Baseerat Online News Portal

لاک ڈاؤن میں عید الفطر کی نماز

مفتی حسین احمد قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد شکور کالونی ، سمن پورہ راجہ بازار، پٹنہ
پورے ملک ہندوستان میں COVID19 کی وجہ سے ۳۱ ؍ مئی ۲۰۲۰؁ء تک لاک ڈاؤن ہے ، ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ہم مسلمانوں کے لئے عید گاہ یا مسجد میں اکٹھے ہوکر عید الفطر کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ، لہذا جس طرح پنج وْقتہ نمازیں ،تراویح اور جمعہ وغیرہ کا اہتمام مسجد کے علاوہ اپنے اپنے گھروں میں کیاگیا اسی طرح امسال عید کی نماز بھی ہمیں گھروں میں اداء کرنی ہوگی ، چونکہ ہر گھر میں عالم دین نہیں ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ نماز عید سے متعلق عام مسائل بیان کردیئے جائیں ۔
عید الفطر کے شرائط :نماز جمعہ کے لئے جوشرطیںہیں نمازعید کے لئے بھی وہی شرطیں ہیں ،چنانچہ جن لوگوں پر جمعہ واجب ہے ،اور جن مقامات پر جمعہ واجب ہے ان لوگوں پر اور ان مقامات پر نماز عید بھی واجب ہے ، جس طرح جمعہ کے لئے امام کے علاوہ تین آدمی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح نماز عید کے لئے بھی چار آدمی کا ہونا ضروری ہے جن میں سے کوئی ایک امام بن جائے ، لہذا لوگ اب تک جمعہ کی نماز کا انتظام جس انداز پر کرتے تھے اسی انداز پر عید الفطر کی نماز کا انتظام بھی اپنے اپنے گھروں میں کریں گے ،
وتجب صلاۃ العیدین علی الامصار کما تجب الجمعۃ وہکذا روی الحسن عن ابی حنیفۃ انہ یجب صلاۃ العید علی من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ(بدائع الصنائع: ۱, ۲۷۵)
واما شرائط وجوبھا وجوازھا فکل ماھو شرط وجوب الجمعۃ وجوازھا فھو شرط وجوب صلاۃ العیدین وجوازھا من الامام والمصروالجماعۃ والوقت الاالخطبۃ فانھا سنۃ بعد الصلاۃ ولو ترکھا جازت صلاۃ العید (بدائع الصنائع : ۱؍۲۷۵)
الغرض جن علاقوں میں اب تک جمعہ اور عیدین کی نماز ہوتی چلی آرہی ہے ، امسال وہاںچند افراد ہی مساجد اور عیدگاہ میں عید الفطر کی نمازاداکریں ،بقیہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز عید کا اہتمام کریں ، اس طرح کہ کم از کم چار لوگ اکٹھے ہوجائیں ،اور ان میں سے کوئی ایک امام بن جائے ۔
نماز عید میں خواتین کی شرکت:اگر گھر میں عید کی نماز ہورہی ہے تو خواتین بھی عید کی نماز میں شریک ہوسکتی ہیں ،آپ ﷺ کے زمانہ میں خواتین عید کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، اس لئے کہ گھر سے باہر مسجد میںنماز کے لئے خواتین کے نکلنے کی ممانعت کی وجہ فتنہ ہے ، اب جب کہ نماز گھر میں ہورہی ہے ،تو کوئی فتنہ نہیں ہے ، اس لئے گھر میں اگر عید کی نماز ہوتو خواتین بھی اس میں شامل ہوسکتی ہیں ، لیکن خواتین کی صف ، مردوں کے صف سے الگ سب سے پیچھے رہے گی۔
نماز عید کا وقت : عیدین کی نماز کا وقت سورج طلوع ہوکر ایک نیزہ کے بقدر بلند ہونے کے بعد (یعنی اشراق کے وقت ) سے زوال تک ہے ، زوال کے بعد عیدین کی نماز درست نہیں ، البتہ عید الفطر کی نماز میں اول وقت سے تھوڑی تاخیر کرنا مستحب ہے ،تاکہ لوگ نماز عید سے قبل صدقہ فطر اداکرلیں ، جب کہ عید الاضحی کی نماز میں جلدی کرنا مستحب ہے تاکہ نماز سے فارغ ہوکر جلد قربانی کرسکیں ۔
وقت الصلاۃ من الارتفاع الی الزوال(الدر المختاربھامش رد المحتار :۳؍۵۳ )
یستحب تعجیل الامام الصلاۃ فی اول وقتھا فی الاضحی وتاخیرھا قلیلا عن اول وقتھا فی الفطر بذلک کتب رسول اللہ ﷺ الی عمرو بن حزم وھو بنجرازن : عجل الاضحی واخر الفطر قیل : لیؤدی الفطر ویعجل التضحیۃ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ ، باب احکام العیدین)
نماز عیدین میں اذان واقامت نہیں ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز بغیر اذان اور بغیر اقامت کے پڑھی ، پھر اسی طرح حضرت ابوبکر ؓو حضرت عمر ؓ نے (اپنے اپنے دور خلافت میں )پڑھی ۔(ابوداؤد شریف: حدیث نمبر:۱۱۴۷)اسی لئے نماز عیدین کے لئے اذان و اقامت نہیں کہی جائے گی ۔
