Baseerat Online News Portal

محمدبن قاسم؛تاریخ اسلام کا درخشندہ ستارہ

تحریر:محمد شعیب رضا نظامی فیضی گورکھ پوری
ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار، گورکھ ہور یوپی
(فاتح ہند اول محمد بن قاسم کے یوم شہادت(6اپریل) کے موقع پر ایک مضمون ارسال کررہا ہوں، امید ہے کہ آپ اسے شائع فرمائیں گے۔ )
مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ ہمارے اور تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت سے اس زمینی دنیا پر اتارا گیا تو جس جگہ آپ نے پہلی بار اپنے قدم ناز کو رکھا وہ ملک ہندوستان کی”سراندیپ“ پہاڑی تھی (جو فی الحال سری لنکا میں موجود ہے) اس وقت تو کوئی مُلک ومَلِک آباد نہ تھا تن تنہا آپ کی ذات اس زمین پر موجود تھی یا پھر آپ کی زوجہ اور ہم انسانوں کی ماں حوا رضی اللہ عنہا (جدہ میں)تھیں۔ چوں کہ سری لنکا کوئی بہت بڑا ملک نہیں بلکہ ایک جزیرہ نما چھوٹا سا ملک اس لیے ہمیشہ سے وہاں ایک مستقل حکومت قائم رہی اگر چہ وہاں کا حکمراں ہندوستانی بادشاہ کے زیر تسلط رہتا مگر براے نام۔ پہلے اس جزیرے کو”سری لنکا“ کی بجائے فقط”لنکا“کہا جاتا تھا اوراہل عرب و ایران اسے”سراندیپ“ کہتے تھے۔ چوں کہ طلوع اسلام سے قبل بھی اہل عرب وایران اس جزیرہ میں تجارت کی نیت سے آیا کرتے تھے اور اسے ”جزیرہئ یاقوت“ کہا کرتے تھے، پھر جب مذہب اسلام کا ستارہ طلوع ہوا اس کے بعد بھی تجارت کا سلسلہ حسب سابق باقی رہا،مزید مسلمان یہاں حضرت آدم علیہ السلام کے مبارک قدم کے نشان کی زیارت کے لیے بھی آنے لگے، جب مذہب اسلام اپنی رعنائیوں سے دنیا کے بہت بڑے حصے کو منور کررہا تھا اور مسلمانوں کے اخلاق وکردار میں وہ جاذبیت تھی جو غیروں کو اسلام کی حقانیت تسلیم کرانے کے لیے کافی تھی تو یہ جزیرہ ان کے اخلاق وکردار اور مذہب اسلام سے متأثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا۔جبکہ وہاں اس دنیا میں حقانیت ووحدانیت کے اولیں علم بردار کی تبرکات پہلے سے ہی موجود تھے، وہاں کے لوگ بھی مذہب اسلام سے متأثر ہوگئے اور بعض نے اسلام بھی قبول کرلیا حتی کہ وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا تھا جیسا کہ عہد مغلیہ کے مشہور مؤرخ محمد قاسم نے تاریخ فرشتہ کے جلددوم میں اس بات کو درج کیا ہے۔ بہر حال وہاں مذہب اسلام کی شعائیں اولیں وقت میں ہی پہنچ چکی تھیں۔بہت سارے مسلمان عرب سے وہاں تجارت کے لیے آیا کرتے تھے اور کچھ وہیں آباد بھی ہوگئے تھے انھیں مسلمان تاجرین میں سے ایک تاجر کا انتقال ہوا اور اس کی اولاد یتیم ہوگئی، مال واسباب غیر محفوظ ہونے لگے تو وہاں کے راجہ نے از راہ شفقت ومحبت اس کے اہل خاندان کو مع مال واسباب ایک سفینے پر سوار کر عراق (جو کہ اس وقت حکومت اسلامیہ کا مرکز تھا)کے لیے روانہ کردیا (جبکہ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس بات کا بھی ذکر ملتا ہے کہ اس کشتی پر سوار عازمیں حج تھے؛ جن میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ بزرگ شامل تھے) مگر سندھ کے قریب مقام دیبل (دیول) سمندری قزاقوں نے اس سفینے کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور نہ صرف اس پر موجود مال واسباب کو لوٹا بلکہ اس پر سوار مسلم خواتین کو بھی پکڑ لیا اور ان پر ظلم وزیادتی کے خواہاں ہوئے اس وقت اسی سفینہ پر موجود قبلیہ بنی یربوع کی ایک خاتون نے خدا اور اس کے اطاعت گزار بندوں سے مدد طلب کی، اس کی آہ وفغاں، نالہ وفریاد نے نہ صرف آسمانوں کو لرزہ براندام کیا بلکہ باد صبا کے جھونکوں نے اس کی آواز کو ایک ایسے شخص کے کانوں