Baseerat Online News Portal

"محمد علی جوہر یونیورسٹی” کا درد …

 

نور اللہ نور

میں چند پتھروں سے بنا ایک بے جان تحصیل علم کا سائباں ہوں جس کی چھاؤں میں ہزاروں تشنہ لب لوگ سیرابی حاصل کرتے ہیں ، میں تو ایک کتاب و قلم کا دبستان ہوں جہاں معلومات و تحقیقات کی کلیاں چٹکتی ہیں، میری حیثیت تو ایک چراغ کی سی ہے جس کی روشنی میں منزل کی جستجو آسان ہوتی ہے ، میں ارض وطن کے نو دمیدہ گلوں کی آبیاری کرنے والا مالی اور باغباں ہوں.
تو پھر میں ان لوگوں کی آنکھوں کا تنکا کیوں ہوں ؟ میرا وجود ان کی طبیعت پر بار کیوں گزر رہا ہے ، میری ذات سے ان کو کس بات کا عناد ہے ، میرے شاداب باغ و بہار ان کی نظر میں کیوں کھٹک رہے ہیں ؟

تشنہ لب کو آسودہ کرنا جرم تو نہیں ہے ، علم کی ضیا پاشی گناہ تو نہیں ہے ، ملک کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا پاپ تو نہیں ہے پھر مجھ سے ان کو کیا دشمنی ہے ، یہ میرے انہدام کے درپے کیوں ہیں؟
میں تو ملک کی آبیاری میں برابر کا شریک ہوں ، ملک کی تعمیر و ترقی میں میں نے ناقابل فراموش قربانی پیش کی ہے اور اپنی آغوش میں بلا تفریق ملت ملک کے نو نہالوں کی شخصیت سازی کی ہے تو پھر بھلا میرا قصور کیا ہے؟
ہاں! میرا قصور بس یہ ہیکہ میری پیشانی پر اردو میں میرا نمایاں نام لکھا ہوا ہے ، میرے اس کارواں کا امیر مسلم نام کا ہے ، اس باغ کا مالی ایک اردو نام والا ہے، میرے پروانوں میں ٹوپی پوش کی تعدا زیادہ ہے میں نے ناخواندگی کی دور کرکے ناخواندہ لوگوں کو ناراض کیا ہے.
ہاں! میرا جرم یہ ہیکہ میں نے تحقیق و ریسرچ کو فروغ دے کر ان کے فریب کے دھندے کو ماند کر دیا ہے ، ہاں میں اس گناہ کا مرتکب ہوں کہ میں پسماندہ ، اور گرے ہوئے لوگوں کو جینے کا ہنر سکھایا ہے اور مجرموں اور قزاقوں سے لڑنے کا حوصلہ دیا ہے.
میں اپنے فنا ہونے سے خائف نہیں، مجھے اپنے مسمار ہونے کا غم نہیں کیوں کہ میں نے اپنی حصہ کی ضوفشانی کردی ہے ، میں نے اپنے حصہ کا دیا روشن کردیا ہے ، میں نے اپنے فریضے کی تکمیل بحسن وخوبی انجام دے دی ہے مجھے اپنے مٹتے وجود کا ملال نہیں.
بس رنج اس بات کا یہ ہیکہ یہ تعلیم سے عاری لوگ آج میری ذات کے دشمن ہیں ، میرے وجود سے خائف ہیں اور انہدام کے درپے ہیں اگر انہیں نہیں روکا گیا تو کل کسی اور ادارے پر دست درازی کریں گے، رفتہ رفتہ تعلیمی نظام پر ہی ڈاکہ ڈالیں گے اور یوں پورے ملک کو جہالت کے گڑھے میں ڈال کر اپنی روٹیاں سینکیں گے.
اس کے بعد آنے والی نسل غلام، نا خواندہ ، درماندہ ہوگی، جہالت کی مہیب سائے میں ان کی زندگی بسر ہوگی اور پھر ان کا وجود ہمیشہ کے لیے چند لوگوں کا مطیع اور غلام بن جائے گا.
اس لئے میری ہر اہل دانش سے منت و سماجت ہے کہ وہ ارباب اقتدار کے اس مذموم فعل پر قدغن لگائے ، تعلیمی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنائے ، ملک میں تعلیم و تربیت کی ایک فضا قائم کرے تاکہ اچھے لوگ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے اگر ہم نے اس مسئلہ پر غور نہیں کیا مذہب و ملت کی بندش سے اوپر اٹھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار نہیں کیا تو اس گناہ میں کرنے والے کے ہم بھی ہمدوش ہونگے اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی.

Comments are closed.