Baseerat Online News Portal

مدارس اسلامیہ اور زکوٰۃ و صدقات

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
مدرسہ پڑھنے، پڑھانے کی جگہ کو کہتے ہیں، ایران و ہندوستان و پاکستان میں عموماً لوگ دینی کتب و رسائل اور بالغوں کے پڑھنے کی جگہ کو مدرسہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
دور حاضر کے دینی مدارس اور موجودہ زمانہ کی درسگاہوں کی مثال عہد نبوت علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں اصحاب صفہ کی زندگی ہے۔۔۔۔
ہندوستان کے دینی مدارس۔۔۔۔۔ جن کی بنیاد اسلامی حکومت کے ختم ہونے کے بعد عوامی چندوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ بالکل نئی نوعیت کے حامل ہیں، یہ دینی مدارس اپنے مقصد تاسیس اور مقاصد عظمی کے لحاظ سے اسلام کے تحفظ کے قلعے اور دعوت و تبلیغ کے مراکز ہیں، طریق کار کے لحاظ سے یہ دینی اور مذہبی تعلیم گاہ ہیں۔ مولانا علی میاں ندوی رح مدارس دینیہ کو پاور ہاوس سے تعبیر کرتے تھے۔ دین کی جو بہاریں آج نظر آرہی ہیں وہ ان دینی مدارس و مراکز کی برکات ہیں۔ حکومتی تعاون سے الگ تھلگ اپنے مزاج و مذاق کے مطابق خاموشی سے اپنے کام میں یہ ادارے مگن ہیں۔ مدارس کی نشاتِ ثانیہ کا آغاز اب سے ایک سو بیالس سال قبل ہوا اور ہندوستان میں دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم شاہی مرادآباد اور پھر بعد میں ندوہ العلماء اور دیگر ادارے قائم ہوئے۔ اس دور سے آج تک یہ مدارس بڑے بڑے بحرانوں سے دوچار رہے۔ مگر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے غیروں کی بے پناہ سازشوں کے باوجود اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ ارباب مدارس اور علماء کرام کی مساعی اپنی جگہ اہم ہیں۔ لیکن اصحاب خیر مسلمانوں کا تعاون بھی انتہائی قابلِ رشک ہے۔
چند سالوں سے بعض لوگ دینی مدارس کو زکوٰۃ سے اعانت کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں، حکومت وقت تو چاہتی ہی ہے کہ یہ مدارس بند ہوجائیں تاکہ اسلامی تشخصات اور مسلمانوں کی مذھبی شناخت کو مٹانے میں کوئی دشواری نہ آئے، غور کیجئے کہ ایک تو مسلمان پوری طرح زکوٰۃ نہیں نکالتے چہ جائیکہ بڑے پیمانے پر ان سے عطیات و امداد کی توقع رکھی جائے۔ اگر زکوٰۃ کا دروازہ بھی ان مدارس کے لیے بند کر دیا جائے تو کیا دین کے یہ قلعے اور پاور ہاؤس محفوظ رہ سکیں گے اور اس طرح مدارس کو زکوٰۃ نہ دینے کی بات بالواسطہ طریقہ پر حکومت کے معاندانہ مشن کی خاموش تکمیل نہ ہوگی؟
جو لوگ مدارس اسلامیہ کو زکوٰۃ دینے پر اعتراض کر رہے ہیں اور ان کے زعم میں یہ مدارس وہ ہیں جہاں نوجوانوں کو مفلوج بنایا جاتا ہے ان سے درخواست ہے کہ حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنے آئینہ کے منفی شیشیوں کو بدلوائیں اور غیر ذمہ دارانہ رویہ سے بچیں۔
اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف کہ کیا دینی مدارس زکوٰۃ کا استحقاق نہیں رکھتے ؟ تو اس سلسلے میں چند معروضات ہیں جنھیں ہم پیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کن رعایتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے؟ کیا یہ مقصد دینی مدارس کو زکوٰۃ دینے سے حاصل ہوجاتا ہے؟
قرآن مجید نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے ہیں اور یہ اتنا حتمی اور قطعی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ میں نبی وقت کو بھی کوئی اختیار نہیں دیا کہ اس میں کمی بیشی کریں۔
