Baseerat Online News Portal

لاک ڈاؤن اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کرام”

 

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام،کنڈہ، پرتاپ گڑھ

مشہور عالم دین اور فقیہ ،سابق ناظم دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ مولانا محمد تقی امینی رح (پ ۱۹۲۶ء و۱۹۹۲ء) کا شمار ہندوستان کے ممتاز اور معروف علماء میں ہوتا ہے۔ ان کا قلم  معیاری ، شگفتہ اور سلیس تھا، مولانا مرحوم کی جدید و قدیم علوم پر گہری نظر تھی ، ان کا مطالعہ وسیع اور متنوع تھا۔ فقہ اسلامی اور فکر جدید ان کا خصوصی موضوع تھا۔ اس موضوع پر خاص طور پر ان ان کی کتابیں مقبول ہوئیں۔ مولانا مرحوم پندرہ روزہ احتساب کے ایڈیٹر بھی رہے،۔۔۔۔۔۔ مولانا کی عظمت نصف النہار کے آفتاب کی طرح ناقابل انکار تھی،سید حامد مرحوم نے مولانا کے انٹرویو میں آئے بغیر پروفیسر شپ کا عہدہ پیش کیا، عربی، انگریزی اور قانون کے اعلی ماہرین نے ان کی کتابوں کا انگریزی اور عربی میں ترجمہ کرنے میں اپنی تکمیل محسوس کی۔۔۔ مولانا کی انتہائ وقیع کتاب ” احکام شریعہ میں حالات و زمانہ کی رعایت ” کو بڑی شہرت ملی اور انگریزی زبان میں خاص طور پر اس کا ترجمہ کیاگیا؛ تاکہ بڑے پیمانے پر زیادہ سےزیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔
شعبان ۱۴۰۲ھج کے موقع پر مشہور دینی درسگاہ۔۔ معہد ملت مالیگاؤں۔۔ میں ختم بخاری شریف کی تقریب منعقد کی گئی تھی، جس کی صدارت مولانا مرحوم نے فرمائی تھی، مولانا امینی رح نے اپنی صدارتی تقریر میں دینی درسگاہوں اور ملی اداروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک خاص پہلو کی جانب بھی توجہ دلائی تھی اور بڑے پرجوش انداز میں فرمایا تھا کہ۔۔۔ میری یہ آواز  ہر دینی ادارے تک پہنچا دی جائے۔
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اور خاص طور پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے جس قدر دینی مدارس اور وہاں کے اساتذہ متاثر ہوئے ہیں، ضرورت ہے کہ حالات کی سنگینی اور اس کے خطرناک نتائج کے پیش نظر مولانا مرحوم کے دل سے نکلی ہوئی اس آواز اور صدا کو ہر دینی ادارے اور عوام الناس تک پہنچائی جائے؛ تاکہ وہاں کے ذمہ داران اور منتظمین اس تعلق سے بدلے ہوئے حالات میں نیا لائحۂ عمل مرتب کرسکیں اور عوام الناس کے ذہن کو بھی اس کے لیے ہموار کرسکیں۔
مولانا امینی رح نے فرمایا تھا:
"آج عرب کا زر سیال فتنہ بن کر ہمارے سامنے آرہا ہے ( افسوس کہ حالات کی وجہ سے نامعلوم وقت تک کے لیے وہ بھی بند ہے) اس فتنہ کی زد میں مدارس بھی آگئے ہیں، حالات بدل گئے ہیں اور زمانہ کی بہت سی ضرورتیں تبدیل ہوگئی ہیں، علماء کے لئے روزی روٹی کا مسئلہ پیچیدہ بن گیا ہے، اس لیے باصلاحیت اور ذی استعداد کہاں سے کہاں چلے جا رہے ہیں، ان کا میدان عمل کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا منتخب کر رہے ہیں، آخر فکر معاش میں جب تک ان کو فراغت نہ ہوگی وہ کیسے ریسرچ کریں گے، کس طرح تدریس، تصنیف و تالیف افتاء و تبلیغ اور امامت و خطابت کے فریضے کو انجام دیں گے؟ اس لیے ان کی ضرورتوں کا تو خیال رکھنا ہی چاہیے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے:کاد الفقر ان یکون کفرا۔۔ یعنی فقر و محتاجگى بسا اوقات انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ اس لیے میری یہ آواز ندوۃ العلماء، لکھنؤ، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ، دار العلوم دیوبند اور تمام دینی درس گاہوں، ملی اداروں اور مساجد کے ذمہ داروں تک پہنچا دی جائے کہ علماء اور دینی خدمت گزاروں کو خود کفیل بنایا جائے، میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں مالدار بنا دو، مگر ایک متوسط زندگی کی کفالت کا انتظام تو ہونا ہی چاہیے، ان کی ہوس کی تکمیل مت کرو، مگر ان کی ضروتوں کی تکمیل کا سامان تو ضرور کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم ان کی ضروتوں کو اپنی ضرورت جیسی نہ سمجھو گے اور انہیں خود کفیل نہ بناو گے تو وہ کسی دوسری جگہ سے اپنی ضرورت کی تکمیل کریں گے اور آہستہ آہستہ دینی رجحان کم ہوتا چلا جائے گا اور اس طرح اچھے اور ذہین افراد کی آمد کم ہو جائے گی، جس کے نتیجہ میں علمی تحقیقی اور دینی معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جائے گا، جس کی ذمہ داری موجودہ ذمہ داروں پر عائد ہوگی، آج مدارس دینیہ داوں پر لگ رہے ہیں، زر سیال کا سیلاب جو آج موج کی طرح آرہا ہے اس سے بڑے خطرات پیدا ہو رہے ہیں، لہذا پانی سر سے اونچا ہونے سے قبل ہی اس سیلاب کا ضرور تدارک کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ اچھے اور باصلاحیت علماء اور دینی خدمت گزاروں کا قحط پڑا جائے گا”
