Baseerat Online News Portal

"محبت کے واسطے”

 

ثمرین گل (راجن پور)

 

صبح کے وقت وہ نہا کر چھت پر چلی گئی بھورے بال اُسکی کمر کو چھو رہے تھے ۔ جو کہ ریشم کی مانند تھے۔ بالوں پر دھوپ پڑتی تو آبشار کی طرح لگنے لگتے۔نور چھت پر چہل قدمی کرنے لگی۔

 

نور اپنی دنیا میں مگن تھی کہ اچا نک نیچے سے آواز آئی

نور!!!!

نیچے آؤ۔۔۔

نور اپنی ہی دنیا میں گم تھی اُسکی سننے کی صلاحیت جیسے ختم ہو چُکی تھی

اچا نک اُسکی نظر شہر کو جانے والی سڑک پر پڑی اُسکی خیالی دنیا میں اسکا شہزادہ سوٹ بوٹ پہنے اسی سڑک سے اسکو لے جائے گا۔۔ اپنے بالوں سے کھیلتی کبھی انکو آگے کی طرف کر لیتی تو کبھی باندھ لیتی۔یہ سوچ کر اسکا شہزادہ آئے گا ۔۔اُسکے اندر ایک خوشی کی لہر ا اُٹھی اُسکے لب پر مسکرہٹ اُسکی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔۔۔

اُسکی اماں نے پھر آواز لگائی

نور!!!

کہاں مر گئی ہو ؟؟؟

جلدی نیچے آؤ ۔۔

دیکھو کون آیا ہے۔۔۔

نور بالوں کو باندھ کر نیچے بھاگتی ہوئی آئی ۔۔

جی امّاں!!!!

کون آیا ہے؟

نور کی سانس پھولی ہوئی تھی۔۔۔ جب نور صوفے پر بیٹھی تو اُسکی نظر ساتھ رکھے دیوان پر پڑی تو وہ دیکھ کر حیران تھی۔۔۔۔۔

ارتضیٰ تم؟؟؟

ارتضیٰ اسکا چچا زاد تھا۔ ارتضیٰ پکے رنگ کا مالک تھا۔ نور کو اُس سے سخت نفرت تھی، گھر میں بھی اُسکی کوئی بات کرتا تو دل ہی دل میں ارتضیٰ کو کوستی رہتی تھی،

کیونکہ۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ اور نور کی نسبت بچپن میں طے ہو چکی تھی۔جسکی وجہ سے نور کو ارتضیٰ سے نفرت تھی۔۔۔

ارتضیٰ ہر کام میں ماہر تھا پڑھائی میں بھی۔۔

بس!!! اسکی رنگت کی وجہ سے نور ذرا دور رہتی تھی۔۔

مگر!!! ارتضیٰ کی آنکھوں میں ہمشہ نور کیلئے  محبت نظر آتی،

نور یہ بات جانتی تھی اُسکے باوجود نور کو نفرت تھی۔

 

نور!!! جاؤ ارتضیٰ کے لیے چائے بنا لاؤ امی نے کہا

نور پاؤں پٹختی کچن میں چلی گئی، برتن کو زور زور سے چولہے پر رکھنے لگی۔۔۔

ارتضیٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی نور بڑبڑاتی رہی اس کی چائے میں نمک مرچ سب ڈال کر دے دوں؟ اتنے میں ارتضیٰ بھی کچن میں آگیا۔۔۔

ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔ ڈال دو

میں تو پھر بھی تمہارے ہاتھ کی پی لوں گا۔۔ یہ سن کر نور کچن سے باہر چلی گئی۔۔ نور اپنے کمرے میں بھاگتی ہوئی گئی، کھڑکی کے پاس ٹھہر گئی اور سوچوں میں گُم ہو گئی، جب سوچتی کہ اُسکی اور ارتضیٰ کی نسبت بچپن میں ہی طے ہوگئی تھی تووہ تڑپ اُٹھتی۔۔۔۔

وہ منجمند ہو جاتی۔

اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھنے لگی قدرت نے نور کو حُسن سے نواز رکھا تھا۔۔

جبکہ ارتضیٰ اس چیز سے کوسوں دور تھامگر ایک ہونہار لڑکا تھا

نور کے والد اور ارتضیٰ کے والد کے درمیان بہت لگاؤ تھا دونوں ساتھ کاشتکاری کرتے تھے۔

