت کوکئی عوارض لاحق ہونے کے باعث وہ جیل میں علیل رہے۔ 3مئی 2021کوجیل حکام نے انہیں اسپتال منتقل کیالیکن 5مئی 2021بدھ کو وہ اسارت کے عالم میں77برس کی عمرمیںجموں کے اسپتال میں خودبھی شہیدہوگئے اوریوں اس حراستی قتل سے وہ ’’شہیداسیر‘‘کہلائے۔عظیم کاروان کے عظیم راہی کا شہیدبیٹا گھرسے بہت دوردفن تھاجبکہ عظیم والدبھی گھرسے سینکڑوں کلومیٹرشہیدہوئے۔انکے جسد خاکی کو5مئی بدھ کی شام کوان کے آبائی گھرواقع ٹکی پورہ لولاب پہنچائی گئی جسے بھارتی فوج نے پہلے سے ہی گھیرے میں لیاہواتھا۔علاقے کوفوجی حصار اورگھیرائوکے باعث خاندان اورچندقریبی رشتہ داروں علاوہ کسی کوبھی بھی ان کی نماز جنازہ اورتدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ایک تحریک ،ایک تاریخ کاباب اختتام ہوا۔تاریخ لکھے گی کہ تحریک آزادی کشمیرکے یہ واحد قائدتھے کہ جن کابیٹاراہ حق میں شہیدہواپھرباپ بھی اسی راہ کی کلفتیں برداشت کرتے کرتے شہید ہوگئے۔
ایسانہیں اس دورمیں فقط نمرودکی چلتی ہے
خلیل واسماعیل کی سنت بھی توزندہ ہے
جن لوگوں کی زندگی کشمیرکازکے خارزار میں آبلہ پائی کرتے ہوئے گزری اشرف صحرائی ان میں صف اول کے مسافراورمنزل کے اولین راہی تھے۔محمد اشرف خان عرف صحرائی جماعت اسلامی کے سینئر ترین لیڈروں میں سے تھے اور سید گیلانی کے ساتھ انکی رفاقت عشروںپرمحیط تھی۔1962سے ہی اشرف صحرائی جیل وبندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اگر ان کی جیل زندگی شمارکی جائے تووہ ڈیڑھ عشرے سے زائدکے ایام بنتے ہیں۔جہاد کشمیراورمجاہدین کابرملااورڈنکی کی چوٹ پرساتھ دینے کے معاملے پردونوں کا جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت کے ساتھ اختلاف ہوا۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت کوجہاد کشمیراورمجاہدین کا عملی ساتھ نبھانے میں تامل تھا۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت دلیل پیش کررہی تھی کہ جہادکشمیرکاساتھ دے کرجماعت اسلامی کے اراکین چن چن کر شہیدکئے جارہے ہیں اور اگر یہ مہیب سلسلہ جاری رہاتو پھرارض کشمیرپرجماعت اسلامی کامکمل اورپوری طرح خاتمہ ہوجائے گا۔جبکہ سیدعلی گیلانی اوراشرف صحرائی کی دلیل یہ تھی کہ یہی تواہل ایمان کے ایمان وایقان کے لئے کسوٹی ہے اب اصل وقت آیاکہ ہم ثابت قدمی دکھاکرسرخروہوجائیں اورعنداللہ کامیابی پائیں۔سیدعلی گیلانی اورمحمداشرف صحرائی دونوں نے دلائل پیش کرتے ہوئے جماعت کے قائدین سے کہاکہ کشمیرکے نوجوانوں کی ایک بھاری اورمعتدبہ تعدادنے جماعت اسلامی کے قائدین کی انقلابی تقاریر کے نتیجے میں ہی جہادکشمیرکی صفوں میں شمولیت اختیارکی ہے اورجماعت اسلامی جموںوکشمیرکے ارکان کی ایک اچھی خاصی تعدادمیدان جہادمیںان کی کمانڈ کررہے ہیںتواگران سب ٹھوس حقائق کے باوجود جماعت اسلامی جہاد کشمیراورمجاہدین کا عملی ساتھ نبھانے سے پیچھے ہٹ جاتی ہے تویہ اس کاجہادسے فرارہوگااورجہادسے راہ فرارااختیارکرناعظیم ترین اورناقابل معافی گناہ ہے۔یادرہے کہ 1995میں کونٹرملٹنسی کے نام پرمنحرفین جہاد کواس وقت کی حکمران پارٹی نیشنل کانفرنس نے ’’ٹاسک فورس‘‘ کی شکل دے کرمجتمع اورمتحرک کردیاتو جماعت اسلامی پر ایک خوفناک افتاد آن پڑی اورکئی اراکین جماعت نہایت بے رحمانہ طریقے سے شہیدکردیئے گئے ۔
