Baseerat Online News Portal

مال دار تو بہت ہیں مگر دلدار نہیں ہیں۔

شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں رہوا ویشالی بہار
قارئینِ کرام ۔
اللہ تعالی نے جن کو مال سے نوازا ہے ان میں بہت کم ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ مال ودولت کو نعمت خداوندی سمجھ کر شکر بجا لاتے ہیں اور غریبوں یتیموں مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرکے اللہ کی رضا اور خوشنودی چاہتے ہیں ۔ بلکہ اکثریت ایسے مالداروں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو مال دولت ہمارے پاس ہے اس کو ہم نے اپنے بازو کی طاقت سے حاصل کیا ہے اور وہ فقراء ومساکین اور حاجت مندوں پر خرچ کرنے کو بوجھ سمجھتے ہیں ۔ قابلِ مبارک ہیں وہ خوش نصیب جو اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اپنی آخرت بنارہے ہیں۔ اور قابلِ مذمت ہیں ایسے لوگ جن کو اللہ نے مال سے نوازا مگر وہ راہ خدا میں خرچ نہ کرکے اپنی آخرت برباد کر بیٹھے ۔
جو مال اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ کہتے ہیں ۔
صدقہ کی تین قسمیں ہیں ۔
1,فرض ،جیسے زکوٰۃ ۔
2, واجب ،جیسے نذر، صدقۃ الفطر ، اور قربانی وغیرہ ۔
3,نفلی صدقات ۔ جیسے عام خیر خیرات ۔
راہ خدا میں خرچ کرنے کی قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ اور خرچ نہیں کرنے والوں کے لئے وعیدیں آئی ہیں ۔
فرمان خداوندی ہے ۔ جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی (سورہ بقرہ)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی (سورہ توبہ)
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟
کون ہے جو اللہ تعالی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے (سورہ حدید)
جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے کچھ دے کھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے (سورہ آل عمران)
خبردار تم وہ لوگ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے جاتے ہو تو تم میں سے بعض بخیلی کرنے لگتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے وہ تو دراصل اپنی جان سے بخیلی کرتا ہے اللہ تعالی غنی ہے اور تم فقیر اور محتاج ہو اور اگر تم روگردان ہو جاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہیں ہوں گے (سورہ محمد)
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔
جو مال جمع کرتا جاۓ اور گنتا جاۓ۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔
ہر گز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔
اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی ۔
وہ اللہ عزوجل کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی ۔
جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی ۔
وہ ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی ہوگی ۔
بڑے بڑے ستونوں میں (سورہ ھمزہ)
انسان کا اپنا مال ۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ تکاثر کی آیت (الھکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر) غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے یہاں تک کہ قبریں دیکھ لیں کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ اس کا مال کہاں سواۓ اُس کے جو اس نے کھا کر ختم اور پہن کر پرانا کر دیا یا پھر صدقہ خیرات کر کے اللہ کے ہاں جمع کردیا ۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا داروں کی حیثیت ۔
فخر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے زیادہ مال جمع کرنے والے لوگ اللہ کی نظر میں حقیر ہیں مگر کثرت سے صدقہ کرنے والے ( اللہ کی نظر میں محبوب ہیں) جو لوگ ہر وقت مال کی حرص میں مبتلا اور زیادتی کی فکر میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالی کے نزدیک وہ ادنی اور حقیر ہیں اگر جنت میں جائیں گے تو غریبوں کا مقام نہیں پاسکتے جہنم میں جائیں گے تو اس میں بھی نچلے طبقہ میں رہیں گے البتہ وہ مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں جو ہر حال میں اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں کہ وہ مال کے مضر اثرات سے بہت حد تک بچے رہتے ہیں۔
امیر غریب ہر مسلمان کے لئے صدقہ لازم ہے ۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر کسی آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دست و بازو سے محنت کرے اور کمائے اس سے خود بھی فائدہ اٹھاۓ اور صدقہ بھی کرے عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ نہ کرسکتا ہو تو کیا کرے رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کر کے اس کی مدد ہی کر دے ( یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے) عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے آپ نے فرمایا تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لئے کہے لوگوں نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کم ازکم شر سے اپنے کو روکے یعنی اس کا اہتمام کرے کہ اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے یہ بھی اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب لوگوں پر دولت اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے زکوۃ فرض نہیں ہوتی ان کو بھی صدقہ کرنا چاہیے اگر روپیہ پیسہ سے ہاتھ بالکل خالی ہو تو محنت مزدوری کرکے اور اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ کی سعادت حاصل کرنی چاہیے اگر اپنے خاص حالات کی وجہ سے کوئی اس سے بھی مجبور ہو تو کسی پریشان حال کی خدمت ہی کر دے اور ہاتھ پاؤں سے کسی کا کام نہ کر سکے تو زبان ہی سے خدمت کرے حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہر مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب طاقتور اور توانا ہو یا ضعیف اس کے لئے لازم ہے کہ دامے،درمے، قدمے، سخنے، جس طرح جس قسم کی بھی مدد کر سکے ضرور کرے اور اس سے دریغ نہ کرے۔
صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے فرزند تو میرے ضرورت مند بندوں پر اپنی کمائی خرچ کر میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم اللہ کے بھروسے پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت یعنی اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی تمہیں اپنی نعمتیں بے حساب دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالی بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بند ہو جائیں گے لہٰذا تھوڑا بہت جو کچھ ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
جو راہ خدا میں خرچ کر دیا جائے وہی باقی اور کام آنے والا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی اور اس کا گوشت للہ تقسیم کر دیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ بکری میں سے کیا باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا صرف ایک دست اس کی باقی رہی باقی سب ختم ہو گیا آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اس دست کے علاوہ جو للہ تقسیم کردیا گیا دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے یعنی آخرت میں ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا (جامع ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات یہ ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کر دوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کے لئے اس میں سے کچھ بچا لوں (صحیح بخاری)
جو دولت مند کشادہ دستی سے راہ خدا میں خرچ نہ کریں بڑے خسارے میں ہیں ۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں اور اس کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیں ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ہر طرف خیر کے مصارف میں اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں مگر دولتمندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بندے بہت کم ہیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ضرورت مندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر وثواب ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا پہننے کو کپڑا دیا اللہ تعالی اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جس مسلم بھائی نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اللہ تعالی اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا اور جس مسلم بھائی نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا تو اللہ تعالی اس کو جنت کے سربمہر شراب طہور پلاۓ گا (سنن ابی داؤد،جامع ترمذی)
بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بد چلن عورت اس عمل پر بخش دی گئی کہ وہ ایک کنوئیں کے پاس سے گزری اور اس نے دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالے ہوئے اس کی حالت ایسی ہے کہ گویا وہ پیاس سے مر ہی جائے گا اس عورت کے دل میں ترس آیا وہاں پانی نکالنے کے لیے رسی ڈول کچھ بھی موجود نہیں تھا اس نے اپنا چمڑے کا موزہ پاؤں سے نکالا اور کسی طرح اس کو اپنی اوڑھنی سے باندھا اور محنت مشقت کرکے اسی کے ذریعے سے پانی نکال کر اس کو پلایا وہ عورت اپنے اسی عمل کی وجہ سے بخش دی گئی کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہر حساس جانور جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو اس کو کھلانے پلانے میں اجر و ثواب ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔
اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم و بیش خرچ تو سبھی کرتے ہیں لیکن اس خرچ کرنے سے لوگوں کو وہ روحانی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کے نیک بندوں کو دوسرے مساکین و فقراء پر صدقہ کرنے سے ہوتی ہے کیوں کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو لوگ کار ثواب نہیں سمجھتے بلکہ اس کو مجبوری کا ایک تاوان یا نفس کا ایک تقاضا سمجھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اپنے اہل و عیال اور اعزہ و اقارب پر بھی لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے خرچ کرنا چاہیے اس صورت میں جو خرچ اس مد میں ہوگا وہ سب صدقہ کی طرح آخرت کے بینک میں جمع ہو گا بلکہ دوسرے لوگوں پر صدقہ کرنے سے زیادہ اس کا ثواب ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے ہمارے لئے خیر و سعادت کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اب ہم جو کچھ اپنے بیوی بچوں کے کھانے کپڑے پر حتی کہ ان کے جوتوں پر جائز حدود میں خرچ کریں وہ ایک طرح کا صدقہ اور کار ثواب ہو گا بس شرط یہ ہے کہ ہم اس ذہن سے اور اس نیت سے خرچ کریں ۔
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا جب کوئی صاحب ایمان بندہ اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو اس کے حق میں صدقہ ہوگا اور وہ عنداللہ ثواب کا مستحق ہوگا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت ۔
سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لئے کچھ دینا صرف صدقہ ہے اور اپنے کسی عزیز قریب ( ضرورت مند) کو اللہ کے لئے کچھ دینے میں دو پہلو ہیں اور دو طرح کا ثواب ہے ایک یہ کہ وہ صدقہ ہے اور دوسرے یہ کہ وہ صلہ رحمی ہے (یعنی حق قرابت کی ادائیگی ہے) جو بجائے خود بڑی نیکی ہے ۔(مسند احمد،جامع ترمذی،سنن نسائی، ابن ماجہ، سنن دارمی) رحم و سخاوت پر جنت، حضرت حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری امّت کے بہت سے لوگ نماز روزہ کی کثرت کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ ان کے دلوں کی سلامتی، سخاوت، اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی و غمخواری ان کو جنت میں لے جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مال کے ساتھ ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ورنہ وہ مال ہی کیا جسے راہ خدا میں خرچ نہ کرسکے،،

Comments are closed.