( چراغ راہ از مولانا محمد رضوان القاسمی رح)
مولانا محمد تقی امینی رح کی اس درد مندانہ، ہوش و خرد اور تجربہ و مشاہدہ میں آئی ہوئی باتوں پر (خاص طور پر لاک ڈاؤن کے بعد پیش آنے والے حالات میں) پر ذمہ داران مدارس اور خیر خواہان قوم و ملت کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لاک ڈاؤن نے اچھے اچھوں کے امتحان لے لیا ہے اور بڑے بڑوں کے ایمان و یقین کو آزما لیا ہے۔ مدارس کے اساتذہ کی معیار زندگی کو بلند کرنے کی بات تو جانے دیجیئے، اب تو مسئلہ پچھلے سال ہی سے ان کے واجبی تنخواہ کی ہے، اس کے ملنے کے لالے پڑ گئے ہیں، کتنے مدارس نے وارنگ دے دی ہے کہ کہیں اور جگہ تلاش کرلیں، یا اپنی تنخواہ کا انتظام کر سکتے ہیں تو خود کرلیں، اب میرے بس کا یہ روگ نہیں ہے۔ بعض مساجد کے ائمہ اور موذنین سے کہا جارہا کہ اب کہیں اور اپنے لیے جگہ تلاش کرلیں۔ بعض ساؤتھ کے ادارے اپنے قدیم اساتذہ کو اپنے مدرسے سے نکال رہے ہیں، بلکہ نکال چکے ہیں جو تیس پینتیس سال سے دینی خدمت انجام دے چکے اور ساٹھ کی دہائی پوری کرچکے ہیں، پوتے اور نواسے والے ہو چکے ہیں، بتائے اب وہ اس عمر میں کہاں جائیں گے اور جگہ تلاش کریں گے۔ ان مدارس کے ذمہ داروں کو سرکاری اداروں سے اور حکومت کے بنائے ہوئے نظام اور پالیسی سے سبق لینا چاہیے کہ سرکاری ملازم کی موت کے بعد بھی، حکومت ان کے بچے اور بیوی کے لیے بہت کچھ کرتی ہے۔ پینش کا پورا نظام ہے، انوکمپا ہمدردی کی بنیاد پر کسی بچہ کو نوکری دی جاتی ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے نابالغ بچوں کی تعلیم کا بھی حکومت انتظام کرتی ہے، یہاں تک کہ کفن دفن تک کا خرچ دیتی ہے۔ سالانہ باونس دیتی ہے۔
لیکن مدارس میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ بہت سی جگہوں پر ان اساتذہ کا استحصال کیا جاتا ہے۔ آخر ہم لوگ کس قدر بے مروّت ہوگئے ہیں ،اسلامی تعلیمات کو کہاں بھلا بیٹھے ہیں ؟جب کہ اکثر لوگ سارا دھندا دین ہی کے نام پر کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کی کتابوں میں پڑھتے آرہے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بعض عرب خرچ اور فقر و فاقہ کی ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے یہ جہالت اب بھی باقی ہے صرف انداز اور طریقہ بدلہ ہے ۔
دوسری طرف ایک اور مصیبت بہت سے علماء اور دینی خدمت گزاروں کے سامنے ہے ،بہت سے علماء اور اہل علم لوگ شکایت کرتے ہیں کہ خود ان کے بھائی برادران ان کو اپنا حریف اور فریق بنائے ہوئے ہیں ،چہ جائےکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی مالی اعانت اور مدد کریں اور ان کو کھل کر دین کا کام کرنے دیں۔ان کا واجبی اور جائز حق دینے میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں، یا یہ کہئیے کہ دبا لے رہے ہیں، جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ میں تدریس کے علاوہ سماجی کاموں سے بھی کچھ حد تک جڑا ہوں اور خاص طور پر دینی مدارس کے فارغین کے مسائل سے گہری وابستگی ہے، برابر اس طرح کی شکایتیں بھی آتی رہتی ہیں۔
علی الاعلان سچی باتیں کہنے کا عادی ہوں، اس لیے میری باتیں بہت سے لوگوں کو بری لگتی ہیں، لیکن مجبور ہوں کہ مرض جب ناسور ہوتا دیکھتا ہوں تو نشتر ضرور لگاتا ہوں، تاکہ زخم مندمل ہو اور مریض کو سکون ملے اور مرض کا خاتمہ ہو۔
چمن میں تلخ نوائی میری گوارہ کر
کہ زہر بھی کرتا ہے کار تریاقی

(ناشر: مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا، جھارکھنڈ)

Comments are closed.