Baseerat Online News Portal

مدارس کو کمزور نہ ہونے دیں!

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

کارگزار جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

گزشتہ سال ہندوستان میں جب کورونا کی وباء آئی تو مارچ کا مہینہ تھا، اپریل کے مہینہ میں رمضان المبارک شروع ہوگیا اور کئی مہینے شدت کے ساتھ یہ وباء مسلط رہی، کاروبارِ زندگی تھم سا گیا، ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا، خاص کر رمضان المبارک اور عید الفطر کی مناسبت سے جو خریدوفروخت ہوا کرتی تھی،وہ بہت زیادہ متأثر ہوئی، تاجروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑا نقصان دینی مدارس کے وسائل کا ہوا، دینی مدارس کی آمدنی کے دو بنیادی ذرائع تھے، ایک: بقرعید میں چرم قربانی ، دوسرے: رمضان المبارک میں زکوٰۃ ، چرم قربانی کی آمدنی تو کئی سال پہلے ہی سے ایک حد تک ختم ہو گئی ہے؛ کیوں کہ چمڑے کی قیمت اس قدر گر گئی ہے یا گرادی گئی ہے کہ اب تو وصول کرنے اور منڈیوں کو پہنچانے کے اخراجات چمڑے کی قیمت سے زیادہ ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بہت سے مدارس نے چرم وصول کرنا چھوڑ دیا ہے۔

گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن نے رمضان المبارک کی آمدنی کو بھی غیر معمولی حد تک متأثر کر دیا، اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اس رمضان المبارک میں گزشتہ کمی کی تلافی ہو جائے گی؛ لیکن ہوا یہ کہ اس سال بھی مارچ ہی سے کورونا کی وباء پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ مسلط ہوگئی، اسفار بند ہو گئے، مدارس کے نمائندے اہل خیر کے پاس پہنچنے سے قاصر ہو گئے، عام طور پر تجار زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، ان کی تجارت بھی توقع کے مطابق نہیں ہوئی، نتیجہ یہ ہے کہ اس سال بھی دینی مدارس کو کما حقہ تعاون حاصل نہیں ہو سکا۔

بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ چوں کہ گزشتہ سال سے مدارس بندرہے اور بہ ظاہر اس سال بھی چند ماہ کے بعد ہی کھل سکیں گے؛ اس لئے مدارس کا تعاون کیوں کیا جائے؟ مگر یہ صحیح نہیں ہے، مدارس کے بجٹ کا بڑا حصہ مطبخ اور اساتذہ وعملہ کی تنخواہوں کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ بجلی پانی صفائی ستھرائی حفاظتی عملہ ان سب پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے، ان میں سے صرف مطبخ کے اخراجات اس صورت حال میں کم ہوئے ہیں، بقیہ سارے اخراجات اپنی جگہ قائم ہیں؛ اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ مدارس کو اس وقت تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔

ضرورت ہے کہ مسلمان مدارس کی اہمیت کو محسوس کریں،دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا ، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا ، ایشیاء اور یورپ میں متعدد ممالک ہیں جہاں یہ کیفیت پیش آئی او راس میں شبہ نہیں کہ یہ ہماری شامت ِ اعمال اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، عام طورپر جن ملکوں میں مسلمان ان حالات سے دوچار ہوئے، وہاں اسلامی تہذیب کا چراغ یا تو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا ، یا اس کی لَو ایسی مدھم ہوئی کہ وہ نہ ہونے کی درجہ میں ہے ، وہاں لوگ اسلامی تعلیمات اور اپنے مذہبی تشخصات سے ایسے محروم ہوئے کہ ان کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ، انھوں نے کلی طورپر مادیت کے سامنے سر جھکا دیا ، اسپین، مغربی اور مشرقی یورپ کے بعض علاقے اور روس و چین کے مسلم اکثریتی صوبے اس کی واضح مثال ہیں ، اسپین تو اس کی بدترین مثال ہے ، جو کسی زمانہ میں علم و فن اور تہذیب و تمدن کا دارالخلافہ تھا اور عالم اسلام میں اس کی حیثیت کسی تاجِ گہر بار سے کم نہیں تھی ؛ لیکن جب مسلمانوں کا تخت اقتدار پاش پاش ہوا تو اسلامی ثقافت کے تمام ہی نقوش نے وہاں سے رخت ِسفر باندھا اور چند بے جان و بے روح عمارتوں کے سوا جو قصۂ ماضی پر نوحہ کناں ہیں ، ان کی کوئی اور شناخت باقی نہیں رہی ۔