نماز عیدین کا طریقہ: پہلے امام اور مقتدی نیت کریں ،نیت ،دل کے ارادہ کا نام ہے ،اگر زبان سے کہنا چاہے تو اس طرح کہے کہ میں دورکعت نماز عید الفطر واجب مع چھ زائد تکبیرات کی نیت کرتا؍کرتی ہوں۔
نیت کے بعد امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں کی لَو تک اٹھائے اور باندھ لے ، ساتھ ہی مقتدی بھی آہستہ سے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور باندھ لے ، پھر امام و مقتدی سب آہستہ آواز سے ثناء پڑھیں ، ثناء کے بعد دوسری مرتبہ امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک لے جائے اور ہاتھ چھوڑدے ، ۔ مقتدی بھی آہستہ آواز سے تکبیر کہہ کر ایسا ہی کریں ، اسی طرح تیسری مرتبہ امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک لے جائے اور ہاتھ چھوڑدے ، ۔ مقتدی بھی آہستہ آواز سے تکبیر کہہ کر ایسا ہی کریں ،اور چوتھی مرتبہ امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک لے جائے اور ہاتھ باندھ لے ، ۔ مقتدی بھی آہستہ آواز سے تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں ، اب امام آہستہ آواز سے ’’اعوذ باللہ ‘‘ اور ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھے ، اس کے بعد بلند آواز سے قرآت کرے ، اور مقتدی خاموش کھڑے رہیں ، پھر امام کے ساتھ رکوع ، سجدہ وغیرہ کر کے حسب دستور پہلی رکعت پوری کریں ، ۔ دوسری رکعت میں کھڑے ہوکر پہلے امام قرآت کرے پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ تکبیر کہے اور ہر مرتبہ ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑدے ، مقتدی بھی ایساہی کریں ، پھر چوتھی تکبیر کہہ کر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع میں چلاجائے اور مقتدی بھی ایساہی کریں ، اور حسب دستور نماز مکمل کریں (فتاوی التاتارخانیہ:۲؍۶۰۴))
عید کی نماز کے بعد دعاء : جس طرح دیگر نمازوں کے بعد دعاء کی جاتی ہے ، اسی طرح عید کی نماز کے بعد بھی دعاء کی جاسکتی ہے ،لیکن دعاء کا وقت نماز کے فورا بعداور خطبہ سے پہلے ہے ،دعاء کے بعد خطبہ پڑھاجائے گا، اور خطبہ کے بعد کوئی دعاء نہیں ہے(فتاوی دارالعلوم دیوبند:۵؍۱۶۳)
نماز عید کے بعد خطبہ: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں عید کی نماز میں رسول اللہ ﷺ ابوبکر ، عمر اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ساتھ شریک ہوا ہوں یہ تمام لوگ خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے ۔ (بخاری شریف :حدیث نمبر:۹۶۲)اس لئے عید کا خطبہ پڑھنا مسنون ہے ، جو کہ عید کی نماز کے بعد پڑھا جائے گا۔
عید کے خطبہ میں یہ بھی مستحب ہے کہ پہلے خطبہ کی ابتداء میں نومرتبہ تکبیر بلند آواز سے لگاتار پڑھے ، اور دوسرے خطبہ میں سات مرتبہ ، (الدرالمختار مع شامی :۳؍۵۸)عید کا خطبہ پڑھنا تو مسنون ہے لیکن جو وہاں موجود ہوں اس پر سننا واجب ہے ،اس وقت گفتگو کرنا حرام ہے ۔
نوٹ: گھروں میں خطبہ دینے کے لئے ممبر کی جگہ کرسی رکھ کر اس کے نیچے پیڑھیا رکھ لیا جائے ، کرسی پر بیٹھ جائے اور پیڑھیا پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا جائے ۔
عید الفطر کا مختصر خطبہ
{پہلا خطبہ}
اللّٰہُ اَکْبَرُ، اللّٰہُ اَکْبَرُ ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُ،اللّٰہُ اَکْبَرُُ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبَیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰ لِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَیَااَیُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ا تَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ،وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ ،وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہٖ ، أعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،٭ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرِ وَلَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِرُوااللّٰہَ علٰی مَاھَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ٭، بَارَکَ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْقُرْاٰنِ الْعَظِیْمِ وَنَفَعْنَا وَاِیَّاکُمْ بِالْاٰیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ ،اَسْتَغْفِرُ وااللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاسْتَغْفِرُوْہُ اِنَّہُ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔
{دوسرا خطبہ }
اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر،اللّٰہُ اَکْبَر، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ اَمَّا بَعْدُفَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ :اَدُّوْاعَنْ کُلِّ حُرٍوَّعَبْدٍذَکَرٍوَّاُنْثٰی نِصْفَ صَاع ٍمِنْ بُرٍّاَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ، أعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ َوالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ ، عِبَادَ اللّٰہِ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ ، اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِی ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْی ،وَلَذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی اَعْلٰی وَاَوْلٰی وَاَعَزُّوَاَجَلُّ وَاَتَمُّ وَاَھَمُّ وَاَعْظَمُ وَاَکْبَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَہ
بغیر خطبہ کے نماز عید : خطبہ ،کتاب یا کسی کاغذ کو دیکھ کر بھی دیا جاسکتاہے ، کوئی ضروری نہیں خطبہ بہت لمبا ہو ، بلکہ مختصر خطبہ بھی پڑھاجاسکتاہے ،عیدین کا خطبہ سنت ہے ، فانھا سنۃ وتجوز بدونہا (الفتاوی الہندیہ :۱؍ ۱۵۰)لہذا بغیر خطبہ کے بھی عید کی نماز ہوجائے گی ،چنانچہ اگر کوئی خطبہ دینے والا نہ ہو تومحض اس وجہ سے عید کی نماز نہ چھوڑی جائے ، بلکہ کم از کم عید کی نماز پڑھ لی جائے ۔
جو لوگ عید کی نماز نہیں پڑھ سکتے : جہاں امام کے علاوہ تین لوگ نہ ہوں وہاں عید کی نماز نہ کی جائے ، یہ حضرات کسی دوسری جماعت میں شریک ہونے کا نظم بنالیں اور اگر کوئی نظم نہ ہوسکے تو گھر میں دو دو رکعت کر کے چار رکعت نمازچاشت کی نیت سے پڑھ لیں ، لیکن واضح رہے کہ یہ چاشت کی نماز عید کی نماز کا بدل نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ جن سے عید کی نماز فوت ہوجائے وہ چاشت کی نماز چاررکعت پڑلے ، اس لئے جہاں عید کی نماز ہوتی چلی آرہی ہے ، وہاں کے لوگ کوشش کریں کہ کسی طرح عید کی نماز پڑھ لیں ۔ (بدائع الصنائع :۱؍۲۷۹)
اسی طرح جن دیہاتوں میں جمعہ کی شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں اور اب تک وہاں جمعہ اور عید کی نماز نہیں ہوتی ہے ، بلکہ وہاں کے لوگ ہمیشہ جمعہ اور عیدکی نماز کے کے لئے دوسرے گاؤں میں جاتے تھے ایسے لوگوں پر عید کی نماز واجب نہیں ہے ، وہ لوگ اس دن اپنے گھر میں یا مسجد میں عید کی نماز نہیں پڑھیں گے ، اگر چاہیں تو وہ حضرات بھی چاشت کی نماز چار رکعت پڑھ سکتے ہیں ۔
ایک آدمی کئی جگہ عید کی نماز نہیں پڑھاسکتا: اگر ایک جگہ کوئی شخص عید کی نماز پڑھا چکا ہے تو اب وہ دوسری جگہ جا کر عید کی نماز نہیں پڑھاسکتا،اس لئے کہ اس کا واجب ادا ہوچکا ہے اب اگر وہ دوبارہ عید کی نماز پڑھائے گا تو اس کی نماز نفل ہوگی ، جب کہ اس کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز واجب ہوگی تو یہ اقتداء المفترض خلف المتنفل ‘‘کی قبیل سے ہوگا جو درست نہیں ہے ۔
تــــــــــــــــــــــمـــــــــــــــــــــــــــــت بالخیر
الحمد للہ اولا وآخرا وصلی اللہ علی النبی المصطفی وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
طالب دعاء : حسین احمد قاسمی
امام و خطیب جامع مسجد شکور کالونی، سمن پورہ ،پٹنہ
سابق قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ
مقام بیلکھریا ،ڈاکخانہ دریاپور، تھانہ ناتھنگر ،ضلع بھاگلپور ، بہار
رابطہ :7004435931

Comments are closed.