ان مصارف کی تفصیلات سورہ توبہ آیت نمر ساٹھ میں موجود ہے۔ ان آٹھ مصارف میں پانچ وہ ہیں جن کا مقصد غرباء اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے، فقیر و مسکین سے مراد عام محتاج ہیں۔ غلام، مقروض اور مسافر سے مخصوص نوعیت کے اور وقتی طور پر پریشان حال لوگوں کی حاجت برآری ہے۔ مولفت قلوب اور مجاھد فی سبیل اللہ کی رعایت کا مقصد اور منشاء اسلام کی سربلندی اور اعلاءِ کلمت ہے۔ عاملین کی مد زکوٰۃ سے متعلق انتظامی امور کی انجام دہی اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے لیے ہے۔ غرض ان مصارف زکوٰۃ پر نظر ڈالنے اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کے زکوٰۃ کے اصل بنیادی مقاصد دو ہیں، غرباء اور محتاجوں کی حاجت پوری کرنا۔ اسلام کی بلندی اور اس کی دعوت و اشاعت اور حفاظت و صیانت کے سسٹم اور نظام کو تقویت پہنچانا۔ زکوٰۃ کے ان مصارف پر غور کرنے اور اس کی روح کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے نظام پر اور اس کے کردار پر نظر رکھنے سے یہ بات بالکل، واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ کے یہ دونوں مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔
لیکن دینی مدارس میں زکوٰۃ دینے کے بعد اب ارباب مدارس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حساب و کتاب کی شفافیت پر پوری توجہ دیں، ہر مد کی رقم اسی مد میں خرچ کریں، اخراجات کا صحیح طور پر اصول کے مطابق اندارج ہو، حسابات کو آڈٹ کروائیں( تاکہ وقت ضرورت حکومت کو دکھا سکیں اپنی آمد و خرچ کی تفصیلات سے باخبر کرسکیں)۔ اور مجلس انتظامی میں پیش کرکے اس کی توثیق کریں، مدرسہ کے معاونین اور چندہ دہندگان کو اس بات کا حق دیں کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے اطمنان کے لیے حسابات دیکھیں اور تشفی حاصل کرین۔ ادارے کا نظام شخصی نہیں شورائی بنائیں۔ اس لیے کہ شورائی نظام میں بدگمانی کا موقع کم ملتا ہے۔ شورائی نظام کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ضروری مسائل پر بحث ہوتی ہے، اس سے معاملہ سے متعلق حسن و قبح کے تمام پہلو سامنے آتے ہیں، اور صحیح رائے قائم کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ شوری میں بہت زیادہ ہندی چندی کرنے والوں کو نہ شامل کریں، کیونکہ پھر اختلافات زیادہ سامنے آتے ہیں۔ متدین لوگ،صاحب بصیرت اور مدارس کے خیال و ہم فکر لوگوں کو شامل کریں۔ نیز شوری کو صرف رسمی نہ رکھیں بلکہ اس کو احتساب بیرو کا درجہ دیں۔
برصغیر ہند و پاک کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے کہ یہ خطہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے اسلامی تحریکات کا مرکز رہا اور ان تمام تحریکوں کو انہیں مدارس اسلامیہ سے خون جگر ملا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بھی سازشیں رچی گئیں اور جو بھی فتنے اٹھے، چاہے وہ فتنہ قادیانیت کا ہو یا انکار حدیث کا فتنہ ہو یا پھر مسئلہ نیچیرت اور الحاد کا ہو۔ ان کو دبانے اور ختم کرنے میں جو اور جتنی کوششیں ہوئیں، وہ انہیں مدارس کے ذریعہ انجام پایا۔آپ ہی بتائیے سو سوا سال سے ہندوستان میں جتنی مذہبی تحریکات اٹھی ہیں ان کی رگوں میں خون جگر کن کا دوڑ رہا ہے اور ان کا اصل معدن سرچشمہ اور منبع کون ہے؟ آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ مدارس ہی ہیں جنھوں نے جماعتوں کو اچھے داعی اور مبلغ و ترجمان فراہم کیے ہیں۔ علمی دنیا کو اعلیٰ تصانیف اور لٹریچر فراہم کیے ہیں۔ گاؤں گاؤں مسلمانوں کو امام و خطیب فراہم کئے ہیں۔ جن کا عام مسلمانوں کو اسلام سے جوڑے رکھنے میں نمایاں کردار ہے۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان مدراس ہی سے اسلامی زندگی کی رمق مسلم معاشرے میں باقی ہے۔ دین کے تمام شعبوں کو یہاں سے غذا ملتی ہے اور اسلام کے ہر کاز کو قوت بہم پہنچتی ہے۔
