Baseerat Online News Portal

محبوب العلماء الحاج منیر احمد اعظمی: قافلہ حق کا ایک ستارہ جو غروب ہوگیا

مفتی شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

11/تاریخ 2020 کی سیاہ رات اپنے سفر کی نصف مسافت طے کرچکی تھی، شہر ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے گوونڈی کی آبادیاں نیند کی آغوش میں جاچکی تھیں، شب کا ایک بج چکا تھا، راقم بھی اب نیندوں کے خمار میں جاچکا تھا،اچانک موبائل کی گھنٹی بجی دیکھا تو ہمارے رفیق حافظ سیف الدین کا سعودی عربیہ سے فون تھا،اتنی رات گئے بے وقت کال بہت کچھ وسوسے اور اندیشے رکھتی ہے،انہیں وسوسوں کے ہجوم میں فون اٹھایا تو خبر ملی کہ، قومی وسماجی خدمات کی تاریخ رکھنے والے، مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور اعظم گڈھ کے متحرک و فعال رکن تاسیسی اور معمار، علماء ومشائخ کے قابل اعتماد رفیق و مقبول ترین دوست،علم دوست وعلماء نواز الحاج منیر احمد اعظمی کا ممبئی میں انتقال ہوگیا ہے، اس وحشت انگیز خبر نے قلب سے لیکر وجود میں ارتعاش پیدا کردیا، طبیعت بجھ گئی، ذہن ودماغ پر افسردگی کے بادل چھا گئے، نیند یکلخت کافور ہوگئی، ذہن ماضی کے دشت میں کھو گیا، مرحوم کے اخلاق و کردار اور انسانیت نوازی کی تصویریں تصور کے پردے پر جھلملانے لگیں، گھنٹوں انہیں کے اوصاف وکمالات کے صحرا میں ذہن سفر کرتا رہا۔ پھر جانے کب رات کے اخیر حصے میں خوابوں کی وادیوں میں داخل ہوگیا۔

حاجی صاحب کا دولت کدہ راقم کے گھر سے بالکل قریب صرف دو مکانوں کے بعد واقع تھا بچپن کی نگاہوں نے جس شکل وصورت کا مشاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ان کی شخصیت کا سراپا کچھ اس طرح تھا ، دراز قد،بھراہو ا گداز جسم،‌کسی عرب کی طرح صحت وتندرستی کا مجسمہ،رنگ بالکل صاف،روشن اور بارعب چہرہ،چمکتی ہوئی پیشانی، سفید لباس میں ملبوس، آواز میں بلندی،گفتار میں ٹھہراؤ، رفتار میں متانت اور وقار، طبیعت ومزاج میں سنجیدگی کے ساتھ مزاحانہ اور ظریفانہ رنگ، گویا ذوق و مزاج کے لحاظ سے نہ بالکل خشک اور نہ سوقیانہ شوخی،بلکہ معتدل انداز میں باغ وبہار کا آئینہ، اور عزم و استقلال،وقوت ارادی وقوت فیصلہ اور ہمت و حوصلے کا پیکرجس کے سامنے وقت کی چٹانیں گرد بن کر اڑ جائیں۔
حاجی منیر صاحب اونچے درجے کے کوئی عالم نہیں تھے نہ ہی وہ صاحب نسبت اور ذکر واوراد سے آراستہ کوئی ہستی، وہ نہ تو حرف واگہی کے دنیا کا کوئی آفتاب تھے نہ ہی عصری علوم کی کوئی قد آور شخصیت۔مگر وہ ایک انسان تھے،عظیم انسان جس کے ذریعے بے شمار انسانیت کے چراغ روشن ہوئے، وہ عالم گر تھے جس کے نتیجے میں علم کی شمعیں روشن ہوگئیں، وہ انسانیت کے خادم تھے، انھوں نے اس ماحول میں زندگی کا ابتدائی حصہ گذارا جہاں خوشحالی اور مادی فراوانی سجدہ ریز تھی،فقر ومسکنت کی ہواؤں کا جہاں گذر نہیں تھا مگر اس کے باوجود ان کے دل میں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ عہد شباب سے ہی اپنے ارد گرد کے لوگوں کی خبر گیری کرکے انسانیت نوازی کا کارنامہ انجام دے رہے تھے، وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے اور اسی دردمندانہ قلب وذہن کے باعث ملی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے،ان کے یہاں سے کوئی ضرورت مند کبھی خالی دامن لے کر نامراد نہیں لوٹا، ان کی فیاضانہ طبیعت عہد شباب میں بھی بندہ پروری کرتی تھی اور آخر تک اس میں کمی نہیں آئی ، ان کے قول وعمل میں تضاد کی گنجائش نہیں تھی جو کچھ ان کی زبان پر ہوتا وہی ان کے دل میں بھی ہوتا، جس چیز کو وہ حق سمجھتے برملا کہ دیتے اس سلسلے میں دنیا کا خوف اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اس سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔

نمود نمائش اور خود غرضی کے اس انسانیت سوز عہد میں کسی بیکس یا ضرورت مند کے تعاون وامداد کی پشت پر معاونوں کے مفادات کا ایک عالم پوشیدہ رہتا ہے’، بغیر مفاد کے کسی کی ضرورت پر انفاق کاکردار کیا تصور بھی اب ختم ہوچکا ہے۔
جانے کتنے لوگوں کی حاجت برآری کی، ان کی معاشی مشکلات کو انہوں نے دور کیا، مگر اخیر تک اس کا ذکر زبان پر نہیں آسکا،نہ ہی ان معاملات سے کوئی اپنا ہو یا غیر باخبرہو سکا۔ دوسال قبل راقم کی بہن کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی اعظم گڈھ سے ریفر کرکے ممبئی صابو صدیق ہاسپیٹل ڈونگری ایڈمٹ کیا گیا مگر یہاں دس بارہ روز کے بعد بھی حالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آسکی، حاجی صاحب کو معلوم ہوا فوراً مجھے فون کیا اور کہا کہ مریضہ کو وہاں سے نکال کر مرولseven hill ہاسپٹل لے کر آؤ، یہ ہاسپٹل انتہائی اعلی معیار اور انتہائی مہنگا ہے’ہم جیسے لوگوں کی سطح زندگی سے بہت بلند ہے’،ان کے حکم پر مریضہ کو ان کے گھر لے آئے انہوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اس بوجھ کو اس ترکیب کے ذریعے ہلکا کردیا کہ رہائش ان کے گھرکے پاس ایک مستقل روم میں رہے گی اور یہیں سے کنسلٹنگ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔اس طرح جانے کتنے لوگوں کی ان کے ذریعے میڈیکل معاونت ہوتی ہے’۔

وہ مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور اعظم گڈھ کے ظاہری طور پر اگرچہ صرف رکن اعلی تھے مگر کردار کے اعتبار سے، خدمات کے حوالے سے ،اور اس کی تعمیر وترقی کے لحاظ سے ایک معمار سے کم نہیں تھے، انہوں نے مدرسے کی تعمیر میں اپنا دماغ،اپنی فکر اپنی تڑپ اور گراں سرمایہ صرف کرنے میں کبھی لیت ولعل سے کام نہیں لیا، ایک بے لوث خادم کی طرح جب بھی ادارے کو سیاسی،اقتصادی ،انتظامی اور تعمیراتی ضرورت پیش آئی وہ ہر وقت کھڑے نظر آئے، مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کی تعمیری بنیادوں میں،ترقی کی اینٹوں میں،اس کے عروج اور اس کے تعلیمی،انتظامی ،داخلی اور خارجی نظاموں کے استحکام اور مالی شعبوں کے اہم ستونوں کی مضبوطی میں حاجی صاحب کا اہم کردار اور بنیادی رول ہے’جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مدرسے کی شوری اور دوسرے پروگراموں میں،اجلاس میں نہایت اہتمام سے وہ خود بھی شرکت کرتے،اس کے انتظامات کی فکر کرتے،ممبئی سے اپنے ساتھ وہمعصر دوستوں اور احباب میں بھی تحریک پیدا کرکے اپنے ساتھ لاتے، حال ہی میں مدرسے کی مسجد جو بہت وسیع عریض ہےاس کے صحن کے تینوں اطراف میں بلند وبالا برآمدے تعمیر ہوئے ہیں ان کی تزئین کے لئے خطیر رقم کی ضرورت تھی حاجی صاحب نے ممبئی میں اپنی ایک جائیداد فروخت کر کے اس کا بیشتر حصہ مسجد میں لگا دیا اور دیواروں سے لیکر فرش تک کو سرخ سنگ مرمر کا لباس پہنا کر اسے حسن وجمال کی انتہا پر پہونچا دیا یہ کام اب بھی جاری ہے جس کا بجٹ تقریبا پینتیس لاکھ ہے۔