اس ردوقدح کے باوجودجب سید علی گیلانی اورمحمداشرف صحرائی کے جماعت اسلامی سے اختلافات رفع نہ ہوسکے اورجماعت اسلامی کی قیادت اپنی ڈگراورضدم ضداپراڑی رہی تو 2004میںسیدعلی گیلانی نے ’’ تحریکِ حریت جموںوکشمیر‘‘کے نام سے ایک نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ،بزرگ قائدکے فیصلے کوحق بجانب قراردیتے ہوئے محمداشرف صحرائی پوری جماعت اسلامی میں تن تنہاانکے ساتھ کھڑاہوئے اوران کاساتھ دیابعدمیں ولی محمدشاہ اورایک اورساتھی شیخ صاحب بھی انکے ہم نشین بنے جماعت اسلامی والوں میں سے عملی طورپران کاساتھ کسی اورنے نہیں دیا ۔اشرف صحرائی تحریک حریت کے سکریٹری جنرل منتخب ہوتے رہے جبکہ ایک انتخاب کے نتیجے میں بزرگ قائد سید علی شاہ گیلانی اس تنظیم کے تاحیات چیئرمین منتخب ہوئے ۔
محمداشرف صحرائی کو ایک فکری شخصیت کے ساتھ ساتھ کشمیرکاز کے حوالے سے وعدہ بند قائد مانا جاتا تھا وہ مصلحت پسندی کے بہت زیادہ قائل نہیں تھے۔ان کی زندگی کے بیشترشب وروزعقوبت خانوں اورزندانوں میں گذرے ہیںاوروہ قفس کے رطب ویابس کابھرپور شعوررکھتے تھے۔اپنے موقف اوراپنی کمٹمنٹ کے باعث اشرف صحرائی کو تحریک آزادی کشمیرمیں نہایت احترام اور بے پناہ عقیدت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ محمداشرف صحرائی میںتحریک آزادی کشمیرکے ساتھ والہانہ عشق، جدوجہد کی مقصدیت کا گہرا شعور، نشیب و فراز کا ادراک، نوجوانان ملت کشمیر کے ساتھ محبت، حصول منزل کی فکر، دشمن کے منصوبوں پر گہری نظر، تحریکی تقدس کا احساس بدرجہ اتم موجود پایا جا رہا تھا ۔ یہ امر محتاج وضاحت نہیں کہ محمداشرف صحرائی اس وقت ظالمانہ سازشوں اور منصوبوں کوطشت ازبام کرکے ان تمام چہروں کو بے نقاب کرتے چلے آ ئے تھے کہ جب سترکے عشرے میںہرطرف کشمیرمیں شیخ عبداللہ کاطوطی بول رہاتھا۔ وہ اسوقت مسئلہ کشمیرپردلی کے مکرو فریب اوردھوکہ دہی کوطشت از بام کرتے رہے،جب حالات ان کاساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ آج تک نہ صرف تحریک کشمیرکازکے حوالے سے بے لاگ اور بے باک تھے بلکہ وہ کشمیریوں کی تحریک کے سفارتی محاذپرپاکستان کے حکمرانوںکسی کی خوشنودی اور رضامندی یا خفگی اور ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر راست اپروچ اور صحیح موقف اختیار کرتے رہے۔
18مارچ 2018اتوارکو بزرگ قائدسیدعلی شاہ گیلانی نے ایک بڑے اور اچانک اٹھائے گئے اقدام کے تحت اپنے دیرینہ ساتھی اور اپنے معتمدخاص محمد اشرف صحرائی کواپنی جماعت’’تحریک حریت‘‘کا قائم مقام سربراہ بنادیا ۔اس فیصلے کی مذیدتشریح کرتے ہوئے تاہم کہاگیاکہ تحریک حریت میں کمان تبدیل کرنے کے بعدبھی سیدعلی گیلانی حریت کانفرنس گیلانی کے بدستور چیئرمین رہیں گے، البتہ اشرف صحرائی تحریک حریت کے معاملات دیکھاکریں گے۔ سیدعلی گیلانی نے ایک مختصر میٹنگ بلا کر اچانک ہی جب یہ فیصلہ سنادیااورمحمداشرف صحرائی کوتحریک حریت کے معاملات دیکھنے اورانکی نگرانی کرنے کاعہدہ تھمادیاتوکشمیرکے اہل ہوش طبقے نے اس پرکہاکہ سید گیلانی نے با الآخر سلیقے سے اپنا جانشین چن ہی لیا ۔ کمان کی تبدیلی کا اعلان ایک خاص تقریب پر کیا جانے والا تھا تاہم پولیس کی طرف سے سید گیلانی کے گھر اور دفتر کو گھیر لئے جانے اور بیشتر تنظیمی اراکین کے نظربند ہونے کی وجہ سے کمان کی تبدیلی ایک سادہ تقریب میں انجام دی گئی۔

Comments are closed.