ہندوستان کا معاملہ یقیناً اس سے مختلف ہے ، یہاں یوں تو اسلام ابتدائی عہد میں ہی آچکا تھا اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی ہند وستان کے ساحلی علاقوں تک اسلام کی روشنی پہنچ چکی تھی ؛ لیکن اگر مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو ہند اور سندھ کے علاقہ پر انھوں نے کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی ہے ، اس عہد کو سماجی ارتقاء اور فلاحی اعتبار سے ہندوستان کا ’’ عہد ِ زریں ‘‘ کہا جاسکتا ہے ، افسوس کہ اتنی طویل مدت میں مسلمانوں نے سیاسی اور عسکری مہم جوئی پر جتنی توجہ کی، اسلام کی دعوت و تبلیغ پر اس کا عشر عشیر بھی توجہ نہیں دی؛ ورنہ یقیناً اس ملک کا نقشہ بدلا ہوا ہوتا اور اﷲ کے بندے مسلمانوں کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بناکر رکھتے ، بہر حال ! یہ مسلمانوں کی ایسی کوتاہی ہے کہ شاید ہی اس کا کوئی کفارہ ہوسکے اور آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں، وہ اسی کوتاہی کا نتیجہ ہیں ۔

تاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے تخت و تاج سے محروم ہونے کے باوجود اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھا ہے ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنے مذہب سے جس درجہ کی وابستگی پائی جاتی ہے ، کوئی قوم نہیں جو اپنے مذہب سے اس درجہ وابستہ ہو ، اس گئی گذری حالت میں بھی مسجد کی آبادی اور رمضان المبارک کے اہتمام کو دیکھئے ، زکوٰۃ و انفاق اور کثیر صرفہ کے باوجود حج و عمرہ کی ادائیگی کو سامنے رکھئے اور نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل میں قانون شریعت کے احترام پر نظر کیجئے تو بہ مقابلہ مسلمانوں کے دوسری اقوام میں ایک فیصد بھی اپنے مذہب پر عمل کا اس درجہ اہتمام نہیں ملے گا ، کسی اور قوم میں افتاء اور قضاء کے ادارے نہیں ہیں ، جہاں لوگ اپنے معاملات ، کاروبار اور نجی زندگی کے بارے میں بھی درست و نادرست اور حلال و حرام کے بارے میں استفسار کرتے ہوں ، یہ بہرحال بحیثیت قوم کے مسلمانوں ہی کی خصوصیت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کو اسلام سے مربوط رکھا ہے۔

ہندوستان اور دوسرے ممالک کے تئیں یہ فرق کیوں ہے ؟ گذشتہ ایک صدی میں جو اسلامی تحریکات اٹھی ہیں اور تحریکی شخصیتوں نے جنم لیا ہے ، زیادہ تر ان کا منبع و سرچشمہ ہندوستان ہی ہے ، اس لئے یہ اہم سوال ہے جو سوچنے والوں کو متوجہ کرتا ہے ! اگر غور کیا جائے اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کا جواب ایک ہی ہے، اور وہ ہے دینی مدارس کا نظام ! ہندوستان پر جوں ہی انگریزوں کو غلبہ حاصل ہوا اور اسلام کے خلاف سیاسی اورتبلیغی کوششیں شروع ہوئیں ، تخت و تاج سے بے نیاز اور حکومت و اقتدار کی حرص سے آزاد دردمند اور بلند نگاہ علماء کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ صرف سیاسی مزاحمت سے اس طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں ، اب اسلام کی حفاظت و بقاء کے لئے مثبت تدبیر مطلوب ہے اور اس تدبیر کو انھوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت میں دریافت کیا، جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں بھی علم کی شمع جلاسکے اورہر کچے پکے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں ۔