طبقہ علماء سے محبت

حاجی صاحب مرحوم عالم تو نہیں تھے مگر علماء کرام کی محبتوں کے انوار سے ان کا دل ہمیشہ منور رہا ہے’، علم وفضل کی دنیا کی قد آور شخصیت استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے نہایت والہانہ محبت تھی، دونوں حضرات کے درمیان یہ تعلق اس قدر مضبوط اور اس قدر بے لوث وبے غرض تھا کہ تکلفات کی دیواریں درمیان سے ختم ہوچکی تھیں، حضرت مولانا بہت نپی تلی بات کرتے تھے ان کی مجلس میں مزاحیہ رنگ بہت کم ہوتا تھا،لیکن مجلس میں جب حاجی صاحب ہوتے تو حضرت مولانا بھی کھل اٹھتے تھے،ان کی گفتگو جس قدر بے تکلفانہ انداز میں حضرت سے ہوتی تھی اور جس طرح وہ مزاح کرتے تھے اسے دیکھ کر نئے حاضرین حیرت میں ڈوب جاتے تھے چونکہ وہ آزاد طبیعت کے مالک تھے اور زندہ دل اور باغ بہار شخص تھے،اس لئے ان کی موجودگی میں محفل زعفران زار رہتی،خود حاجی صاحب مرحوم کا بیان ہے:ممبئی میں ایک صاحب کے یہاں مولانا کے ساتھ میں بھی تھا،میں اپنے مزاج کے مطابق گفتگو کررہا ہے ایک صاحب نے مجھے ٹوکا کہ آپ کس انداز میں بات کررہے ہیں فورا مولانا نے ان سے کہا انہیں کچھ نہ کہو جو کہ رہے ہیں کہنے دو اور سنو،اس کے بعد تعلق کی نوعیت اور محبت کی وسعت ان کی سمجھ میں آئی، جب بھی حاجی صاحب کا سفر ممبئی سے شیخوپور کے لئے ہوتا اور جب تک وہ رہتے زیادہ تر وقت مولانا مرحوم کے ساتھ ہی گذرتا، اس دوران جہاں کا بھی سفر ہوتا ۔حاجی صاحب مولانا مرحوم کے رفیق سفر ہوتے،ممبئی میں جب حضرت مولانا آتے تو حاجی صاحب مرحوم کے یہاں ہی قیام ہوتا اور یہیں سے دوسرے پروگرام بنتے،آخری وقت میں جب مولانا مرحوم کی ڈائلیسیس کا مسئلہ ہوا تو ہاسپٹل سے قریب ہونے کی وجہ سے جے جے ہاسپیٹل کے قریب منتقل ہوگئے تھے، اللہ تعالیٰ نے زیارت حرمین شریفین اور حج کی عبادت سے بھی سرفراز کیا تھا اور اس شخصیت کے ساتھ جس کی عقیدت ومحبت ان کے رگ وریشے میں پیوست تھی،حج کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ واپسی کے بعد حاجی کی زندگی انقلاب آشنا ہوجائے،طرز زندگی یکسر بدل جائے،حاجی منیر احمد صاحب کا حج اس کا مکمل نمونہ تھا باطنی اصلاح کے علاوہ ظاہری ہئیت میں بھی انقلاب آچکا تھا اب چہرے پر مکمل ڈاڑھی تھی جس کے جمال کی وجہ سے آپ کا سراپا مکمل اہل علم سا ہوچکا تھا۔

شیخوپور مدرسے کی انتظامیہ کے رویوں کی وجہ سے مولانا اعجاز صاحب نے مدرسے کو خیر باد کہ دیا تھا اس کردار اور سلوک کی وجہ سے حاجی صاحب کو بہت سخت جھٹکا لگا تھا اہل مدرسہ کے کچھ اراکین کے اس ناروا سلوک سے وہ بہت افسردہ رہنے لگے تھے، اس وقت حاجی صاحب بیمار تھے اور ادارہ میں نہیں آسکے تھے جب خبر ملی کہ ادارہ اب عبقری شخصیت سے محروم ہو گیا ہے تو بڑی عاجزی سے فون پر یہ کہا کہ مدرسے میں آپ نہ رہیں لیکن شیخوپور کو اپنے قیام سے محروم نہ کریں جب تک ادھر سے راضی نہ کرلئے فون نہیں رکھا، اس کے لئے انہوں نے اپنی زمین جو پانچ بیسوا پر مشتمل تھی ہدیہ کی تھی ۔لیکن ان کے شیخوپور آنے سے قبل ہی مولانا سفر آخرت پر روانہ ہوگئے اور بہت سی خواہشات کے ساتھ یہ آرزو بھی ادھوری رہ گئی،یقینا یہ محبت ہی تھی کہ مولانا کے انتقال پر آنا فانا وہ فلائٹ سے اعظم گڈھ پہونچ گئے اور آخر تک جنازے وغیرہ میں شریک رہے۔

