Baseerat Online News Portal

قیامت در قیامت!رنج کے پودے غم کی فصلیں

ش م احمد
7006883587
غالب ؔ نے دنیا کو بازیچہ ٔ اطفال کہا تھا، حالانکہ اس نے اپنے
شب وروز میں بچوں کے تماشہ بنتے بگڑتے نہیں دیکھے بلکہ اپنے دور میں زوال آمادہ مسلم تہذیب کے آخری ایام ، مغل سلطنت وسطوت کا خاتمہ ، فرنگ کی مردم آزاریاں اور آقائیت کے تماشے بہ چشم ِعبرت دیکھ کر ان پر چوٹ کی تھی ۔ آج ہم جن صدمہ خیز حالات وکوائف سے گزررہے ہیں ،اگر خدائے سخن غالبؔ زندہ ہوتے تو زوالِ
ِانسانیت کے عصری وقائع پر اپنی اشک باریاں اور سینہ کوبیاں اُسے قطعی طور بچوں کا کھیل نظر نہ آتیںکیونکہ آج ہندوستان کی تصویر اپنے ناقابل ِبرداشت حالات اورواقعات کی رنگ آمیزیوں سے اُنیسویں صدی کے ہندوستان سے کروڑوں گنا بدتر دِکھ رہی ہے ۔ آج یہاں کوئی ایک تماشہ ہوتا تو بس اُچکتی نگاہ اس پر ڈال کر آگے بڑھتے مگر حال یہ ہے کہ یہاں انسانیت پرپے بہ پے قیامتیں نازل ہورہی ہیں۔ ان سے پورا ملک ایک ایسافسانہ ٔ عجائب بن چکا ہے جس کے گردش ِ لیل ونہار کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، ا س پل سفید،اگلے پل سیاہ ۔
اسی بیچ آج ہم کورونا کی وہ قہرمانیاں دیکھ رہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بطن ِ گیتی سے اب ہمیں فصل ِ بہاراں کی کوئی اُمید نہیںکرنی چاہیے بلکہ اب ہماری سرزمین سے مسلسل تاسف آمیز خبریں، پریشان کن المیے، غم ناک واقعات، درد بھرے حادثات کی فصلیں ہی اُگ آ ئیں گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس جانب خال خال بھی توجہ جانب مبذول نہیں کر تے کیونکہ ؎
میں ہوں مشینی دور کا مصروف آدمی
خود سے بھی بات کر نے کی فرصت نہیں مجھے
کرونا کی عالمی وبا ’’ صاعقہ بلائے آسما نی بر زمینیاں نازل شد‘‘ کا استعارہ ہے جس کے زیرسایہ سب لوگ ایک پژ مردہ زندگی گزار رہے ہیں، فکریں اورپریشانیاں خلقت ِ خدا کے تعاقب میں ہیں، رنج وغم کی پرچھائیاں ہر بستی ہر فرد کا مقدرہوچکی ہیں۔ بایں ہمہ بہ حیثیت انسان جب ہم اپنے حصارِ ذات سے اوپر کر اُٹھ کرگردوپیش دیکھتے ہیں تو بے کیف زندگی کے بہاؤ میں وقوع پذیرجگرسوز واقعات کو معمولات کی موجیں نہیں کہہ سکتے اور نہ دل دہلانے والے حالات کو زندگی کا روزنامچہ سمجھ کر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ہاں ‘ اگر ہمارے ساتھ معاملہ اس کے اُلٹ ہو تو سمجھ لیجئے شاید حکمران ٹولے کی طرح بے ضمیری، سنگ دلی اور کور چشمی کا لا علاج کرونائی روگ ہمیں بھی لگا ہے ۔ بھلے ہی ان کریہہ المنظر حالات و واقعات کومیڈیا میں کوریج نہ ملتی ہو، یا زیادہ سے زیادہ دو لفظوں کی کہانی بناکر انہیںحاشیئے پر پھینکاجا رہاہو ، تو بھی ا س کا یہ مطلب نہیںکہ ہم اس مغالطے میں رہیں کہ ایسی تند وتلخ خبروں کے متاثرین یا انسان دوست لوگوں کے لئے یہ آنسوؤں کا طوفان نہیںلاتے ، آہوں سسکیوں کی آندھی کا سبب نہیںبنتے ، نوحہ خوانی کا موجب نہیں ہوتے ۔ اس کالم میںکچھ ایسی ہی چند’’ غیراہم‘‘ خبر وں نے آج میرے ٹوٹے پھوٹے قلم کو اظہار کی زبان عطا کی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک بہت ہی مایوس کن خبرپالگرمہاراشٹر میں وقوع پذیر
