Baseerat Online News Portal

مدارس اسلامیہ میں عصری تعلیم

 

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی961102134

حال ہی میں جمعیۃ علماء ہند کی جنرل باڈی میٹنگ میں یہ تجویز پاس کی گئی ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بارہویں تک عصری تعلیم کا بندو بست ہونا چاہیے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری زید مجدہم نے اس بات کی وضاحت کی کہ:اب تک مدارس اسلامیہ میں پرائمری سطح تک عصری تعلیم دی جارہی تھی،لیکن وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے ،اب ہم نے اہل مدارس کو یہ مشورہ دیاہے کہ وہ مدرسوں میں بارہویں تک کی عصری تعلیم کا بندوست کریں۔ان کے خیال کے مطابق مدارس اپنے اپنے طور پر بورڈ سے منظوی کا بندوست کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ ارباب جمعیۃ علماء ہند کی یہ تجویز امت کے حق میں بہت ہی خوش آئند اقدام ہے اس تاریخی اقدام سے جہاں مدارس کے طلبہ میں پہلے سے زیادہ حوصلہ،جرأت اور خود اعتمادی کے جذبات پروان چڑھیں گے، وہیں شرپسندوں کے لئے مدارس میں مداخلت کی راہیں بھی مشکل ہوجائیں گی۔نیز مدارس کے طلبہ دینی و روحانی ماحول میں رہتے ہوئے عصری تعلیم سے آراستہ ہوسکیں گے اوراس کے ذریعہ وہ میدان عمل میں مزید کھل کر اور باہمت طریقے سے کام کرسکیں گے۔
اس سے پہلے یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ دینی مدارس کے نظام و نصاب میں عصری تعلیم کو شامل کرلینا ایک ضرورت کی چیز ہے ۔اس عنوان پر مختلف اصحاب رائے اور اہل دانش نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار اس خلوص اور دلسوزی کے ساتھ کیاکہ :اس بحث سے کئی مفید پہلو سامنے آ چکے ہیں، جب کہ اس پر ابھی مزید غوروخوض کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ رہاہے کہ ہم نے ابھی تک مدارس میں عصری تعلیم کو لے کر زیادہ تر باہر کی آواز کو سنا ہے اور کئی دفعہ ضرورت سے زیادہ اس کی تردید بھی کی گئی ہے،حالانکہ ہمیں اندر کی آوازسننے کی زیادہ ضرورت تھی اور اس بحث میں مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی شریک کرنا چاہیے تھا۔
مدارس کے طلبہ کا جائزہ لینے سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کے احوال مختلف ہیں،ان میں سے بعض طلبہ تو صرف وقت گذاری کے لئے مدارس میں ہوتے ہیں،جنہیں والدین یا گھر کے کسی بڑے نے زبردستی مدرسہ میں داخل کرایاہوتاہے۔ایسے طلبہ کو نہ تو مدارس کے نصاب سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اورنہ ہی جدید علوم سے کوئی لگاؤ،البتہ ایسے طلبہ زیادہ تر جدید علوم کو دینی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں۔
مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی دوسری قسم وہ ہے جو دینی ودنیوی دونوں تعلیم کی شوقین اوردونوں قسم کے علوم کو حاصل کرنے کی خواہشمند ہے یہ طلبہ محنت بھی کرتے ہیں مگر ان کی ذہنی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ دونوں تعلیم کا بوجھ اٹھاسکیں،نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جدید علوم حاصل کرنے کی فکر میں ان کی دینی تعلیم کا بھی نقصان ہوجاتاہے۔
مدارس کے طلبہ میں ایک بڑی تعداد ان طلبہ کی بھی رہتی ہے جو صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں،اورجدید علوم کے متعلق بات کرنے کو بھی اخلاص کے منافی سمجھتے ہیں۔اس طرح کے طلبہ کو کئی مرتبہ عصری علوم حاصل کرنے والے طلبہ پر دل کھول کر طعن و تشنیع کرتے دیکھاگیاہے۔جب کہ مدارس کے بعض طلبہ دینی و عصری دونوں علوم حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اوردونوں کو ایک ساتھ حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں؛مگر مدارس کے قدیم روایتی نظام کی وجہ سے یا مدرسہ کی بعض پابندیوں کی وجہ سے جدید علوم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں۔
طلبہ کے ان حالات کو سامنے رکھ کر دینی وعصری علوم کے امتزاج سے ایک بڑاخدشہ یہ نظرآتاہے کہ اس طرح دینی علوم میں کمزوری آجائے گی اوراس کی طرف توجہ میں کمی واقع ہوگی حالانکہ اس خدشہ کو دورکرنا اوراس سے خلاصی حاصل کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے،اس معنی کر کہ جو طلبہ عصری علوم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں ان کو دینی علوم میں اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کرنا شرط قراردے دیاجائے۔اورپھر جو طلبہ مذکورہ شرائط پر پورے اتریں ان کو علوم عصریہ حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ ان کا ہر ممکن تعاون کیا جائے -ان کے لئے کلاسیں اورجدید وسائل کا انتظام کرنے میں خاص توجہ مرکوز کی جائے،کیوں کہ اگر ان طلبہ کے لئے مدارس ہی میں انتظام نہ کیا گیا تو یہ طلبہ اپنے شوق کے باعث مدارس سے باہر جائیں گے جس سے کئی طرح کے نقصانات ہوں گے۔اس لئے اہل مدارس کے لئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ دینی تعلیم کے گھنٹوں میں تو ازن برقراررکھتے ہوئے خصوصی کلاسیس کا انعقاد کریں،اوران طلبہ کو امت کے لئے سب سے بہترین اور کارآمد بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔
خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور 9611021347۔

Comments are closed.