Baseerat Online News Portal

لاکھوں بھارتی شہریوں کوکشمیرکاڈومسائل اجرا

عبدالرافع رسول
اسلامیان کشمیر کی جدوجہدمیں فنی ،فکری اوراجزائی کمزوریاں ضرورموجودہیں لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے پیدائشی حق کا مطالبہ ترک کرکے بھارت کے سامنے سپراندازاورسرینڈرہوئے ۔بھارت کے سفاکانہ اورقاتلانہ حربوں نے اسلامیان کشمیرکے کشت یقین کوخودآباداورشاد بادرکھااوروہ ان کے لہومیں چنگاریاں سلگارہاہے۔اس امرمیں کوئی ابہام نہیں ہوناچاہے کہ بھارت کے بے محاباطاقت کے استعمال سے کشمیرکے موج خون کے لگاتار رواں ہے اوروہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا۔اس خوفناک صورتحال کے پیش نظر ملت اسلامیہ کشمیرکی آنکھوں میںسفاک بھارت کے خلاف نفرت کے دہکتے انگارے پائے جارہے ہیں۔وہ چشم گریہ اورقاش قش دل کے ساتھ اپنے پیاروں یہ عہددہرکے رخصت کررہے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں سفاک بھارت کی بالادستی قبول قطعاََنہیںکریں گے ۔ کشمیرمیںبھارت کے بے شمار عفونت زدہ اقدام میں سے ایک یہ کہ لاکھوں کی تعدادمیںبھارتی باشندوں کوجموں وکشمیرکاشہری بنانے کے لئے انہیں ڈومسائل سرٹیفیکیٹ اجراکیاجارہاہے ۔برہمنی شاطرانہ ذہن کے تیارکردہ شرمناک منصوبے پریہ جابرانہ عمل بالفعل اوربالعمل نہایت خاموشی کے ساتھ شدومدسے جاری ہے ۔معتبررپورٹس کے مطابق جموں کے تمام ہندوتحصیلداروں کی جانب سے گذشتہ کئی ہفتوں سے لاکھوں بھارتی ہندوئوںکوکشمیرکاڈومسائل سرٹیفیکیٹ اجراکیاجاچکااورلاکھوں امیدواراس سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لئے قطاراندرقطار منتظرہیں۔
لیکن اس دوران 25جون جمعرات کواچانک ایک ڈومسائل سرٹیفیکیٹ کاعکس سوشل میڈیاپروائرل ہواجوبھارتی ریاست بہارسے تعلق رکھنے والے ریاست جموںوکشمیرمیں تعینات ایک سول سرئونٹ نوین کمارچودھری کواجراکردیاگیاہے ۔اجراکردہ اس ڈومسائل کی تصویرسوشل میڈٖیاکے ذریعے جب آشکارہوئی اوراگلے روزاس کاعکس سری نگرکے اخبارات میں بھی چھپ گیا۔کشمیرسے 2041کلومیٹر دورانڈیاکی ریاست بہارمیں پیداہونے والا،وہیں پلاپڑھنے والا،وہیںسے تعلیم پانے والااوروہیں سرکاری نوکری میں بھرتی ہونے والاسینئر آئی اے ایس افسر نوین کمار چودھری کو 15سال قبل کشمیرمیں سیکریٹری لیول کی نوکری دی گئی اوراب اس بیوروکریٹ کوبیوروکیسی کا بھرپورصلہ دیاگیااور اسے ریاست جموں وکشمیر کا مستقل رہائشی بنادیاگیا۔نوین کمار چودھری کو ڈومیسائل سرٹیفکٹ جموں کے گاندھی نگر کے تحصیلدار نے جاری کیا ہے۔نویدکمارچودھری اس وقت جموںوکشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ میں محکمہ زراعت اور باغبانی کے پرنسپل سکریٹری کے عہدے پر تعینات ہیں۔