ہندوستان میں جب مغلیہ حکومت کا زوال شروع ہوا اس کی چراغیں مدھم ہونے لگیں اور مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریز نہایت چالاکی سے یہاں کی حکومت پر قابض ہوگئے تو انہوں نے برادران وطن کے مقابلے میں مسلمانوں کو زیادہ فکری یورشوں کا نشانہ بنایا ۔ نہایت ہی قوت کے ساتھ ملک کے گوشہ گوشہ چپہ چپہ میں عیسائی مشنریز کو بھیجا اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ ساتھ ہی انگریزوں نے ہندوستان میں ایک نیا تعلیمی نظام برپا کیا ، جس کا مقصد ہندستانیوں کو مغرب زدہ بنانا تھا اور انکو احساس کمتری میں مبتلا کرنا تھا اور اپنی حکومت کے لیے اپنے من اور پسند کا افراد تیار کرنا تھا۔ برادران وطن کے لیے یہ مسئلہ اتنا تشویش ناک نہیں تھا، کیونکہ ہندو مذہب کی بنیاد کسی متعین فکر و عقیدہ، پر نہیں ہے۔ انگریز تن کے گورے من کے کالے یہ چاہتے تھے کہ مسلمان کسی طرح بے ضمیر ہوجائیں اور اپنے ایمان کا سودا کرلیں۔ ایسے نازک موقع پر جب علماء نے محسوس کیا کہ اب اقتدار اور حکومت تو ان سے چھن گئی ہے،اب مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی تدبیر کیسے کریں تو اس کے لیے ملک کے گوشہ گوشہ میں مدارس اسلامیہ کا جال بچھایا گیا۔ جن مدارس کا آج فیض ہے کہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا وجود باقی ہے۔ مدراس اسلامیہ کی تاسیس کا مقصد روز اول ہی سے ظاہر ہونے لگا اور ان کی افادیت اور مفید نتائج سامنے آنے لگے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدراس کے کردار کو مزید واضح اور واشگاف کیا جائے۔ کیا یہ مدارس کا فیض نہیں ہے کہ لاکھوں ہندستانی شہریوں کو یہ مدارس با عزت روز گار فراہم کرتے ہیں، جو بہت بڑا تعمیری کام ہے۔ لاکھوں غریب اور یتیم بچوں کو جو ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں ان کی معاشی کفالت کرتے ہیں اور ان کو زیور علم سے آراستہ کرتے ہیں۔ یہ بچے وہ ہوتے ہیں جو خط افلاس کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ اگر یہ مدارس ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتطام نہ کریں تو ان کی غالب اکثریت چائلڈ لیبر کی حیثیت سے مختلف دکانوں اور ہوٹلوں میں معمولی کام کرکے برتن صاف کرکے اپنا پیٹ بھرے گی۔ اور باعزت اور روش مستقبل بھی ان کے لیے دشوار ہوگا۔
مدارس ہی کا فیض ہے کہ اس وقت یونیورسٹیوں، میں مشرقی علوم وفنون عربی فارسی اردو کے جو شعبے قائم ہیں ان میں زیادہ تر دینی مدارس کے فیض یافتہ اساتذہ اور طلبہ ہوتے ہیں جو اس شعبے کی آبرو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ قومی اور آسمانی آفات کے وقت راحت کے کاموں میں اور حکومت کے متعصبانہ کارروائی میں پھنسے نوجوانوں کی رہائی میں بلکہ تمام سماجی کاموں میں جو جماعتیں آگے آگے ہیں وہ علماء کی ہی جماعتیں و انجمنیں ہیں۔ میں صرف ٹیھٹھ مدرس ہوں اس لاک ڈاؤن میں ہم نے سینکڑوں لوگوں کی خدمت کی اور لاکھوں میں رقم تقسیم کی ہے جس میں ہمارے چند مخلص اور کرما فرما کا خاص تعاون رہا ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مدارس کا ہی فیض ہے کہ یہاں اسپین کی تاریخ اب تک نہیں دھرائی جاسکی ہے۔ اور مذہبی غیرت و حمیت اور اسلامی شعار کا اہتمام جس قدر اس خطہ میں پایا جاتا ہے اس میں دوسرے عربی ممالک ہمسری نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم بلا کسی خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی حفاظت و بقا اس کی دعوت و اشاعت اور اس کی سربلندی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مدارس ہیں ان کی بقا ہماری بقا ہے۔
اس لیے فقہاء کرام اور ارباب افتاء نے بہت ذمہ داری سمجھ کر یہ فتویٰ دیا اور خوب سوچ سمجھ کر یہ ترغیب دی کہ ضرورت مند علماء اور طالبان علوم نبوت پر زکوٰۃ کی رقم صرف کی جایے اور اس کو باعثِ فضیلت بتایا۔ مشہور محدث اور امام عبد اللہ بن مبارک رح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی امداد اور اعانتیں علماء پر ہی صرف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں۔
