Baseerat Online News Portal

مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کا انقلابی کارنامہ: آن لائن نظام تعلیم کا تحریکی آغاز اور حیرت انگیز کامیابی

برصغیر کے تمام دینی مدارس کے لیے دعوت فکر و عمل

 

 

از: عبد المنان قاسمی

استاد مدرسہ فیض العلوم (دامت) نیرل، ممبئی

ومہتمم دارالعلوم للبنین والبنات نوی ممبئی

[email protected]

 

یہ بات ارباب حل و عقد اور اصحاب دانش و بینش سے مخفی نہیں ہے کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کردیا ہے، تمام ہی شعبہ جات زندگی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، پوری کائنات میں ایک عجیب سا سناٹا پسرا ہوا ہے، نقل و حمل کی ساری تدبیریں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ تقریباً پندرہ مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک حالات معمول پر نہیں آسکے ہیں؛ اگر چہ اب کچھ بہتری آنی شروع ہوئی ہے۔ خصوصاً ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں 23/مارچ 2020ء کو جب غیر منصوبہ بند، غیر منظم، بے ہنگم اور بنا کسی لائحہ عمل اور پلاننگ کے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا، تو ظاہر ہے کہ اس وقت احوال و ظروف کی اس قدر سنگینی کا نہ کسی کو اندازہ تھا اور نہ ہی وہم و گمان تھا؛ لیکن دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور سنگینی بڑھتی چلی گئی۔ ایسے میں دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ تعلیمی شعبے کا نقصان ہوا؛ کیوں کہ اب تک (9/جون 2021) بھی نجی و سرکاری تعلیمی اداروں (اسکولس، کالجیز، یونیورسٹیز، مدارس و مکاتب) کے معمول کے مطابق کھلنے کے تعلق سے کوئی واضح لائحہ عمل اور روڈ میپ سامنے نہیں آیا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں عصری تعلیم گاہوں نے اپنے طلبہ و طالبات کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوے سد رمق اور متبادل کے طور پر "آن لائن ایجوکیشن” کا سلسلہ شروع کیا اور "مالا یدرك کله، لايترك كله” کے تحت تعلیمی سال کو بچانے میں کامیابی سے ہم کنار بھی ہوے؛ لیکن مدارس اسلامیہ میں اسباب و وسائل کی قلت، جدید سائنسی ٹیکنالوجی کی افادیت سے ناواقفیت، حالات کی نزاکت وسنگینی کے عدم احساس، اور خصوصاً نونہالان امت مسلمہ کے روشن و تابناک مستقبل کی تعمیر وترقی اور احساس ذمہ داری کے فقدان کے سبب کوئی متبادل نظام تعلیم کو اپنایا نہ جاسکا، جس کی وجہ سے طلبہ مدارس کا ایک سال ضائع ہوچکا ہے؛ لیکن ایسے حالات میں سبھی مدارس ایک ہی زمرے میں نہیں آتے؛ بل کہ چند مدارس اسلامیہ نے بیدار مغزی اور فکر و نظر کی بالیدگی کا ثبوت بھی دیا ہے، جن میں سر فہرست اور دینی قیادت و سیادت کا عظیم الشان مرکز، بین الاقوامی شہرت یافتہ دینی تعلیمی ادارہ میں تمام تر رد و کد، نقد و تنقید اور آن لائن ایجوکیشن سسٹم کی افادیت و عدم افادیت کے غیر ضروری بحث و تمحیص کو بالائے طاق رکھ کر "آن لائن نظام تعلیم” کے عملی تجربے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا، پورے سال کے کامیاب ترین تجربے کے بعد ابھی شوال المکرم 1442ھ میں "آن لائن امتحانات” کا مرحلہ بھی نہایت کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہونچ چکا ہے، جس کے نتیجے میں طلبہ عزیز کے تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچا لیا گیا۔ الحمدللہ! جس کو راقم السطور نے *”آن لائن نظام تعلیم کا تحریکی آغاز اور حیرت انگیز کامیابی”* سے معنون کیا ہے۔ اس عظیم الشان کارنامے پر دل کی گہرائیوں سے مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کی انتظامیہ کو مبارک باد پیش ہے۔

 

اب رہی یہ بات کہ ہم جس روایتی نظام تعلیم (یعنی بالمشافہ تعلیم) سے آشنا ہیں، اس کی اہمیت و افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا؛ بل کہ وہی کامیاب نظام تعلیم بھی ہے اور وہ ہی اصل الاصول نظام بھی ہے؛ لیکن آج ہم جن مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں، تو بہ حالت مجبوری ہمیں اپنا نظریہ بدلنا ہوگا، جدید ٹیکنالوجی میں مفید و مضر؛ دونوں پہلو ہیں؛ لیکن اس کی افادیت کو ترجیح دینی ہوگی اور اس کے مفید نتائج برآمد کرنے کے لیے مضبوط و مستحکم لائحہ عمل اور ضابطہ کار کی تشکیل دینی ہوگی۔ اس سلسلے میں فکر و تدبر کے کئی گوشے اور زاویئے ہوسکتے ہیں، اختلاف رائے کی بھی کھلی آزادی ہے؛ لیکن اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے مضطرب نونہالان امت مسلمہ کے لیے ان ناگفتہ بہ حالات میں "آن لائن تعلیم” سے بہتر کوئی دوسرا ایسا متبادل نظام نظر آتا، جو طلبہ کے ضیاع وقت کی بھرپائی کرسکے اور اس کے جمود و تعطل کے شکار تعلیمی سلسلے کو جاری کرسکے۔ جیسا کہ *مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند نے ایک سالہ کامیاب ترین تجربہ پیش کرکے اس کے اثر آفریں، حیرت انگیز اور مفید ترین نتائج سے ایک بہترین اور قابل تقلید عملی نمونہ بھی پیش کردیا ہے، جس سے آن لائن ایجوکیشن سسٹم کی افادیت کو سمجھا جا سکتا ہے*