ہمارے بزرگوں نے مدارس کے اس نظام کو نہایت ہی معمولی اور سادہ حالت میں رکھا، ابتدائی دور میں مدارس کی عمارتیں بہت معمولی تھیں، جو نگاہوں میں چبھتی نہیں تھیں، کم تنخواہیں پانے والے مدرسین و خدام جو سیدھی سادی زندگی بسر کرتے ہوں ، فقیرانہ لباس میں ملبوس طلبہ جن کا سراپا ان کی سادگی اور درویشی پر گواہ ہو ، یہ ادارے مستقل اور قابل بھروسہ مالی وسائل سے محروم ہیں، عام مسلمانوں سے چند روپیوںکی مدد ہی ان کا توشۂ سفر ہے ، مدارس کی یہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سوچتے تھے کہ خس پوش جھونپڑیوں میں رہنے والے بوریہ نشیں اور دنیا کی لذتوں سے محروم اور نابلد لوگ کرہی کیا سکتے ہیں ؟ شعراء اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’ تنگ نظر ملا ‘‘ اور ’’ دو رکعت کا امام ‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ہی درویش مزاج ملاؤں نے اس ملک میں اسلام کے پودے کی حفاظت کی ہے ، انھوں نے عہد بہار سے کوئی صلہ نہیں کمایا ؛ لیکن عہد خزاں میں اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اسلام کے شجر طوبیٰ کو بچایا ، اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا؛ بلکہ اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میںکامیاب ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان میں اسلام سے وابستگی کی جڑیں جتنی گہری ہیں اور لوگوں کے مزاج میں جتنی زیادہ مذہبیت ہے ، عالم اسلام میں بھی کم ہی اس کی مثالیں مل سکیں گی ، اس عجمی نژادملک میں علوم اسلامی کی جو خدمت ہوئی ہے ، اس کی مثال بہت سے عرب اور مسلم ممالک میںبھی نہیں مل پائے گی ، حکومت ختم ہونے کے باوجود لوگوں کے دینی رجحان میں جو اضافہ ہوا ہے ، اس میں بنیادی کردار مدارس ہی کا ہے ، تقریباً گذشتہ ڈیڑھ صدی میں جو بھی تحریک یا جماعت اُٹھی ہے اور اسلام کی حفاظت یا اشاعت کا جو کچھ بھی کام ہواہے ، اس میں ان مدارس اور مدارس سے پیدا ہونے والی شخصیتوں کا بڑا حصہ ہے ، مدارس کی یہ اہمیت جو اس کی ظاہری خستہ سامانی اور سادگی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتی تھی ، اب دوست اور دشمن سب اس کا احساس کرنے لگے ہیں ۔

ہندوستان میں گذشتہ ستر سال سے فرقہ پرستوں کی کوشش ہے کہ مسلمان فکری اورتہذیبی اعتبار سے اکثریت کے ساتھ ضم ہوجائیں ، جس چیز کو آج ’’ ہندو توا ‘‘ کہا جاتا ہے ، اسی مقصد کے لئے ایک زمانہ میں ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں ، بار بار مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل ہوجانے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور ’’بھارتیہ کرن‘‘ کا نعرہ لگاتی تھیں ، اس دعوت کا مقصد بھی اصل میں یہی تھا کہ اب مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے آزاد ہوجائیں اور دوسری قومو ں کی طرح زیادہ سے زیادہ چند مذہبی رسوم کی ادائیگی پر اکتفاء کرلیں ، ان نامسعود کوششوں کو ناکام بنانے کا سہرا دینی مدارس کے سر جاتا ہے ، اس حقیقت کو اربابِ اقتدار نے بھی محسوس کرلیا ہے ، اس لئے دینی مدارس فرقہ پرست طاقتوں کا نشانہ ہیں ، کبھی ان مدارس کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے ، کبھی افغانستان کے طالبان سے ان کا رشتہ جوڑا جاتا ہے ، یہ محض اپنے اندرونی عناد کو چھپانے کے لئے ایک بہانہ ہے ، حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

غرض کہ مدارس اسلامیہ ہماری شہِ رک ہیں، ان ہی سے ہمارا دینی وجود وابستہ ہے، اگر یہ ختم ہو گئے تو عجب نہیں کہ آنے والی نسلیں ایمان کی دولت سے محروم ہو جائیں؛ اس لئے اصحاب خیر کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اس ملی اثاثہ کی اہمیت کو محسوس کریں، اس کو اپنی ضروریات زندگی کا ایک حصہ سمجھیں، جیسے لاک ڈاؤن اور معاشی ابتری کے باوجود ہم اپنے گھر کی کفالت کرتے ہیں، اسی طرح ہم مدارس کو بھی اپنے خاندان کا حصہ تصور کریں،ہر قیمت پر اسے بچائیں اور ان کو کمزور نہ ہونے دیں، اگرچہ رمضان المبارک گزر چکا ہے؛ لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی اور خیر کے کام کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان تجار اور اہل ثروت مدارس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنا دست تعاون بڑھائیں اور اپنے دینی قلعوں کی حفاظت کے لئے پہلے سے بڑھ کر فعال کردار ادا کریں۔ وباللہ التوفیق!
بصیرت فیچرس

Comments are closed.