Baseerat Online News Portal

لاک ڈاون۔۔۔وبا۔انسانی زندگی۔اوربچوں کی تعلیم ۔۔

احمدنادرالقاسمی۔٨ جنوری ٢٠٢٢۔
گزشتہ دوبرسوں سے۔جب سےدنیا ایک واٸرس کی زد میں آٸی ہے۔معلوم نہیں اس سے پہلے کبھی دنیا نے اسکا تجربہ کیاتھا یانہیں ۔اورکیادنیا کا کرہ ارض اس سے پہلے ہر قسم کے واٸرس سے پاک تھا ۔اورابھی ہی اچانک ۔WHOکے ماہرین کے بقول یہ یہ کرونا ۔اوراب امیکرون واٸرس نمودارہوا اورپوری دنیا۔بلکہ پورے روٸے زمین۔بحروبر سب میں پھیل گیا اوریہ قسطوار پھیلتاہی جا رہاہے ۔ویب در ویب اپنی شکل اختیار کررہاہے۔کبھی ۔بزرگوں پر حملہ آورہوتاہے ۔کبھی نوجوانوں کو اپنی زد میں لیتاہے۔اوراب بچے بھی محفوظ ۔نہیں ۔ایسا پروپیگنڈا کیا جارہاہے۔انسانوں کو مقید کیاجارہاہے۔واٸرس کے پھیلاو کوروکنے کی عرض سے کبھی رات کاکرفیو۔کبھی دن کا لاک ڈاون ۔کرونا بھی پریشان ہے میں اپناکام کب کروں رات میں یا دن میں ۔بھیڑ میں یا سناٹے میں ۔اس طرح کرونا کسی کو نقصان پہونچاۓ یا نہ پہونچاۓ ۔اللہ کرے کسی کو کوٸی نقصان نہ ہو۔ ۔مگر انسان انسان کو پریشان ضرور کررہاہے ۔
بہرکیف صورت حال جوبھی ہو دنیاکاہر انسان اب اس گھٹن آمیز ماحول میں زندگی کی امنگ سے محروم ہوچکاہے ۔مسقبل کا خواب چورہوتادکھاٸی دینے لگاہے ۔بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کافورہوتی جارہی ہے ۔لوگ کسی طرح کھیل کود ۔ڈراموں اوردیگر تفریحی ذراٸع سے ۔بدلاہواتأثر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔مگر ہیں تو سب مصنوعی ہی نہ۔کب تک بہ تکلف اوربناوٹی مسکراہٹ سے دل بہلاٸیں گے ۔ہرشخص اپنے آپ سے تنگ اورمجبورہوتجاتاہے۔
بچوں کا مستقبل۔
دوسال کاعرصہ ہونے کوجارہاہے۔بچوں کے اسکول جانے کی عادت ختم سی ہوتی جارہی ہے ۔اعلی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ سرد پڑتاجارہاہے۔آن لاٸن تعلیم کے بہانےدل بہلانے کو بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون آگٸے ہیں۔بچوں کو موباٸل فون کی ایسی لت لگ چکی ہے کہ بڑوں سے زیادہ بچے اب موباٸل پر وقت گزاررہے ہیں۔ آن لاٸن تعلیم تو محض چند گھنٹوں کی بے سود تفریح سے زیادہ کچھ نہیں ۔جوسنتے ہیں۔ ہفتہ بھی نہیں گزرتاکہ ان کے دماغوں سے محوہوجاتاہے ۔ان کے حصہ میں بس ایک اچھا سااسمارٹ فون رہ جاتاہے جس پر آنکھ کھلنے سے رات کے دو بچے تک یوٹوب اورفیس بک اوردیگر سوشل میڈیاپر انگلیاں نچاتے رہتے ہیں۔جب آنکھ بند ہوتی ہے تو موباٸل اسکرین پر اورکھتی ہے تو موباٸل اسکرین پر ۔اوردماغ کی انرجی جو ان کے اچھے مستقبل کی تعمیر اورآبیاری میں صرف ہونی چاہٸے ۔موباٸل اسکرین پر لایعنی چیزوں کے دیکھنے میں صرف ہورہی ہے ۔یہ صورت حال عالمی پیمانے پر ہے ۔اس طرح اگردیکھاجاۓ تو لاک ڈاون کی اس صورت حال اورتعلیمی ادارے بند ہونے سے سب سے زیادہ نقصان بچوں اورنٸی نسل کاہواہے۔ جس کی تلافی شاید نصف صدی میں بھی ممکن نظرنہیں آتی ۔کیونکہ ایسالگتاہے کہ موجودہ جنریشن کی زندگی تو اسی بکھراو اورمایوسی میں گزرے گی ۔اگلی جنریشن کا اللہ ہی مالک ہے۔
والدین کے لٸے چیلینج۔
اب یہ صورت جس سے ہم دوچار ہیں بظاہر اس سے نجات تو مشکل ہے۔
مگرسوچنایہ ہے کہ اپنے بچوں کی ذہنی اورفکری آبیاری کیسے کریں ۔ان کو ایساانسان کس طرح بناٸیں جو اپنے آپ میں مکمل انسان کے ساتھ ساتھ ایک باوقار شخصیت کے سانچے میں ڈھل سکے اورمستقبل کی ذمہ داریوں کے بوجھ اٹھانے کے قابل بن سکے ۔یہ بہت بڑالمحہ فکریہ ہے۔اورہر ماں باپ کو اس کی طرف توجہ مبذول کرنا ہے ۔ورنہ پوری دنیا آنے والی جنریشن کے خیر اورصلاحیت سے محروم ہوجاۓ گی اورروۓ زمین کو اس کے فاٸدے سے تہی دست ہوناپڑے گا۔
اس کے لٸے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی فکری تربیت کی خاطر وقت نکالیں ۔خود لایعنی کاموں سے بچیں ۔ان کے ساتھ شام کاوقت گزاریں ۔ان کو دین وایمان اوراخلاق سکھاٸیں ۔۔ان کے سوالوں کا مناسب جواب دیں ۔نصابی اوردینی کتابوں کے مطالعہ میں ان کی رغبت پیداکریں ۔موباٸل سے چھین نے کی بجاۓ رفتہ رفتہ ان کی دلچسپی کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔ان کی زندگی کے فاٸدے اورنقصان سے واقف کراٸیں ۔بچے اوربچیوں کو بےجا باہر گھومنے اورگھر سے باہروقت گزارنے سے روکنے کی کوشش کریں ۔گھروں میں اپنی والدہ اورگھر کی بزرگ خواتین کے ساتھ وقت گزارنے کاعادی بناٸیں ۔بچیاں ہوں تو ان کو ذان ہوتے ہی نماز کی طرف متوجہ کریں ۔اورلڑے ہوں تو ذان سنتے ہی مسجد جانے کی ترغیب دیں ۔اورتعلیم وصحت سے وابستہ رہنے پر پوری توجہ مرکوز رکھیں ۔ اللہ تعالی ہماری نٸی نسل کو اس دورکے بیکاری اورفکری انحراف کے فتنہ سے محفوظ فرماۓ۔آمین ۔طالب دعا ن ق ۔دہلی۔

Comments are closed.