مشہور فقیہ، علامہ حصکفی رح نے لکھا ہے جو شخص اپنے آپ کو علم کے لیے فارغ کرلے اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے۔ ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ محتاج عالم یا عابد و زاہد پر صدقہ کرنا افضل ہے۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان کو فقہاء کی طبع زاد بات سمجھ لیں بلکہ قرآن مجید سے ہی ماخوذ و مستفاد ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیماھم لا یسئلون الناس الحافا وما تنفقوا من خیر فان اللہ بہ علیم۔(صدقات میں) اصل حق ان حاجت مندوں کا ہے جو اللہ کی راہ میں گھر گئے ہیں۔ ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے۔ ناواقف انہیں غنی و مالدار خیال کرتا ہے، سو ان سے ان کی احتیاط کے باعث۔ تو انہیں ان کے چہرہ کے نقوش سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ تعالی اس کا خوب جاننے والا ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ علماء جو محتاج اور ضرورت مند ہیں، دین کے کام کی وجہ سے کسب معاش کے لیے انہیں فرصت نہیں ملتی، ان کی صدقات اور زکوۃ سے اعانت کی جاسکتی ہے ، بلکہ وہ اس کے زیادہ مستحق ہیں، جمہور مفسرین کا موقف اور رجحان یہی ہے کہ جس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی اس وقت اس سے اشارہ اصحاب صفہ یعنی مدرسہ صفہ میں مقیم طلبہ کی طرف تھا (تفسیر کبیر /تفسیر قرطبی بحوالہ دینی و عصری تعلیم مسائل اور حل) جو طلبہ صفہ میں مقیم تھے اہل مدینہ ان کے کھانے کا نظم کرتے تھے اور ان کو اپنا اور اپنے رسول کا مہمان سمجھ کر ان کے ساتھ خوب اکرام و اعزاز کا معاملہ فرماتے تھے۔ اقامتی ادارہ صفہ میں ان طالبان علوم نبوت کے کھانے پینے کا نظم دو طرح سے ہوتا تھا۔ پہلا یہ کہ خود صفہ میں ٹفن پہنچا دیا جاتا تھا، یعنی ان کے کھانے کی چیزیں پہنچا دی جاتی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کچھ لوگ طلبہ کو اپنے گھر لے جاتے اور ان کو کھانا کھلاتے۔ ایک موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کے کھانے ہوں وہ اپنے ساتھ تیسرے مہمان کو لے جائے ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ بعض طلبہ کو لے گئے جن کی تعداد دس بتاتی جاتی ہے۔ (مسند احمد۱/ ١٩٧) حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا مکان اہل صفہ کے لیے سب سے بڑا مہمان خانہ تھا۔ سعد بن عبادہ تقریباً ہر رات اسی طلبہ کو اپنے یہاں رات کا کھانا کھلاتے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اقامتی درسگاہ صفہ میں عموماً طلبہ کی تعداد اسی ہوتی تھی۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ٢٠٠)احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صفہ کی مطبخ کی نگرانی آپ خود فرماتے یا کسی کو اس کا چارج دیتے تھے اور کھانے کے معیار پر بھی نظر رکھتے تھے۔ ایک بار آپ تشریف لائے آپ نے وہاں طلباء صفہ کے لیے کجھور کا خوشہ دیکھا جو ستون سے لٹکا ہوا تھا اور اس کا معیار اور اس کی کوائلٹی اچھی نہ تھی، آپ نے لاٹھی سے اس خوشہ کو مارا اور فرمایا کہ اگر یہ شخص چاہتا تو اس سے بہتر کھجور بھی دے سکتا تھا، آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا قیامت میں یہ بھی ایسا ہی معمولی کھجور کھائے گا۔ (ابو داود شریف حدیث نمبر ١٦٠٨)
