Baseerat Online News Portal

مجاہدصفت اوردرویش منش راہنما سید منور حسن

عبدالرافع رسول
ایک دینی اورنظریاتی جماعت کے امیرکومصلحت پسندی سے ماوراجس طرح بے لچک ،بے تکلف،صاف گو اورکسی لگی لپٹی کے بغیرجیسامبرہن اوردوٹوک بات کرنیوالا ہوناچاہئے سابق امیرجماعت اسلامی سیدمنورحسن اس اصول پرپورا،اترتے تھے۔جماعت اسلامی کی تاریخ میںانہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن سے امیر جماعت اسلامی بننے تک کے سفرمیں قدم قدم پر ایک ایک نتھرے اورنکھرے مجاہدقائد کے طورپرلکھوایا۔شائدیہی وجہ ہے کہ جب وہ پہلی بارامیرجماعت منتخب ہوئے تویہ انکی پہلی اورآخری شفٹ ثابت ہوئی اورتازیست وہ دوسری بارجماعت اسلامی کے امیرمنتخب نہ ہوسکے جبکہ ان کے پیش روتین امرائے جماعت متعددباراورکئی کئی مرتبہ منتخب ہوتے رہے اوراس طرح عشروں تک اس رتبہ عظیم اورمنصب جلیل پرفائزہوتے رہے جبکہ موجودہ بھی اپنی دوسری باری نبھارہے ہیں۔منور حسن کا چبھتا ہوا انداز تکلم معمول کی بات چیت کا تو ناگزیر حصہ تھا ہی لیکن تقریروں میں تو یہ اپنی انتہا پر پہنچ جاتا۔ ان کا یہ شعلہ بار انداز بیاں ہی تھا کہ ان پر پابندیاں لگتیں اور حکومت کوشش کرتی کہ سیاسی تحریکوں کے دوران انھیں خطاب کے مواقع میسر نہ آسکے۔
کہتاہوں وہی بات سمجھتاہوں جسے سچ
میں زہرہلاہل کوکہہ نہ سکاقند
اپنے دورشباب اورطالب علمی کے دور میںپہلے سید منور حسن کامریڈ ،دہری تھے ۔ دوران طالب علمی میں وہ کمیونسٹوں کے اشترکی لٹریچرسے متاثر ہوگئے اور انہیں کارل مارکس، ٹراٹسکی اور لینن کے افکار میں اس دنیا کا مستقبل دکھائی دیا۔وہ زمانہ تھاکہ جب کراچی کی طلبہ سیاست کا یہ زمانہ بڑا ہیجان خیز اور نظریاتی اعتبار سے بہت اہم تھا۔سیدمنورحسن کیمونزم کی طلبہ ونگ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF)میں شامل ہوئے اور1959 میں اس کے صدر بن گئے۔لیکن اسی دوران جب انہوں نے اپنے رب کوپہچان لیااوررب الکریم نے انہیں ہدایت دی تو مارکسزم، لینن ازم اور سٹالن ازم کو تج کر ایک ایسے School of Though))اور ایسی دینی جماعت جوتمام مسلکی تعصبات سے پاک ہے کواپنی جدوجہدکے لئے منتخب کیا۔عین اسی زمانے میں وہ مولانا مودودی کے لٹریچر سے متعارف ہی نہیں ہوا بلکہ تیزی سے متاثر ہوئے۔مولانامودودی کے لٹریچرکے مطالعہ نے ان کی زندگی بدل دی اوراسی کی یہ کرشمہ سازی تھی کہ آپ 1960 میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اورجلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شوری کے رکن بنادیے گئے۔ بعد ازاں 1964 میں آپ اسلامی جمعیت طلباء کے ناظم اعلیٰ بنے اور مسلسل تین ٹرم کے لیے اس عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کی عرصئہ نظامت میں جمعیت نے طلبہ مسائل، نظام تعلیم اور تعلیم نسواں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی خاطر کئی مہمات چلائیں۔
سیدمنورحسن اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت کے بعددوران1963 میں اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ ان کی زیِر قیادت اس اکیڈمی نے ستر (70) علمی کتابیں شائع کیں۔ ماہنامہ( The criterionاور The Universal Message )کی ادارت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ ا نہوں نے 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966 میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہو گئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔
ٍسید منورحسن 1967 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اورپھر جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوری اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔1977 میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992 میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993 میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔مارچ 2009 میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہو گئے ہیںاور2014تک اس ذمہ داری پرفائررہے۔
سید منور حسن2009میں پانچ برس کے لیے جماعت کے نئے امیر منتخب ہوئے۔ پورے پاکستان کے 23 ہزار سے زائد ارکان جماعت اسلامی نے نئے امیر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے۔امیر کے انتخاب کے لیے سید منور حسن ، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کے درمیان مقابلہ ہوا جبکہ جماعت کے سبکدوش ہونے والے امیر قاضی حسین نے اس انتخاب میں حصہ لینے سے معذرت کر لی تھی۔ان سے پہلے بانی جماعت اسلامی علامہ سید ابو الاعلی مودودی، میاں محمد طفیل اور قاضی حسین احمدامیرجماعت اسلامی رہ چکے تھے ۔ جماعت کے بانی مولانا مودودی تھے جو 1972 تک امیر کے عہدے پر فائز رہے اور ان کے بعد ان کی جگہ میاں طفیل کو جماعت کا نیا امیر چن لیا گیا تھا جو1987 تک امیر جماعت اسلامی رہے۔میاں طفیل کے بعد 1987میںیہ عہدہ قاضی حسین احمد کے پاس آیااور2009تک وہ اس عہدے پرفائزتھے۔
