Baseerat Online News Portal

قول سدید : شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔۔ : مفتی احمد نادر القاسمی  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔۔

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

آج ہماری عادت یہ بن چکی ہے کہ اگر کوٸی ایساواقعہ ۔سماج میں رونما ہوجاۓ جسے ہم پسند نہیں کرتے تو فورا اس کی مخالفت میں ہماری اور ہمارے ہم خیال لوگوں کی طرف سے ایک شور برپا ہوجاتاہے۔۔اخبارات میں ۔سوشل میڈیا پر ۔اور گلی محلوں میں ۔ایک کانوں کان ۔ایک سلسلہ چل پڑتا ہے ۔۔مگر ہم سے کوٸی ۔اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں ہوتاکہ ۔آخر ۔یہ حادٹہ یا واقعہ ۔پیش کیوں آیا ۔۔یہ حادٹہ رونما کیوں ہوا ۔۔کہیں ہماری انفرادی یا اجتماعی کوتاہی کانتیجہ تو نہیں ہے؟مثال کے طور پر گاوں دیہات کی زندگی میں ۔کسی کے بچے سے کوٸی غلطی ہوجاۓ تو سارے لوگ اسکو یا اسکے والدین کو کوسنا شروع کردیتے ہیں ۔جہالت ۔ناخونگی ۔ماحول معاشرہ یہاں تک کہ لوگ اس کی نسل تک جا پہونچتے ہیں ۔جو بجاۓ خود ایک نازیبا حرکت ہے ۔مگر اس پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی کہ کاش اس محلہ میں ۔جس سے اس بچے کاتعلق ہے ۔وہاں کی جہالت کو دور کرنے کے لٸے ۔مسجد یا کسی دروازے پر ایک چھوٹا سامکتب قاٸم کرنے کی کوشش کرتے اورمحلے کے بچوں کو علم واخلاق کی روشنی سے روشناس کراتے ۔تو یہ شکایت نہیں ہوتی اور جہالت کا رونا نہیں روتے

گاوں محلے میں دینی رجحان پیدا کرنے اور دینی ماحول بنانے کی سعی کرتے ۔لوگوں سے دینی ہمدردی کی بنیاد پر بات کرتے ۔دینی امور سے دلچسپی کا ماحول تیار کرتے ۔وہ افراد جو مساجدسے دور ہیں ان کے گھرجاتے ۔ان کو مسجدسے جوڑنے کی کوشش کرتے ۔سنت نبویﷺکی پیروی کرتے ہوۓ باربار جاتے ۔آج گاوں دیہات کی زندگی میں لوگوں کو کوٸی اچھی رہنماٸی کرنے والانہیں ہے۔جس کی وجہ سے لوگ بڑے بڑے خسارے سے دوچارہوتے ہیں۔۔اپنے مریضوں کو غلط ڈاکٹروں کےپاس لے کرچلے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے بڑے بڑے مالی خساروں کی زد میں آجاتے ہیں ۔۔

بچوں کی تعلیم وتربیت کے لٸے لوگ پریشان ہوتے ہیں ۔صحیح رہنماٸی نہیں ہونے کی وجہ سے بچوں کو دینی مزاج کےمعیاری اسکولوں میں داخل کرنے کی بجاۓ مشن اور ڈان بوسکو جیسے اسکولوں میں بچوں کو داخل کرتے دیتے ہیں ۔اور پھر نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعد میں جب وہی بچے ۔دین سے دور ہوتے ہیں ںتو ہم لوگ بے دینی کاشکوہ کرتے پھرتے ہیں ۔۔حالانکہ اس میں قصور انکا کم اور ابتدا میں صحیح گاٸڈ نہ ملنے کا قصور زیادہ ہے ۔

ہمارے یہاں کیریٸر گاٸڈنس کا رجحان اور نظام بالکل نہیں ہے ۔جبکہ ”تواصوا بالصبر اور تواصوا بالحق کی روشنی میں اس کی تعلیم سب سے زیادہ ہمیں دی گٸی ہے ۔بلکہ ۔ہمارے دین ہی کو ۔”الدین النصیحة“ قرار دیاگیاہے ۔کہ دین نام ہی ہے خیرخوہی اور دوسروں کی بھلاٸی چاہنے کا ۔کاش ہم اس پہلوپر سنجیدگی اور گہراٸی سے غور کرتے ۔اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ۔توجہ دیتے۔۔جہاں تک کیریٸر گاٸڈنس کاتعلق ہے تو یہ زندگی کے ہرمیدان کو ٹچ کرتاہے ۔اور ماضی میں ہمارے ۔”حسبة“ ایک مستقل ڈپارٹمنٹ رہاہے ۔جو یہ ساری ذمہ داری نبھاتارہاہے۔آج ”کونسلنگ“ کا شعبہ اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے جو صرف جوڈیشیری کا حصہ ہوکررہ گیاہے۔۔بہرحال میں بات کو لمبی نہیں کرنا چاہتا ۔ہمیں صرف یہ عرض کرناہے کہ ۔ہم لوگ ۔اب ماس لیبل کے شکوہ شکایات سے دور ہوکر ۔اپنے حصہ کاکچھ کام کرنے کےعادی بنیں ۔یہ زیادہ بہتربات ہے ۔۔اور تعاون علی البر ہے جو ازروۓ شرع مطلوب ومقصود ہے۔۔اس امید پر اپنی بات ختم کرتاہوں کہ اب ہم لوگ اپنا ایساہی مزاج بنانے کی کوشش کریں گے کہ بجاۓ شکوہ وتنقید کے اپنے حصے کا کام کریں گے۔

”شکوہ ظلمت شب سے تویہی بہترہے

اپنے حصے کا دیا ہم بھی جلاتے جاٸیں۔“

Comments are closed.