عجب بھارت کایہ غضب ماجرا دیکھ کراسلامیان کے پائوں تلے زمین کھسک گئی اوروہ اس ظلم عظیم کے خلاف صف بندی توکررہے ہیںلیکن افسوس یہ ہے کہ اس ساری صورتحال پرعالمی ادارہ اقوام متحدہ جواہل کشمیرکواستصواب دینے کاضامن ہے منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھا ہے اوراس نے چپ کا روزہ رکھاہے۔ حالانکہ بھارت کا یہ سامراجی اقدام سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون بشمول چوتھے جینوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ افوس یہ ہے کہ 5اگست 2019کے بھارتی حکومت نے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکرکشمیرپر جوسامراجی اقدام اٹھائے جس پس پردہ مکروہ عزائم اورناپاک مقاصد کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اسلامیان کشمیر کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں بدلنااوراپنے آبائی گھروں سے بے دخل کرنا ہے اس وقت بھی اقوام متحدہ چندبیان دینے کے علاوہ عملی طورپربھارت پرکوئی دبائوبڑھانہیں سکا ۔واضح رہے کہ خدانہ کرے کہبھارت کواپنے ابلیسی منصوبوں کی عمل آوری میں کوئی کامیابی حاصل ہولیکن اگراسے کل کلاں اس حوالے سے کوئی اطمینان حاصل کرلیا دکھائی دے اوراسے سرزمین کشمیرپرمسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کایقین ہوگیاتووہ اعلاناََاقوام متحدہ کویہ دعوت دے گا کہ اگروہ چاہتاہے کہ وہ کشمیرمیں استصواب کرائے تووہ آئے اوراپناشوق پوراکرے مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں۔اسے استصواب کے اپنے حق میں نتائج برآمدہونے کایقین ہوگاکیونکہ اس نے تب تک اس ایشوپر پوری طرح کام کیاہوگا۔
کشمیرکی سرزمین پریہود و ہنود گٹھ کامتعفن جوڑ کوئی ڈھکی چھپی نہیں بات نہیں۔میڈیاپرکئی مرتبہ اس بات کواجاگرکیاگیاہے کہ قابض بھارتی فوج کے ساتھ ارض کشمیرپراسرائیلی کمانڈوزبھی دیکھے گئے ہیں جوکشمیری مسلمانوں کے قتل عام کرتے وقت ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔سفاک اسرائیل نے جس طرح اسلامیان فلسطین پرستم ڈھائے ،یہودوہنودکے ناپاک گٹھ جوڑ کے تحت بھارت بھی اسی طرح ملت اسلامیہ کشمیرپرستم ڈھاتاچلاآرہاہے ۔اسلامیان کشمیرپرجبروتعذیب کے جتنے بھی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں اورجس قسم کے آتشیں اسلحہ سے انکی نسل کشی کی جارہی ہے سب اسرائیل طرزپرہورہا ہے اورسرزمین کشمیرپرمسلمانان کشمیرکواقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے اب جس مسموم حربے پرکام جاری ہے یہ توپوری طرح اسرائیل سے درآمدشدہ ہے اوربھارت اوراسرائیل کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کے مشترکہ ناپاک منصوبے پر کام کرر ہے ہیں۔اس تعفن زدہ گٹھ جوڑ کاہی نتیجہ ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر اورجموں کے مسلمان اکثریتی علاقوں میںاسرائیلی ماڈل کوروبہ عمل لاکرنے فلسطینیوں کی طرح اسلامیان کشمیر کواپنے دیس اوراپنے گھروں سے بے دخل کیاجائے گا۔