 

مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند نے جو نظام تعلیم اختیار کیا تھا، اس کی تفصیلات دارالعلوم وقف دیوبند کے لیٹرپیڈ پر شائع ہوچکا ہے، جس کا آسان سا خلاصہ یہ ہے کہ:

(1) اپنے ویب سائٹ کا استعمال اور اس کو محفوظ ترین بنانے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر۔

(2)ویڈیو کے بہ جائے کم ایم بی میں آڈیو کا نظام۔

(3)حاضری کی شرح معتدل رکھنے اور غیر حاضری پر کنٹرول کرنے کے لیے 24/گھنٹے کے لیے اسباق کی اپلوڈنگ اور تساہل وتغافل سے بچانے کے لیے ڈاؤنلوڈنگ وشیئرنگ کی بندش۔

(4)اساتذہ اور طلبہ کے مابین ربط و ارتباط، درپیش وناگزیز مسائل کے حل اور علمی سوال وجواب کے لیے (تمام درسی کتب کے متعلقہ اساتذہ کے الگ الگ) وہاٹس ایپ گروپ کی سہولت۔

 

مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کا یہ عملی تجربہ؛ برصغیر کے تمام چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ کے لیے بہترین نمونہ ہے، جو یقیناً قابل تقلید وعمل بھی ہے اور ان حالات میں نونہالان امت کے ساتھ خیرخواہی کا ذریعہ بھی؛ کیوں کہ اس کے بغیر آج کوئی دوسرا راستہ اور طریقہ نظر نہیں آتا کہ اس کو اختیار کیا جاسکے۔

 

مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کی یہ کامیابی وکامرانی اس کے ذمہ داران کی ذہنی وفکری بالیدگی ووسعت کی واضح دلیل ہے۔ امت مسلمہ پر جب بھی کٹھن حالات اور دشوار گزار مراحل سامنے آئے ہیں، تو خانوادہ قاسمی کی خشت اساس: حجة اللہ فی الارض، حجة الاسلام، حضرت الامام الاکبر، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ سے لے کر مفکر اسلام حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب اور خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نور اللہ مرقدھم تک کا کہکشانی افق کے سبھی آفتاب و ماہتاب نے دین متین کی ناخدائی کا فریضہ انجام دیا ہے اور اپنی بے پناہ خداداد صلاحیت و صالحیت سے امت مسلمہ کو طوفان بلاخیز میں ہچکولے کھانے سے بچایا ہے۔ خواہ تحریک مدارس اسلامیہ و ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی تاسیس ہو، تحریک بیوگان، تحریک رد شیعیت، تحریک رد عیسائیت، تحریک رد آریہ سماج، تحریک رد نیچریت والحاد، تحریک تحفظ مسلم پرسنل لا، تحریک تعلیم بالغان وغیرہ وغیرہ؛ تحریکات کی ایک طویل فہرست ہے، جن تمام کی جڑیں بالواسطہ یا بلاواسطہ حضرت امام نانوتوی نور اللہ مرقدہ سے جڑتی ہیں؛ بل کہ بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ برصغیر میں بپا ہونے والی ہر دینی، فکری تحریک کا سہرا واسطہ یا بلاواسطہ حضرت امام نانوتوی کے سر سجتا ہے۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ آج کے ناگفتہ بہ حالات میں ان کے اخلاف انقلابی کارنامہ وتحریک کی صدارت نہ فرماتے۔ استاذ محترم، جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم (مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند) کی قیادت و سیادت اور اہتمام میں دارالعلوم وقف جو ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے، وہ اسی خاندانی شرافت و نجابت کی روحانی برکتوں کا ثمرہ ہے۔ اور بلند حوصلگی، عالی ہمتی، جواں مردی کے کوہ ہمالہ، اعلی تعلیم سے آراستہ، جدید و قدیم کے حسیں سنگم، نئی نسل کے رول ماڈل، قیادت و سیادت کی صلاحیت سے لیس، ملک وملت کی ناخدائی میں یکتا ومنفرد، نوعمری ہی میں عالمی وبین الاقوامی شہرت کے مالک، نوجوان عالم دین، استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی صاحب دامت برکاتہم کی شبانہ روز کی جاں فشانی، محنت ولگن، تگ ودو اور تڑپ کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم وقف دیوبند تعلیمی میدان میں ممتاز حیثیت کا حامل ادارہ ہے اور جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ان کی بیخ کنی کے لیے علوم و فنون کے ماہرین کی خدمات حاصل کر رہا ہے اور اپنی ایک ممتاز شناخت وپہچان بنانے میں کامیابی کی طرف گامزن ہے۔

 

اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہوں کہ مادر علمی کو مزید ہمہ جہت ترقیات سے نوازے، شرور و فتن سے محفوظ رکھے، وہاں کی انتظامیہ اور تمام عملہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین!

 

Comments are closed.