ہوئی۔ بتایا جاتاہے کہ پسماندہ قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والی منگلا نامی ایک پنتالیس سالہ خاتون نے خودکشی کر لی۔ یہ انتہائی قدم منگلا نے کیوں اُٹھایا، ا س بابت پولیس کہتی ہے کہ زیادہ غربت ، مالی دشواریاں ، بے روزگاری کے کچوکے منگلا کے افسوس ناک خاتمے کا سبب بن گئے ۔ بچاری کا غریب ولاچار مزدور خاوند دلیپ بے ہنگم لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے تنگ دستی ، محتاجی اور بھکمری سے دوچار تھا ، یہ ناقابل ِبرداشت سنکٹ منگلا کے لئے اتنا جان لیواثابت ہوا کہ اس نے اپنی زندگی لینے کو درد کا در ماںسمجھا۔ اس نے خود کشی کر نے کے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے اپنے مامتا بھرے دل سے پیار اور ترحم کے جذبات کھرچ ڈالے ، پھر اپنے ہاتھوں میں اتنی پتھر دلا نہ قوت
بھردی کہ اپنی لاڈلی بیٹی کا گلا دبا سکے، اگلا قدم اُٹھاتے ہوئے اپنی
ساڑھی کو پھندا بناکر دنیا سے ہمیشہ کی چھٹی لی۔ منگلا نقالی کی گلیمر س دنیا میں رہنے والی کوئی فلمی ہستی نہ تھی کہ شائقین اس کی خودکشی پر زاروقطار روتے ، حتیٰ کہ پار سے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز بھی اپنی قوم کے غم وہم اور احتساب وعدالت کی پیشیاں بھلا کر فلمی ستارے کی خود کشی پر غم واندوہ کا غبار دل سے ہلکا کر نے میں پیش پیش ہوتیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مودی جی نے بھی فلمی اداکار کی
قابل صد تاسف خود کشی پر ٹویٹ کر کے تعزیت پرسی میں چند ثانیوں کی بھی تاخیر نہ کی، حالانکہ گلوان وادی میں چینی فوج کے ہاتھوں ہلاک شدہ فوجی جوانوں کو شردھا نجلی دینے کے لئے دو دن کی دیر گوارہ کی۔ یہ کہنے کی کوئی بات نہیں کہ غربت وافلاس کی ماری اور بھکمری کی شکار منگلا اتنی خوش نصیب نہ تھی کہ اُس کی آتم ہتھیا حاکمانِ باکمال ،فلمی دنیا، عوام الناس، سیاسی گلیاروں اور فن و ادب کے پر ستاروں کو آنسوؤں کے سیلاب میں ڈبو دے ۔ ایسی کہانیاں دیش میں روز بنتی ہیں، ان کاکوئی پُرسان حال نہیں ہوتا ۔ پھر بھی حاکمان ِ وقت سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر کورونا کی لپیٹ میں آئے لوگوں کی امداد و راحت کے لئے بیس لاکھ کروڑ روپے کی خطیر رقم کا اعلان ایک حقیقی ریلیف پیکج ہے ؟ اگرپردھان منتری غریب کلیان ا َن یوجنا کسی طلسماتی دنیا کی بات نہیں؟ اگر غریبوں کو اناج، دا ل آٹا اور اب چنے کی مفت فراہمی کوئی ہوا ہوائی بات نہیں؟ تو ایک غریب مزدور گھرانے کی بھکمری کا یہ ڈراب سین اور یہ دُکھ بھری بپتا چہ مطلب دارد؟ کیا منگلا کا انتہائی اقدام سرکاری اعلانات کو صاف لفظوںمیں نہیں جھٹلاتا ؟ اور کیا یہ خود کشی انسانیت کے لئے ایک قیامت ِصغریٰ نہیں کہ جس پر لوگ ہزار بار روئیں تو بھی کم ہوگا؟
ایسا ہی ایک اور دلدوزواقعہ دلی یونیورسٹی کے عربی مدرس پروفیسر ولی ا ختر صاحب کی افسوس ناک موت کا واقعہ ہے ۔ موت کی یہ خبر
۱۱/ جون کے دلی کے بعض اخبارات کے سٹی پیجز میں یک کالمی خبر بن کر شائع ہوئی کہ ایک نامی گرامی عربی اسکالر پروفیسرمرحوم ۲/ جون کو اچانک سینے میں درد کی شکایت کرتے ہیں ، ان کے لئے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے ، گھروالوں کو ان میں کووڈ۔ ۱۹ جیسی علامات نمودار