ایک بار راقم حاجی صاحب کے ساتھ مرول سے کرلا آرہا تھا میں نے سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ وقت کی مشہور شخصیت حضرت مولانا سجاد نعمانی کی مجلس میں کبھی آپ کی شرکت ہوئی ہے’یا نہیں؟کہنے لگے بیٹا گیا ہوں لیکن کیا بتاؤں میں متعدد روحانی مقامات پر گیا مگر طبیعت کہیں لگی نہیں اپنے مولانا مرحوم کے بعد میرا دل کسی اور کی مجلسِ درس یا وعظ میں شامل ہونے کے لئے کسی صورت آمادہ نہیں ہوتا۔ استفادہ کے اعتبار سے مذکورہ طرز احساس اور جذبات ممکن ہے غلط ہوں مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مرحوم سے تعلق اور محبت کی یہ انتہا ہے’۔
حاجی صاحب مجلسی آدمی تھے ان کے یہاں ہمیشہ دوچار لوگ ضرور موجود رہتے تھے یہ چیز انہیں والد کی زندگی سے ورثے میں ملی تھی لیکن انہوں نے جہاں عام لوگوں پر اپنی توجہات وعنایات کی بارشیں کی ہیں وہیں اس سے زیادہ طبقہ علماء سے ربط پیدا کرکے انہیں نوازا ہے’،اپنے ہمعصروں اور ساتھیوں کو ہر موقع پر جوڑے رہتے تھے اس کے لئے وہ اکثر وبیشتر دعوت وغیرہ کرکے بلاتے رہےتھے ،آج ہی مولانا عارف عمری مدنی سابق ناظم مدرسہ شیخوپور نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے وجہ سے اس بار رمضان أعظم گڈھ میں گذارا تو چھ سات افراد پر مشتمل جو ان کے احباب تھے سب کی افطاری کا نظم انہیں کی طرف سے ہوتا،مولانا عارف صاحب کابیان ہے’کہ میں شہر جاتا ایک رات گذرتی دوسرے روز حاجی صاحب کا فون آجاتا کہاں ہیں آپ جلدی آئیں اور ان کے اصرار پر مجھے آنا پڑتا،
حاجی صاحب کے اخلاق وکردار ان کے اوصاف واطوار،ان کی زندہ دلی اور ظرافت،ان کی علم اور علماء نوازی، ان غریب نوازی وانسانیت نوازی،ان کے تعلقات کی وسعت اور انہیں قائم رکھنے کے لئے ان کے اہتمام کے باعث جہاں ایک خلق ان کی رحلت سے سوگوار ہوئی ہے’،افسردہ ہوئی ہے،اہل علم صدمہ محسوس کیا ہے’، وہیں مدرسے کی موجودہ انتظامیہ خاص طورسےشدید رنج وغم سے دوچار ہے’،اس لئے کہ وہ ہر لحاظ سے مدرسہ کی تعمیر وترقی کا ایک مرکزی ستون تھے آج ان کی وفات سے یہ ستون منہدم ہوگیا۔

صبح سات بجے راقم گوونڈی سے غفران بھائی کے ہمراہ آٹو رکشہ سے مرول کے لئے روانہ ہوا چہرہ دیکھ کر طبیعت بھر آئی ساڑھے دس بجے غسل دیکر مرول قبرستان لے جایا گیا ہم نے بھی کندھا دینے کی سعادت حاصل کی،گیارہ بجے نماز جنازہ حاجی صاحب کے دوست مولانا عارف عمری نے پڑھائی اور معا بعد اس قد آور ہستی کو سپرد خاک کردیاگیا تدفین کے بعد مولانا عارف صاحب کے حکم سے میں نے دعا کرائی اور دل پر ایک بوجھ لئے مستقر پر واپس آگیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے،ان کی قبر کو انوار سے بھر دے، قبر کی تمام منزلیں اپنے فضل سے آسان کردے،آخرت میں علماء،صلحاء انبیاء وصدیقین کی معیت ورفاقت ان کا مقدر فرما آمین۔

*امام مسجد انوارشواجی نگر گوونڈی ممبئی۔
8767438283

Comments are closed.