Baseerat Online News Portal

قیادت ، میڈیا اور مسلمان! مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قیادت ، میڈیا اور مسلمان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
اس وقت قیادت کو مثبت خطوط پر سر گرم عمل ہونے ، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو صحافت کے دائرے سے باہر نکلنے اور مسلمانوں کو اپنے قائدکے حکم پر آنکھ بند کرکے سمعنا واطعنا کہنے کی ضرورت ہے، اللہ کا کرم ہے کہ اس نے امارت شرعیہ کے امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی کی صورت میں مضبوط قائد ہمیں دیا ہے، جن کے پاس کام کا طویل تجربہ بھی ہے، اور جو سرد وگرم چشیدہ بھی ہیں، ملی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ، سیاسی حضرات سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا فن، انہیں پورے طور پر آتا ہے، ان کے اندر عظمت کردار بھی ہے جرأت گفتار بھی ، سنگلاح اور پریشان راستے ان کے عزم کو مہمیز کرتے ہیں، وہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنا کرتے، اللہ رب العزت نے ا نہیں نگہ بلند ، سخن دل نواز اور جاں پرسوز کی قائدانہ صفات کے ساتھ نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو کے مؤمنانہ اوصاف سے بھی مالامال کیا ہے، ایسے قائد کی امارت میں امارت شرعیہ کا کارواں آگے بڑھ رہا ہے اور وہ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی حیثیت سے بھی’’ دین اور دستور بچاؤ مہم ‘‘کو آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی نگاہیںنبض حالات پر ہیں اور نباضی کا فن انہوں نے اپنے بڑوں کے ساتھ کام کرکے سیکھا ہے، اس طرح دیکھیں تو قیادت زر خیز ہے، با رآور ہے اور کارواں کو منزل تک پہونچا نے کے جذبے اور لگن سے سرشار ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرائع ابلاغ، الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور سوشل سائٹس قائد کی جد وجہد کو ، ان کے منصوبوں کو، کام کی حکمت عملی کو ، ان کے احکام وہدایات کو عام مسلمانوں تک پہونچائے ، وہ غیر جانب دار نہیں، حق کا طرف دار بن کر سامنے آئے، صحافت جو جمہوریت کا بڑا ستون ہے اس کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ وہ خبروں کو چھاپ دے، اس کی ذمہ داری ہے کہ جو صالح اقدار ہیں، ملک کے دستورکا جو تقاضہ ہے دین وشریعت جس کا مطالبہ کرتا ہے اس کو بغیر کسی خوف کے سماج کے سامنے لائے، عوام کو بیدارکرے ، انسانوں کو اس کی ذمہ داری یاد دلائے، مذہب کی بنیاد پر نہ سہی ، انسانی بنیادوں پر ہی وہ اچھا سماج بنانے کی سعی میں ہاتھ بٹائے، معاشرہ کو صالح رخ پر ڈالنے کا کام انجام دے ، میڈیا کو زرد صحافت اور بکاؤ صحافت سے باہر نکل کر اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لیے کمرہ بستہ رہنا چاہیے، ایک عاشق نے اپنی محبوبہ کی نازک خرامی اور رقیبوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’’ زیر قدمت ہزا ر جان است‘‘ آج جو میڈیا کی اہمیت ہے، ذرائع ابلاغ کے جو اثرات ہیں، سوشل سائٹس کا جو بڑھتا ہوا دائرہ کار ہے، اس کی روشنی میں ’’قدمت‘‘ کے ’’دال‘‘ کو ’’لام‘‘ سے بدل دیجئے اور صحافیوں کو بتا دیجئے کہ ’’زیر قلمت ہزار جان است‘‘ تمہارے قلم کے نیچے ہزاروں جان کا مسئلہ ہے، تم نے بھڑکاؤ مضامین اور رذائل کو پھیلانے والے آرٹیکل تبصرے شائع کیے تو ہزاروں کی جان جائے گی، اس لیے قلم کو محتاط رکھیے اور اس کا استعمال اللہ کی امانت سمجھ کر کیجئے۔
قیادت نے اپنی ذمہ داری ادا کردی ، میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے قیادت کے منصوبوں کو عام لوگوں تک اور مسلمانوں تک پہونچا دیا ، اب مسلمان سن کر حرکت میں نہ آئے، اس کے اندر عمل کا جذبہ نہ پیدا ہو ، وہ سمع وطاعت سے گریز اں رہے، مختلف خیموں میںبٹ کر اپنے تحفظات کی فکر میں لگا رہے، وہ بنی اسرائیل کی طرح ’’ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلا‘‘ کہہ کر اپنی جان چھڑا لے تو قیادت کا کیا قصور ہے۔آج مسلم سماج کا سب سے بڑ ا مسئلہ یہی ہے کہ اس کے اندر سمع وطاعت کی کمی ہے ، فقدان قیادت کا نہیں، قائد کی ہدایت پر عمل کرنے اور ساتھ چلنے کا ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیادت کی روح کو رواں ہونے کے لیے جسم کے سمع وطاعت کی ضرورت ہے ،قیادت کا ساتھ نہ دینے والا سماج بے روح کے جسم کی طرح ہے، جسے قبرستان پہونچانے میں جلدی کیا جاتا ہے۔

Comments are closed.