 

مگرکسی صورت ارتضیٰ کی ہمسفر نہ بننا چاہتی تھی

جب بھی ارتضیٰ کی بات ہوتی تو  نور کا خون تک کھول اٹھتا تھا

وہ خیالی دنیا میں رہنے والی  حسین لڑکی جسکے خوابوں کا شہزادہ سوٹ بوٹ میں آئے گا

رات کے پہر وہ کھلے آسمان تلے بیٹھی ہاتھ میں لکڑی لئے زمین پر اُس لکڑی سے دل بناتی اور پھر اسی لکڑی سے اسکو بگاڑ دیتی

اتنے میں ارتضیٰ بھی اوپر آگیا۔۔۔

تم یہاں ہو؟؟؟

نہیں میرا بھوت بیٹھا ہے نور سخت لہجے میں جواب دےکر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

کہاں جا رہی ہو؟؟؟ نور نے مڑ کر دیکھا ۔

اور کہا جہنم میں ……… یہ بول کر نور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

ارتضیٰ وہی کھڑا حیران تھا۔۔ آخر نور کو کیوں اتنی نفرت ہے؟

ارتضیٰ چاند سے مخاطب تھا!!!! اے چاند تو بتا کیا میں اتنا برا ہوں؟؟؟

کیا میں محبت کے لائق نہیں؟؟؟

کیا میں اپنی محبت کا واسطہ بھی نہیں دے سکتا؟؟؟

اسکو میری آنکھوں میں محبت نظر نہیں آتی؟؟؟

 

"عشق تھا وہ میرا

مذاق تھا میں جناب کا”

 

اتنے میں ارتضیٰ کے والد اور نور کے والد بھی آگئے، ارتضیٰ بھی آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کر تے چھت سے نیچے آگیا

 

اب نور ارتضیٰ کی شادی کی باتیں ہو رہی تھی، ارتضیٰ خوش بھی تھا اور دکھی بھی تھااسکو نور کی بے رخی کھائے جا رہی تھی،

نور کی امّاں نے نور کو بلایا اور کہا بیٹی تمہاری اور ارتضیٰ کی نسبت بچپن میں ہی طے ہو گئی تھی ہمارے خاندان میں یہ ریت ہے جسکا رشتہ بچپن میں طے ہوجائےکبھی ٹو ٹتا نہیں۔۔۔۔

نور تب تو چُپ رہی

مگر دل میں عہد کر لیا تھا کبھی ارتضیٰ سے شادی نہیں کرے گی چاہے جو ہوجائے۔۔

میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔۔۔

میں یہ شادی نہیں کروں گی۔

ہاں!!!!

نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔

وہ یہ بھی جانتی تھی ارتضیٰ اسکو بہت پسند کرتا ہےمگر وہ جب اپنا ہمسفر ارتضیٰ کو دیکھتی تو چیخ اٹھتی۔نہیں میں ارتضیٰ کی دلہن نہیں بنوں گی مگر اس کی باوجود اُس نے ارتضیٰ کی آنکھوں اپنی محبت کی دیپ جلتے دیکھے تھے۔۔۔۔

 

نور اک باراتضیٰ سے ملنا چاہتی تھی اسکو کہنا چاہتی تھی کہ وہ اس سے پیار نہیں کرتی نہ اُسکی دلہن بننا پسند کرتی تھی۔

 

آخر کار۔۔۔۔نور نے ارتضیٰ کے پاس پیغام بھجوایا۔۔

ارتضیٰ کہیں نہ کہیں اسکی وجہ جانتا تھا ۔مگر وہ یہ سوچ کر بھی خوش تھا کے شاید نور کا دل اُسکی طرف مائل ہوگیا ہوگایہ بھی سوچتا کے ایسا ممکن تو ہے نہیں۔۔۔

ارتضیٰ سوچتا جا رہا تھاکہ نور کو اپنی محبت کا واسطہ دونگامیں اُس سے پیار کرتا ہوں۔۔۔ 

ہاں!!!!! بہت پیار۔۔۔

بس!!! بچپن سے آج تک تم کو چاہا۔۔۔

نور چھت پے  چکر لگا رہی تھی یہاں سے وہاں، اُسکے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھاکہیں نہ کہیں خوف بھی تھا

وہ اپنے آپ کی ہمت باندھ رہی تھی

ہاں!!!!! آج تو ارتضیٰ سے بات کر کے ہی دم لوں گی

اتنے میں ارتضیٰ بھی پریشانی کی حالت میں اوپر کی جانب قدم بڑھانے لگا بڑی مشکل سے اُس نے سیڑھی پر قدم جمائے

نور ہاتھوں کو مسلتی

منہ میں بڑبڑا رہی تھی

کیا بولوں؟

کہاں سے شروع کروں؟

ایک لمحہ خاموشی کے بعد نور بول اٹھی

دیکھو ارتضیٰ……!