تک پہنچا دی جس کے آہنی پنجوں سے دشمن اور دوست یکساں طور پر پناہ مانگتے تھے، جس کی تلوار عرب وعجم پر صاعقہ بن کر کوندتی تو اپنوں اور بے گانوں میں فرق بھلادیتی، جس کی تلوار اگر ظالموں کے لیے موت کا فرمان تھی تو کبھی کبھار مظلوموں اور مذہب اسلام کے درخشندہ ستاروں کو بھی خاک وخون میں لٹا دیتی،جسے دنیاے عرب وعجم حجّاج بن یوسف ثقفی کے نام سے جانتی ہے، اگر چہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جیسے شریف،نیک، متقی صحابی کا بھی قاتل تھا مگر یہ وقت اس کی زندگی کا دوسرا دور تھا جب وہ اپنے کیے ہوئے اچھے کاموں پر خوش ہوتا تو برے کاموں پر تھوڑا بہت ضرور نادم ہوتا۔ چوں کہ حجاج بن یوسف سیاسی اور ڈپلومیسی شخص تھا اس لیے اس نے پہلے سندھ کے راجہ داہرکو پیغام بھیجوایا کہ دیبل کے لٹیروں نے جن لوگوں کو پکڑ رکھا ہے ان لوگوں کو خاص کر عورتوں کو چھڑا کر سلطنت اسلامیہ میں کہیں بھیج دے، مگر راجہ داہر نے یہ جواب دیا کہ جن لٹیروں نے ان مسلمانوں کو قیدی بنایا ہے ان پر اس کی قدرت نہیں۔ جب یہ جواب ملا تو حجاج نے ابن نبہان کی سرکردگی میں ایک فوجی دستہ ڈاکوؤں کے اڈے پر دیبل بھیجا مگر ان ڈاکوؤں نے اسے قتل کردیا، بعد ازاں حجاز نے عمان کے باشندے ’بدیل‘ نامی کمانڈر کو بھیجا جس نے نہایت جاں فشانی کے ساتھ ان ڈاکوؤں سے جنگ کی، بالآخروہ بھی مارا گیا، شاید اسی لیے کہ ہندوستان کی سرحدوں کو کسی ایسے مسیحا کی تلاش تھی جو ان کے ملک میں ہورہی بدعنوانیوں کو یکسر ختم کردے کیوں کہ ہندوستان میں اس وقت اتنی ساری برائیاں رائج تھیں جنھیں بیان کرنے کے لیے ایک دیوان کی ضرورت پڑ سکتی ہے، بہ ہر حال ان کے زخموں پہ ملحم لگانے والا مسیحا تاریخ اسلام کا وہ عظیم جنگ جو بنا جس نے محض پندرہ سال کی عمر میں اس فوج کی سپہ سالاری کی تھی جس نے عراق میں کردوں کی بغاوت کا خاتمہ کیا تھا اور ایک معمولی سی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بناکر اسے فارس کی دارالحکومت بنادیا اور محض سترہ سال کی عمر میں اسی دارالحکومت کا گورنر بن بیٹھا جسے دنیاے اسلام عظیم جنگ جو،فاتح سندھ وہند ”محمد بن قاسم“کے نام سے جانتی ہے۔
محمد بن قاسم کا پورا نام عمادالدین محمد بن قاسم ثقفی تھا،عرب کے مشہور شہر طائف میں ۵۷؁ھ مطابق ۵۹۶؁ء پیدا ہوا یہ عظیم شہ سوار حجاج بن یوسف ثقفی کا بھتیجا اور قاسم جو کہ بصرہ کے گورنر تھے ان کا لڑکا تھا، باپ کے بصرہ کا والی ہونے کی وجہ سے محمد بن قاسم نے اپنا بچپن بصرہ میں گزارا، مگر جب حجاز بن یوسف نے حضرت ابوبکر صدیق کے نواسے عبداللہ بن زبیر کو قتل کیا اور خانہئ کعبہ میں ان کی مبارک لاش کو لٹکایا تو حجاج کا بھائی قاسم اس سے ناراض ہوگیا، اور بصرہ سے حجاز لوٹ گیا، کچھ دنوں بعد جب باپ کا انتقال ہوگیا تو انھوں نے ماں کی آغوش میں تربیت پائی اور عربی ماؤں کی گود میں تربیت پانے والا، مجاہد کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے، یتیم ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تو نہیں ہوپائی مگر فنون حرب میں ناقابل تسخیر مہارت حاصل کی اور کم عمری میں ہی ان اسلامی فوجوں میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ ان کی سپہ سالاری بھی حاصل کرلی، جن فوجوں نے قیصروکسریٰ کی راتوں کی نیند، اور فراعین وقت، نمرودان جہاں، شدادان زماں کاچین وسکون اڑا دی تھی؛ وہ لوگ ان اسلامی فوجوں سے ایسے ہی خوف کھاتے جیسے بکریاں شیر کو دیکھ کر، مگر انھیں اس بات کی غلط فہمی ضرور تھی اسلامی شیر بھوکے رہ سکتے تھے مگر کبھی کسی بے گناہ کو اپنا شکار نہیں بناتے لیکن اگر کوئی ان کی آن،بان اور شان ا ور ان کی عزت وآبرو پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتااور خداورسول کے بنائے ہوئے حدود کو پار کرنے کی کوشش کرتا تو پھر باب خیبر کو اکیلے بازؤں پہ اٹھا کر پھینکنے والا مرد مجاہد اسی قوم کا فرد، اور مصروشام، ایران وروما کی حکومت کو تاراج کرنے والے سپاہی اسی قوم کے ہوتے ہیں۔ شاید ان باتوں سے سندھ کا راجہ داہر آگاہ نہیں تھا ورنہ وہ اپنے پیروں پہ خود کلہاڑی کیوں مارتا؟ خیر جب کسی کی شامت آتی ہے تو وہ ایسی غلطیاں کرہی ڈالتا ہے، یہی غلطی راجہ داہر نے بھی کی، ان ڈاکوؤں پہ قدرت ہونے کے باوجود اس نے ٹالنے کے لیے کہلا بھیجا کہ اس کا ان ڈاکوؤں پر اختیار نہیں جب کہ وہ حاکم ہی کیسا جس کی رعایا پر قدرت نہ ہو، یہی بات حجاج بن یوسف کو کھٹکی تو اس نے اپنے نوجوان بھتیجے محمد بن قاسم کو سپہ سالار بنا کر سندھ کے محاذ پر بھیج دیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کی شادی ہوچکی تھی (شادی حجاج کی بیٹی زبیدہ سے ہوئی تھی یا پھر ایک روایت کے مطابق قبیلہ بنو تمیم کی ایک لڑکی سے ہوئی تھی) اور جس وقت محمد بن قاسم کو اپنی شریک حیات کے ساتھ زندگی کے لطف اٹھانے چاہیے تھے، اس وقت وہ ہندوستان جیسی بڑی ریاست کے جنگی محاذ پر تھے، یہ ان کے عزم واستقلال: تبلیغ اسلام کے جذبے اور مسلمانوں، مظلوموں کے تئیں ہم دردی کو بخوبی واضح کرتا ہے۔ بہ ہر حال محمد بن قاسم نے سندھ کا رخ کیا اور معمولی مزاحمت کے بعد چھوٹے چھوٹے قصبوں کو فتح کرنا شروع کیا، اور پھر راوڑ کے میدان میں برصغیر کی تاریخ کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں اگر ایک طرف راجہ داہر کے ساتھ دیگر ریاستوں کے حکمراں اور ان کی فوجیں شامل تھیں تودوسری طرف سترہ سال کا کم سن مرد مجاہد۔ اور اس نوجوان مرد مجاہد نے ان راجاؤں کو ایسی عبرت ناک شکست دی کہ ان کے ساٹھ ہزار جنگ جو، اسیر بن گئے، لاتعداد مارے گئے، پوری فوج تتر بتر ہوگئی، خود راجہ داہر بھی مارا گیا۔ اسی فتح نے ہندوستان کی سرحدوں میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
یہ تو محمد بن قاسم کی شجاعت وبہادری، جنگ جوئی اور سپہ سالاری کی داستان تھی مگر اس عظیم فتح کے بعد دنیا نے محمد بن قاسم کے اخلاق وکردار کے پس پردہ دل میں خداورسول کی سچی محبت بسانے والے ایک صاحب ایمان کی مروت، محبت، شفقت اورحسن اخلاق کی جھلکیاں مسلسل ساڑھے تین سال تک دیکھی۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے نوجوانی کے باوجود پورے سندھ میں امن وامان قائم کیا برسوں سے شخصی حکمرانی کے شکار عام آدمی کو اسلامی سلطنت کے زیر سایہ مساوی درجہ دیا۔ مملکت کے انتظامات بہتر بنائے اور نظام انصاف قائم کیا۔ محاصل کی وصولی کے قواعد آسان اور اتنے بہترین تھے کہ مسلمانوں سے آراضی پر عشر لگان اور غیر مسلم راجاؤں سے خراج نیز مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں سے وصول شدہ جزیہ ملک میں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا، جن کا شت کاروں کی پیداوار کم تھی انھیں سرکاری لگان کی معافی دی جاتی۔ بلا شبہ باغیوں کی سرکوبی کی گئی لیکن عام آدمیوں عورتوں اوربچوں کو زندگی گزارنے کے اتنے ہی مواقع میسر تھے جتنے کسی فاتح مسلمان کو دست یاب تھے۔ بزرگوں اور پرامن شہریوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ احترام آدمیت کے یہ مناظر اہل سندھ کو محمد بن قاسم کا گرویدہ کر گئے، انتہائی کم عمر محمد بن قاسم کے یہ اقدامات مقامی باشندوں کے لیے چونکا دینے والے تھے۔ انتہائی کم عمری کے باوجود محمد بن قاسم نے چھوت چھات اور شورد،برہمن سماج کے شکار سندھ میں پس ماندہ اورپست برادریوں کو اسلامی عقائد کے مطابق مساوی اہمیت دے کر آگے لانے کی سعی نے انھیں مقامی باشندوں کا ہیرو بنادیا۔ جو انھیں فرماں روا سے زیادہ اپنا بھائی بزرگ اور خاندان کا سربراہ بلکہ مسیحا سمجھنے لگے تھے۔ان کی شخصیت، حسن اخلاق ومروت اورمحبت سے متعلق فتوح البلدان کے مصنف بلاذری لکھتے ہیں ……