دِ کھتی ہیں ، گھبراہٹ کے عالم میں وہ پروفیسر صاحب کو لے کر دلی اور نوئیڈا کے ہسپتالوںکا رُخ کر تے ہیں تاکہ موصوف کا شدید تکلیف سے افاقہ ہو ۔ یہاں خلاف ِ توقع پروفیسر صاحب ایک عجیب وغریب کہانی کا کردار بن جاتے ہیں ۔ گھروالے درد سے کراہتے ہوئے مریض کوجس کسی نجی ہسپتال کی چوکھٹ پرلاتے ہیں، وہاں پروفیسر صاحب کوداخلہ تو دور اندر لانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ۔ دلی کے چھ بڑے شفاخانوں ۔۔۔ فورٹس ، بنسل ، مُول چند ، ہولی فیملی ہسپتال دلی ، کیلاش ہسپتال نوئیڈا۔۔۔ کی دہلیز سے وہ بے نیل ومرام واپس لوٹائے جا تے ہیں ۔ پروفیسر صاحب کے پریشاں حال اہل ِ خانہ کی تمام کاوشیں اور حجتیں اکارت جاتی ہیں ۔ مرحوم کے بھائی علی اختر کے الفاظ میں باوجود یکہ میرے بھائی جان درد سے تڑپتے رہے ، ایک بھی ہسپتال میں انہیں ایڈمٹ نہیں کیا جاتا،نہ جنوبی دلی کی کسی لیبارٹری نے ان کا کووڈ ۔ ۱۹ ٹیسٹ کر نا مانا جاتاہے ۔ بالآخر ولی اختر صاحب کو جامعہ نگر کے نجی’’ الشفا ہسپتال ‘‘میں داخلہ دیاجاتاہے،یہاں ابھی ان کے مرض کی حتمی تشخیص کے لئے کورونا ٹیسٹ شروع ہی ہوا چاہتا ہے کہ پروفیسر صاحب کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا دلی کے بڑے ہسپتالوں میں ہنگامی حالات میں بھی درد سے جھوج رہے ایک مریض کے علاج سے انکار کرنا پیشہ ٔ طب سے ناانصافی نہیں؟ کیا یہ انسانیت کے گال پر زناٹے دار طمانچہ نہیں ؟ کیا یہ ہمارے طبی نظم ونسق کے ا نہدام کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟ اس دُکھ بھرے سانحہ پر دلی یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر آدتیہ نارائن مشرا نے اپنے ردعمل میں نجی ہسپتالوں کو آڑے ہاتھوں ضرور لیا مگر جہاں انسانیت مر گئی ہو ، جہاں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہ رہی ہو ، جہاں شفاخانوں میں بھی اب مذہبی بنیادوں پر مریضوں کے درمیان اسی طرح تفریق کی جاتی ہو جیسے سنہ سنتالیس میں ریلوے اسٹیشنوں پر ’’ہندوپانی مسلم پانی‘‘ کے دوالگ الگ مٹکے انسانیت کا مذاق اُڑا تے رہے، وہاں کسی تیز طرار کاغذی بیان سے کون سابھونچال آتا ہے؟ جہاں بے درد حاکم ہوں وہاں فریاد کیا کرنا۔
ہسپتال مالکان، طبی اور نیم طبی عملہ کا یہ قابل ِ دست اندازیٔ قانون رویہ آج ہمیں کہاں کہاںنظر نہیں آتا ؟ آج کی تاریخ میںتند وتلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک معمولی سے استثنیٰ کو چھوڑ کر کئی ڈاکٹر صاحبان اور میڈیکل سٹاف کووڈ۔ ۱۹ سے بدون مریضوں سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے مریض اُن کے لئے پیک ِ اجل ہوں، یہاں تک کہ بے یارویاور مریضوں کو درد وکرب میں دیکھ کر بھی اُن کی رگ ِ حمیت نہیں پھڑکتی ۔ اس انہونی روش کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہماری نگاہوں کے سامنے بنتی ہیں اور یہ سب کچھ دن دھاڑے ہورہاہے ۔ کیا یہ انسانیت کی بے دردانہ موت نہیں ؟