میں جانتی ہوں یہ رشتہ بچپن میں طے ہو چکا ہےمگر میں یہ رشتہ نہیں کرنا چاہتی!

تھوڑی دیر کی خاموشی چّھا گئی

اچھا۔۔۔۔(ارتضیٰ)

ارتضیٰ کے اندر ایک طوفان برپا تھامگر خاموش تھا۔۔۔

ارتضیٰ میں تمہیں پسند نہیں کرتی، میں تم سے شادی نہیں کر سکتی،

ارتضیٰ خاموشی ختم کرتے ہوئے

میں تم سے محبت کرتا ہوں

تمہیں پسند کرتا ہوں

میں اپنی محبت کا واسطہ دیتا ہوں بچپن سے آج تک صرف تمہیں سوچا ہے،

نور غصے میں

میں نے کہا میں تمہیں پسند نہیں کرتی نفرت ہے مجھے تم سے تمہاری شکل سے

تمہارے وجود سے

اگر تم سچ میں پیار کرتے ہو تمہیں اُس پیار کا واسطہ

یہ رشتہ ختم کر دو ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے،

ارتضیٰ کا یہ سننا تھا

بس!!! نور میری محبت کا واسطہ دے  کر بات ختم کر دی تم نے۔۔۔

میرے اندر اب بلاوجہ کی گفتگو کرنے کی ہمت باقی نہیں رہی اگر یہی میرے پیار کا امتحان ہے تو ٹھیک ہے

نور کہ تو بیٹھی سب کچھ

مگر!!!! پریشان بھی تھی اتنے میں ارتضیٰ نیچے کی جانب چلا آیا

نور چھت پے ٹھہری رہی اسکا دل بیٹھا جا رہا تھانیچے آکر کمرے میں لیٹ گئی۔۔۔سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی صبح سورج طلوع ہو چکا تھامگر نور ننید میں مدہوش تھی سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں نور کی رخسار کو چھورہی تھی

ابھی تک نور کی پوری طرح آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ زور زور سے آوازیں آنے لگی نور بستر سے اُٹھی باہر آگئی۔

کیا ہوا؟؟؟؟

امی کیا ہوا؟؟؟

اُسکی اماں اسکو گلے لگا لیا

بیٹی!!!!!!

تمہارے والد اور چچا کی لڑائی ہوگئی ہے

ارتضیٰ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا

نور دل ہی دل میں خوش تھی جانتی تھی اُسکی غلطی کی بنا پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا

مگر خاموش تھی

ارتضیٰ نے آخر نور کی بات مان ہی لی تھی

جاتے وقت ارتضیٰ نے یہی کہا۔۔۔

نور تم نے میری محبت کا واسطہ دیا تھا میں نبھا چُکا

کہیں نہ کہیں اب نور کو شرمندگی تھی شاید اُس نے غلط کیا

اسکو اپنے کئے پر افسوس تھا۔ ارتضیٰ نے اپنی محبت ثابت کی، اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی ندامت لئے اپنی سہلي کو بتا رہی تھی۔۔۔۔

میں نے ارتضیٰ کو محبت کا واسطہ دے کر

اُسکی محبت کو دفن کر دیا

 

انہیں محبت کی کیا پہچان وہ تو بس اتنا جانتے ہیں  کہ بات ختم جذبات دفن دل ٹوٹے  جان چھوٹے…!!‎! 

ارتضیٰ اور اُسکے والد صاحب اُن سے دور جا کر رہنے لگے

مگر ارتضیٰ کی محبت ابھی بھی نور کے لیے ویسی ہی تھی مگر دل ہی دل میں ارتضیٰ کی محبت کو ماننے لگی تھی مگر وہ جانتی تھی اب بہت دیر ہو چُکی ہے۔

Comments are closed.