Baseerat Online News Portal

لاک ڈاؤن اگین دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے نوراللہ نور

لاک ڈاؤن اگین
دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے

نوراللہ نور

موجودہ وقت میں برسر اقتدار لوگوں سے خیر کی توقعات اور منفغت کی امید و رجاء ایک خام خیالی اور بے جا توقع ہے وہ اور ان کے عمل شروع سے مشکوک رہے ہیں اور ان کے ہر فیصلے اور فرمان نامے میں خامی اور آمریت کی آمیزش ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ان کا ہر اقدام بس ایک طبقے کی زجر و شتم اور اذیت رسانی کے لیے ہی ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔۔
ایک مدت سے تو وہ اپنی تاناشاہی کا نفاذ ذرا خفیہ طور پر کر رہے تھے مگر جب سے کورونا آگیا ہے ان کے دست و بازو کچھ زیادہ ہی کام کرنے لگے ہیں
اور ذہن بہت پھرتی سے لوگوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کا حربہ تلاش کر رہا ‌ہے اور یہ سطحی سوچ کے لوگ ایک خدای قہر کو بھی ڈھال کے طور استعمال کر رہے ہیں اور اس کے پس پردہ اپنی مقصود کی طرف بڑی برق رفتاری سے گامزن ہے ۔۔
یوں تو اس کی آڑ میں بہت سی زندگی جہنم بنادی گئی اور ہزاروں جانیں ان کی غلیظ سوچ کے بھینٹ چڑھ گئے مگر ابھی بھی ان کے قلب کو تسکین نہ ملی اور ان کے قلب کی سوزش کم نہ ہوئی اور ہنوز ڈرامے بازی جاری ہے اور یوں تو ابھی ان کے احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے آی پریشانیوں کا سامنا کر رہی تھے اب ایک ڈراما انہوں رچا ہے اور وہ ہے دوبارہ لاک ڈاؤن کا سب سے پہلے تو لاک ڈاؤن اس مسلے کا شافی حل نہیں تھا کیوں کہ اس کا نفاذ منظم طور پر نہیں ہوا جن سے بہت سے لوگ اپنے جان گنوائی خیر جب دیگر ممالک نے یہی طریقہ اپنایا ہم سے بھی یہ طوعاً و کرہاً کروایا گیا مگر جب پورے طور پر ہم اسے قابو بھی نہ کرسکے آنلاک کا غیرضروری اعلان ہوجاتا ہے اور ہوٹلیں شاہراہیں کھل گئی چلو اس انلاک کے ذریعہ احتیاطی تدابیر کے سے بیماری اور دیگر نامناسب حالات سے لڑ رہے تھے اور حالات استوار ہونے ہی والے تھے کہ اب پھر سے ایک بار لاک ڈاؤن جاری کیا گیا ہے جسے ہم احمقانہ نہیں بلکہ شاطرانہ اور مکارانہ قدم کہ سکتے ہیں اور اسے بدلے کی سوزش اور تنگ نظری اور متعصبانہ فیصلے سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں کیوں کہ جب دو ماہ سے مندر گرجا گھر میں عبادت ہو رہی تھی دکانیں اور شاہراہیں کھلی تھی تو تب تو کوئی خطرہ نہیں تھا اور بیماری پورے قابو میں تھی لیکن جیسے ہی بقرعید کا مہینہ آتا ہے بیماری اچانک بے قابو ہوجاتی ہے اور سب خطرے میں آجاتے ہیں یہ کورونا اتنا سمجھدار ہے کیا کہ اسے بھی مذہب کی شناخت ہے ؟ اس کی کوئی حقیقت تو نہیں ہے مگر چونکہ ہندوستان میں ایک عرصے سے ہے تو ممکن ہے کہ وہ بھی یہ جان گیا ہو
درحقیقت لاک ڈاؤن کا یہ پیریڈ ایک انتقامی سوچ کا شاخسانہ ہے اور تہوار میں مخل ہونے کا ایک چور دروازہ ہے اور بھی اس کے پس پردہ کام انجام پا رہے ہیں جو ملک اور اس میں بسنے والوں کے حق میں انتہائی ملک اور جان لیوا ہے اس کے پس پشت کمزور و بے زبانوں کے حق تلفی اور ان کے وجود کے اختتام کی جال سازی کی جارہی ہے اور ایک سوچ فکر؛ ایک فکر کو فروغ دینے کی تیاری کی جارہی ہے
آخر اس لاک ڈاؤن میں بہارمیں ہمارے غیر مسلم بھائی کی تہوار شان و شوکت سے منایا گیا اس وقت کورونا مہلک نہیں تھا جب انلاک ہوا اور لوگ بے خوف و خطر شاہراہوں پر آمدو رفت کر رہے تھے تب خطرہ نہیں تھا مگر بقرعید آتے ہی سارے خطرے آگیے ان پر تو کوئی بندش نہیں لگی لیکن یہاں عین وقت پر لاک ڈاؤن کا لگانا کیا یہ ایک طبقے کو پریشان کرنا اور اپنی منفی سوچ کا خوف نشر کرنا نہیں ہے ؟ اور اپنی تاناشاہی کا بر ملا اظہار نہیں ہے ؟ مہاراشٹر کے وزیر اعلی لوگوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ سادگی کے بقرعید منایں کیا حکومت میں موجود لوگوں نے کیرل میں اور بہار میں یاترا نکالنے والوں سے اس کی طرح کی درخواست کی تھی ؟ کیا ان سے اپنے تہورا کو ہلکا اور تخفیف کے ساتھ منانے کی اپیل کی گئی تھی ؟ نہیں نا تو پھر یہ دہرا رویہ کیوں ہے کسی کے ساتھ ؟ان کا رویہ یہ بتلاتا ہے کہ اس کورونا کے پس پشت کچھ اور بھی چل رہا ہے اور یہ لاک ڈاؤن کسی بڑی تحریک کی طرف خفیہ پیش قدمی ہے اور اندر ہی اندر کچھ اور ہی گل کھلا رہے ہیں میرے کچھ ساتھی تبصرہ کر رہے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ کچھ نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اور اس کے کچھ تو چل رہا ہے جس کی پردہ داری ہے

Comments are closed.