ایک اور پہلو سے انسانیت کی بے کفن لاش ہماری دیدہ ٔ عبرت نگاہ کو اپنی جانب متوجہ کر تی ہے ۔ کووڈ۔ ۱۹ سے مر ے اکثر مریض اتنے کم نصیب ہوتے ہیں کہ بساواقات اُن کی میت ان کے اپنے عزیز واقارب بھی بادل نخواستہ ہی آخری رسومات کے لئے ہسپتالوں سے گھر لے جاتے ہیں، کہیوں کو تو بعد از مرگ اپنوں کا کندھا نصیب ہوتاہے نہ عزت واحترام ۔ سری نگر کے سول لائنز میں سال ہاسال کام کر نے و الے کولکتہ کے رہنے والے ایک ٹیلر ماسٹر کی کووڈ۔ ۱۹موت ہسپتال میں واقع ہوئی ، افسوس صد افسوس متوفیٰ کو مقامی قبرستان میں دفنانے پر کوئی تیار نہ ہوا۔ جب ایک مقامی رضاکار تنظیم ’’ہیلپ پور‘‘ نے میت کو سپرد خاک کر نے کی ہمت جٹائی تو قبرستان سے ملحقہ بستی نے اس پرکافی شور ہنگامہ کیا ۔ یہ تو بھلا ہو این جی او کے نرم مزاج منتظم اور انسانی جذبات سے معمور اُن کے مٹھی بھر ساتھیوںکا جنہوںنے بڑی دانائی سے ایک پردیسی مہمان کو دائمی خاکدان میں پہنچانے میںکامیابی حاصل کر لی۔ اسی طرح کی ہوبہو ایک اور کہانی سری نگر میں رہنے والے ایک سابق انجینئر کی بنگلورمیں بنی ۔ ان کا فرزند بنگلور میں ملازمت کرتاہے،انجینئر صاحب پانچ چھ سال سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر میں کڑاکے کی سردیاں ٹالنے کے لئے بنگلور اپنے بیٹے کے پاس جاتے ہیں، دوچار ماہ وہاں گزار کر پھر وادی ٔ کشمیر لوٹتے ہیں۔ اس بار انجنیئرصاحب کشمیر لوٹ ہی نہ سکے کیونکہ ان کی شریک ِحیات کا کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب بنگلور کے ایک ہسپتال میں علاج معالجہ چل رہاتھا ۔ یہ سلسلہ مہینوں کی طوالت کھینچ کر موصوف کو چالیس لاکھ روپے خرچہ کے بھاری بوجھ تلے بھی دبا گیا ۔ اتنی خطیر رقم جمع کر نے کیلئے انجنئیر صاحب کو سری نگر میں اپنا گھر بار تک نیلام کرناپڑا، پھر بھی کردہ ٔ الہٰی سے مریضہ ہسپتال میں دم توڑگئیں۔اب مسئلہ لاک ڈاؤن کا تھا، اس وجہ سے میت کا سری نگر پہنچا یا جانا بعید ازامکان تھا ،لہٰذا میت کی تجہیز وتکفین کے لئے مقامی مسلم قبرستان والوں سے بحالت ِمجبوری رابطہ کیا گیا ، انہوں نے بہانے کر کرکے تدفین کی اجازت دینے سے صاف انکار کیا ۔ اندازہ کیجئے کہ سری نگر کا ایک رہائشی بنگلور میں پریشانیوں کے بھنور میں ہچکولے کھا رہا ہو اور کوئی ہم مذہب بھائی جذبہ ٔ اخوت ومروت کا مظاہرہ کر نے پر تیار نہ ہو ، ا س طرزعمل سے سوگواروں کے دل پر کس کس طرح سے چھریاں پیوست ہورہی ہوں گی۔۔۔ مگر شکر ہے کہ اوقاف اسلامی بنگلورنے اپنی کسی مسجد سے ملحق اپنے مقبرے میں مرحومہ کی تدفین کی اجازت دے دی۔ یوں اللہ نے یہ گتھی اپنے نیک بندوں کے ذریعے سلجھا تودی مگر کیایہ ہمارے لئے عبرت آموز سانحہ نہیں؟
ایسے درد انگیزواقعات ہماری پوری حزنیہ کہانی کا احاطہ کر تے ہیں یا نہیں،اس سے قطع نظر یہ اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ کووڈ۔ ۱۹ کے چلتے انسانیت اور زیادہ مر گئی ہے، آدمیت نام کی کو ئی چیز کہیں موجود نہیں ، آپا دھاپی کا راج تاج ہے ، نفسانفسی کا عالم ہے ۔ ہم سب پرمحشر کی یہ غم ناک گھڑیاں سایہ فگن ہیں جن کے درمیان ہم خواہی نہ خواہی جئے جا رہے ہیں مگر یہ بھی کوئی جینا ہوا؟؟؟

Comments are closed.