واضح رہے کہ بدھ یکم اپریل 2020 کی صبح بھارتی وزرات داخلہ سے ایک اعلامیہ جاری کیاجس کے مطابق اب کشمیر میں’’ ڈومیسائل ‘‘ اقامتی قانون میںترمیم کے ساتھ شہریت کا نیا قانون نافذ کردیاگیااور اس نئے ڈومسائل سرٹیفیکیٹ کی رو سے لاکھوں غیر ریاستی یعنی ہندوستانی باشندوں کوارض کشمیرپربسانے کا راستہ ہموارکیاگیاہے اورکٹھ پتلی سرکارکے محکمہ جات میں اعلیٰ اورگیزیٹِڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے ہندو امیدوار کے اہل ہوں گے۔ چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک، پولیس کانسٹیبل وغیرہ چوتھے درجے کی نوکریاں کشمیری مسلمانوں کے لیے مختص کردیں گئیں ۔اس طرح مودی نے کشمیرپر ایک ایسے شرمناک منصوبہ کولاگوکردیا کہ جس کے تحت ایک کروڑ سے زائدریاست جموںو کشمیرکے مسلمانوں کی مسلم شناخت،عزت وناموس خطرے میں پڑگئی اورنیا ڈومسائل سرٹیفیکیٹ اجراکرکے انکے تمام جانی ومالی اورمذہبی حقوق سمندر بردکردیئے گئے اب اس دنیا انکی کوئی شناخت،کوئی عزت اورکوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
بھارت نے کشمیرکی ڈومسائل میں جوتبدیلی کی اورجونیاڈومسائل اجراکردیااس کے مطابق اب کوئی بھی بھارتی شہری جو 15سال سے مقبوضہ کشمیر میں قیام پذیر ہو یا سات سال سے مقبوضہ کشمیر میں پڑھائی کررہا ہو اور اپنی تعلیم کے دوران میٹرک اور انٹر وہیں سے پاس کیا ہو تو وہ کشمیرکاڈومیسائل لے سکتاہے،اسی طرح جو تارکین وطن کشمیرکے (Relief and Rehabilitation)کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہونگے وہ بھی کشمیرکا ڈومیسائل لے سکیں گے جبکہ کشمیرمیںبھارت کے سرکاری محکموںجنہیں’’فیڈرل ڈیپارٹمنٹس ‘‘کانام دیاگیاہے میں کام کرنے والے اہلکار جن میں فیڈرل گورنمنٹ، آل انڈیا سروسز افسران، سرکاری افسران و اہلکاران،بھارت کے سرکاری بینک،بھارت کی سرکاری یونیورسٹیز سمیت دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اہلکار جو عرصہ 10سال سے مقبوضہ جموں کشمیر میں موجود ہوں وہ بھی ریاست جموںوکشمیرکا ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے،اس کے علاوہ ایسے افراد جو مقبوضہ جموں کشمیر سے باہر کہیں ملازمت کررہے ہوں یا تعلیم حاصل کررہے ہوں مگر ان کے والدین درج بالا طریقہ کارپرپورا،اترتے ہوںیعنی دس سال سے کشمیرمیں موجودہوں پر وہ بھی مقبوضہ جموں کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے ۔اب ان 5 لاکھ بھارتی ہندو نائیوں،موچیوں ،مستریوں ،خاکروبوں،اینٹ سازوں اورمزدوروںکی شکل میںگذشتہ کئی برسوںسے کشمیرمیں کام کررہے ہیںکوبھی کشمیرکاڈومسائل دیاجائے گا۔
کشمیرسے متعلق نئے ’’ڈومسائل‘‘ شناخت شہریت سے سب سے زیادہ فائدہ ان لاکھوں بھارتی ہندو فوجیوں کوپہنچایاگیااوراس نئے ڈومسائل کے تحت انہیںسرزمین کشمیرمیں مستقل طورپربسایاجائے گاکہ جنہوں نے گذشتہ 30برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوںکوموت کے گھاٹ اتارا۔نئے ڈومسائل کے اجراکے تحت قابض اورسفاک بھارتی فوج کشمیر اب کشمیرکے مستقل باشندے ہونگے اور انہیں یہاں ووٹ دینے اور جائیداد خریدنے اوراسکی ملکیت کا حق حاصل ہوگا۔