’’محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی۔ ان کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ ان کی زباں شیریں اور چہرہ ہنس مکھ تھا۔ وہ ایک باہمت، بامروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ہر شخص سے محبت سے پیش آتے اور ان کے ماتحت ان کی حد درجہ عزت و احترام کرتے تھے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے۔ انہوں نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور ان کا ہر قدم کامیابی کی راہیں تلاش کرتا تھا۔ ان کی بلند خیالی اور مستحکم ارادے ان کی کامیابی کی دلیل تھے۔
افسوس! کہ ہندوستان کی سرحدوں کو اپنی خداداد جنگی صلاحیتوں سے مسخر کرنے والا، سندھ کی وادیوں کو اپنے حسن اخلاق اور عادلانہ کردار سے جنت بنانے والا عظیم شہ سوار، بہترین جنگ جو،انسان وانسانیت کا محسن کچھ نااہلوں کی آپسی رنجش، ذاتی عداوت ودشمنی کا شکار بن گیا، چنانچہ ا موی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہو گیا کیونکہ ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشین مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ حجاج کا انتقال اگرچہ اس کی خلافت کے آغاز سے قبل ہی ہو گیا لیکن اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں عتاب کا نشانہ بنایا اوریزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب گرفتاری کا پتہ چلا تو انھوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم آپ کو اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لیے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے، لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لیے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن انھوں نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کر دیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انھیں واسط کے زندان میں قید کروادیا۔ ۷ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن انھوں نے جنگی صلاحیتوں، جرأت اور حسن تدبر و اخلاق کے باعث ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ تاریخ میں آب زرسے لکھے گئے۔آپ کی کم عمری، اس میں اتنی کامیابی، اور پھر خلیفہ کی ذاتی دشمنی میں اتنا برا انجام اور جوانی میں ہی موت کو دیکھ کر معروف ناول نگار محترم جناب نسیم حجازی صاحب نے صحیح تبصرہ فرمایا کہ:”محمد بن قاسم اسلامی تاریخ کا وہ آفتاب ہے جو عرب کے افق سے نمودار ہوا، سندھ کے آسمان پر چمکا اور عین دوپہر کے وقت غروب ہوگیا“۔
ابررحمت ان کے مرقد پہ گہرباری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
محمد بن قاسم کی موت سے دنیاے اسلام کو یقینانقصان عظیم پہنچا اور جس سندھ میں آپ نے تقریبا چار سال رہ کر یہاں کا نظام حکومت انتہائی کام یابی سے چلایا تھا، آپ کے انتقال اور معا بعد یزید بن کبشہ کے انتقال کے بعدنئے گورنر کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات سندھ میں بدنظمی کی صورت میں نظر آنے لگے اور پھر کوئی مستقل حکومت اسلامیہ قائم نہ رہ سکی!۔

Comments are closed.