صفہ کے طلبہ پر اہل مدینہ جو خرچ کرتے تھے وہ عطیہ امداد اور ہدیہ بھی ہوتا تھا اور زکوۃ و صدقات کی کھجور اور کھانا،بھی پیش کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے ہدایت کرتے تھے، اور صحابہ کو اس جانب متوجہ کرتے تھے۔ گویا صفہ کی مالی فراہمی کے ہیڈ نگران بھی آپ ہی تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ اصحاب صفہ سارے کے سارے محتاج اور تنگ دست تھے اور ان پر ان کے فقر اور محتاج ہونے کی بنیاد پر زکوۃ کی رقم صرف کی جاتی تھی ۔ بعض علماء نے ان کو فی سبیل اللہ کا مصرف بھی قرار دیا ہے۔
الغرض، اقامتی مدارس میں مقیم غریب و نادار طلبہ پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس میں دوہرا اجر ہے، کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی بھی ہوتی ہے اور دین کی خدمت بھی۔ تقریباً تمام ہی علماء کا اتفاق ہے کہ محتاج اور ضرورت مند علماء، علوم دینیہ کے طلبہ۔ صوفیہ اور دینی کام کرنے والوں کی زکوۃ سے مدد کرنا زیادہ باعث ثواب ہے۔ اب چاہے مدارس اسلامیہ میں محتاج طلبہ کو ان کے فقر و محتاجگی کی بنیاد پر زکوۃ کی رقم دی جائے یا ہندوستان اور برصغیر کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ضرورت کے پیش نظر فی سبیل اللہ کے مفہوم میں وسعت دے کر اس مد میں ان کو شامل کیا جائے وہ زکوۃ کے حقدار ہیں۔ لہذا تمام مسلمانوں کو مدراس کی اہمیت اور اسلام کے تحفظ و بقا میں ان کے تاریخی کردار کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے اور انہیں ہر طرح سے جانی، مالی، قانونی اور اخلاقی مدد کے ذریعہ قوت پہچانی چاہیے۔ افسوس کہ بہت سے لوگ حتی کے مدراس کے فارغ بعض علماء اور اہل علم بھی دینی تعلیم اور دینی مدارس کی اہمیت و وقعت کو کم کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ بعض اہل علم کی طرف سےاور بعض دیگر حلقے سے اس طرح کی باتیں بھی آرہی ہیں کہ زکوۃ مدارس کے بجائے صرف سماج کے غرباء پر خرچ کی جانی چاہیے۔ بعض کی رائے ہے کہ حکومت کے سرکاری ایڈ کو اہل مدارس کو قبول کرلینا چاہیے ، یا مدارس کو بھی سرکار کی تحویل میں دے دینا چاہیے۔ بہار اور جھارکھنڈ کے سرکاری مدارس کی کیا درگت ہے اور کیا مذاق بنا ہوا ہے سب اس سے واقف ہین ۔ انجام کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت مدارس کی آمدنی روکنے کے پیچھے پوری سازش رچی جا رہی ہے۔ اس کی مالی حالت کو غیر مستحکم کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایسے میں بعض سادہ لوح تو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ انگریزی اخبار زکوۃ کے پیسے سے نکالے جائیں ۔ اپنا میڈیا ہو اس میں زکوۃ کی رقم لگائ جائے اور کچھ دنوں کے لیے مدارس بند کر دئیے جائیں۔ نہ جانے اور کیا گیا مشورے سامنے آرہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ دشمنوں کے ارادے اور منصوبے کو سمجھیں اور لاک ڈاؤن کے بہانے کیا پلانگ اور گیم ہے اس کو سمجھیں یہ وقت اس بحث کا ہے ہی نہیں کہ مدارس میں زکوۃ دی جائے یا نہیں؟ اس موضوع پر ان جیسے حالات میں بحث کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟ میں اس کے لیے تیار نہیں تھا لیکن ساتھیوں کا اصرار تھا کہ کچھ لکھوں۔
لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ مدارس، اسلام کی حفاظت و اشاعت کا کام کریں، اور دین و ایمان کو اگلی نسل تک پہنچائیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دولت کا ایک حصہ اس کے لیے صرف کریں اور پوری بلند حوصلگی اور فراخدلی کے ساتھ ان مدارس کے تعاون کے لیے آگے بڑھیں دامے درمے سخنے اور قدمے اس کی اعانت کریں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میںنوٹ طلبہ اور علماء زکوۃ کی رقم لے سکتے ہیں یا نہیں؟اس موضوع پر احقر نے زکوٰۃ کا ایک مصرف فی سبیل اللہ۔ میں تفصیل سے لکھا ہے ہم اسے بعد میں پیش کریں گے جس میں بہت کچھ تفصیلات اور حقائق ہیں ۔

Comments are closed.