سید منورحسن نے مشکل حالات میں امارت کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔ ان کے لیے یہ مشکل بھی تھی کہ قاضی حسین احمد جیسے سیاسی طور پر انتہائی متحرک، سیاسی قیادتوں میں مقبول اور عوامی سطح پر ہردلعزیز امیر کے بعد انہیں امارت سنبھالنا پڑی، جس کے لیے انہوں نے ابتدائی طور پر معذرت بھی کی لیکن شوری نے ان کی معذرت قبول نہ کی۔ دینی جماعتوں میں اطاعتِ امیر سیاسی ضرورت نہیں بلکہ یہ دینی اورایمانی تقاضا ہوتاہے۔ یہاں امیر کی اطاعت بھی زیادہ اخلاص سے کی جاتی ہے اور اس کا احتساب بھی بہت کڑے انداز میں ہوتا ہے۔ یہاں نہ اطاعت کے پیچھے کوئی لالچ یا منفعت ہوتی ہے اور نہ احتساب اور تنقید کے پیچھے سیاسی مقاصد شاید یہی کڑا نظام ہے بایں ہمہ جماعت اسلامی اسلامی پاکستان اس اصول پرآج تک قائم رہی جس کی برکات سے جماعت اسلامی اندرونی طور پر کبھی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور باہر یہ تاثر موجود رہا کہ جماعت اسلامی انتہائی منظم جماعت ہے۔ عوامی سطح پر اس کی پذیرائی کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے لیکن اس کے نظم و ضبط، اخلاص و قربانی کے دوست دشمن سب قائل رہے۔
جنرل ضیا ء الحق شہید کے دور سے جماعت اسلامی کوفوج کی بی ٹیم کہاجاتارہاہے اوریہ سلسلہ 1977 سے 2013 تک لگتا رہا۔ اس دوران چونکہ 2002 میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ ہونے کی وجہ سے شریکِ اقتدار بھی رہی، اس لیے یہ الزام زیادہ شدت اختیار کرگیا۔ لیکن نومبر2013کو جیوٹی وی کے سلیم صافی کے ساتھ ایک ٹی وی انٹرویو پر ایسی لے دے ہوئی کہ فوج کے ترجمان ادارے کو اس پر باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فوج کے ترجمان ادارے نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف باقاعدہ بیان جاری کیااور جماعت اسلامی اور سید منورحسن سے اس پر معافی مانگنے اور بیان واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلاموقع تھاکہ جب فوج اورجماعت اسلامی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
وہ جماعت اسلامی جیسی ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے راہنما رہے، یہاں تک کہ اس کے مرکزی امیر بھی بنے لیکن زندگی کا ایک بڑا حصہ دو چھوٹے کمروں پر مشتمل کرائے ایک مکان میں گزار دیا۔بقول صحافی فاروق عادل کے کہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر کے لیے ایک فلیٹ مخصوص ہے جس میں میاں طفیل محمد نے بھی قیام کیا اور ان کے جانشین قاضی حسین احمد نے بھی لیکن منور حسن نے اپنا یہ حق خود اپنی مرضی سے چھوڑ دیا۔جتنا عرصہ بھی وہ جماعت کے امیر رہے انھوں نے منصورہ کے مہمان خانے کے ایک کمرے میں گزارا کیا۔ اس کمرے کو رسی سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جس پر چادر ڈال کر پردے کا اہتمام کرلیا گیا۔ کراچی سے ان کی بیگم آتیں تو اسی پردے کے پیچھے رہائش اختیار کرتیں اور پردے کے دوسری طرف اگر کوئی قریبی ملنے والا آجاتا تو اسے بٹھایا جاتا۔جماعت اسلامی ایک عام شہری کے کم سے کم اخراجات کا اندازہ کرکے اپنے کل وقتی کارکنوں کو گزارے کے لیے کچھ رقم پیش کرتی ہے۔ ساری زندگی انھوں نے وظیفے کی اسی رقم کے سہارے گزاری۔ اخراجات کو کبھی اس سے بڑھنے نہیں دیا۔
وہ جماعت اسلامی جیسی ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے راہنما رہے، یہاں تک کہ اس کے مرکزی امیر بھی بنے لیکن زندگی کا ایک بڑا حصہ دو چھوٹے کمروں پر مشتمل کرائے ایک مکان میں گزار دیا۔بقول پاکستان کے صحافی فاروق عادل کے کہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر کے لیے ایک فلیٹ مخصوص ہے جس میں میاں طفیل محمد نے بھی قیام کیا اور ان کے جانشین قاضی حسین احمد نے بھی لیکن منور حسن نے اپنا یہ حق خود اپنی مرضی سے چھوڑ دیا۔جتنا عرصہ بھی وہ جماعت کے امیر رہے انھوں نے منصورہ کے مہمان خانے کے ایک کمرے میں گزارا کیا۔ اس کمرے کو رسی سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جس پر چادر ڈال کر پردے کا اہتمام کرلیا گیا۔ کراچی سے ان کی بیگم آتیں تو اسی پردے کے پیچھے رہائش اختیار کرتیں اور پردے کے دوسری طرف اگر کوئی قریبی ملنے والا آجاتا تو اسے بٹھایا جاتا۔جماعت اسلامی ایک عام شہری کے کم سے کم اخراجات کا اندازہ کرکے اپنے کل وقتی کارکنوں کو گزارے کے لیے کچھ رقم پیش کرتی ہے۔ ساری زندگی انھوں نے وظیفے کی اسی رقم کے سہارے گزاری۔ اخراجات کو کبھی اس سے بڑھنے نہیں دیا۔

Comments are closed.