حالانکہ ریاست جموں وکشمیرمیں1927سے یکم اپریل 2020تک کشمیریوں کے پاس جوڈومسائل تھاوہ غیرکشمیریوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘کو کشمیرکی شہریت حاصل کرنے ،کشمیر میں مستقل رہائش اختیارکرنے، جائیداد خریدنے، نوکریاں حاصل کرنے سے روک رہاتھا۔اس ڈومسائل کے اجراکااپناایک پس منظرتھاجوتقسیم ہندسے قبل سے جاری تھااوروہ یہ کہ برٹش انڈیا میںریاست جموںو کشمیر پر جموں کے ایک ہندوڈوگرہ خاندان کی حکومت تھی جنہیںمہاراجوں کے نام سے پکاراجاتاتھااوراس خاندان کی حکومت ریاست جموں وکشمیرمیںمہاراجہ حکومت کہلاتی تھی۔چنانچہ ڈوگرہ راج میںکئی وجوہات کی بنیادپر جن میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ کرہ ارض پرموجود ہرلحاظ سے کشمیرکے انتہائی خوبصورت علاقے کی طرف پنجاب اور دوسری شمالی ریاستوں سے جو لوگ رخ کیاکرتے تھے توانہیںریاست جموںوکشمیر میں مستقل آباد ہونے اوریہاں کی سرکاری نوکریوں پرقبضہ جمانے سے روکنے کے لئے 1927میں مہاراجہ ہری سنگھ کی مطلق العنان حکومت نے ریاست جموں کشمیر شہریت قانون پاس کر دیا جس کی رو سے کوئی بھی غیر کشمیری یہاں جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا اور نہ سرکاری نوکری حاصل کرسکتا ہے ۔
1947میں ریاست جموں وکشمیرپربھارت کاجابرانہ قبضہ اورجارحانہ تسلط ہوا تواس کے باوجودڈوگرہ شاہی کایہ قانون شہریت دفعہ 370کی ذیلی شق35Aکے تحت برقراررہالیکن بھارت کے ہندئووں کواسے بڑی چبھن ہورہی تھی اوروہ ان دفعات کاہرصورت میں خاتمہ چاہتے تھے۔بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیںکانگریس اوربی جے پی اسے ہضم کرنے کے لئے تیارنہیں تھیںاورکانگریس درپردہ مگربی جے پی کھلم کھلاکشمیریوں کے شہری سٹیٹس کے خلاف برسر جنگ تھیں۔
5اگست2019کے اقدام کے بعد نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کی شناخت اور ان کی ’’ڈیموگرافی ‘‘کے خاتمہ پر کمربستہ ہوکرناپاک منصوبے سازی کرتی رہی جن میں پہلاگھنائونامنصوبہ ڈومسائل کی تبدیلی ہے ۔ 5اگست 2019کے بعدمودی موقع کی تاک میں تھااوریکم اپریل 2020بدھ کوایسے وقت جبکہ پوری دنیاکے ساتھ اہل کشمیربھی کروناوائرس سے جنگ لڑرہے تھے۔ پوری دنیاکروناوائرس کی مصیبت میں پھنس چکی تھی مودی وائرس نے نئے ڈومسائل کے ذریعے کشمیرپریہ سمجھتے ہوئے حملہ کردیا اس وقت کشمیرمیں اس کے خلاف کوئی ہمہ گیر سطح کا رد عمل سامنے آئے گااورنہ کوئی صدا بلندہوگی جسے دنیانئے ڈومسائل کے اجراپرکشمیریوں کی تائیدسکوتی سے تعبیرکرے گی۔ جبکہ دنیامیں کروناکی وباسے اس وقت کوئی اس پوزیشن میں نہیںکہ اپناغم چھوڑکر کشمیریوں کی حمایت میں کھڑاہوجائے گا۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ،کوئی یورپی یونین ،کوئی پاکستان،کوئی ترکی ،کوئی ملیشیابول نہیں سکے گااورنہ ہی کوئی زودار آوازبلندہوسکے گی ۔واضح رہے کہ5اگست 2019میں اٹھائے گئے اقدام کے ساتھ ہی وادی کشمیرکا لاک ڈائون کرکے ہزاروں کشمیری مسلمانوں جن میں سینکڑوں سرکردہ سماجی شخصیات اور بزرگ عمرکے لوگوںکو گرفتارکیا گیا۔سیاسی اجتماعات، تقاریر اور انٹرنیٹ پر سخت قدغن لگائی گئی اوراس طرح ایک بارپھرکشمیراوریہاں کے باسیوںکے جاری گھیرائوکومذیدتنگ کیاگیااورشکنجے کومذیدسخت کیاگیا۔

Comments are closed.