Baseerat Online News Portal

مذہب نہیں سکھاتا خود اپنی جان لینا

 

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156

اسلام دین فطرت اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والا مذہب ہے، جو ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل پیش کرتا اور مایوس کن حالات میں جینے کا سلیقہ سکھاتا اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔ حد سے زیادہ مایوسی وافسردگی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیںبلکہ اس نے مشکل سے مشکل ترین حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور صبر وعزم اور حوصلے کے ساتھ اس نے نکلنے کی راہ تلاش کرنے کے لئے کہا ہے۔ نفسیاتی ماہرین نے اعتراف کیا اور واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ مصائب ومشکلات کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور نفسیاتی صدمے کے اثرات کو کم کرنے میں اللہ پر ایمان ویقین رکھنے کا بڑا اہم رول ہے۔
انسان کے اندر حالات کے زیر اثر قلق واضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا فطری بات ہے اور یہ ہر انسان کے اندر ہوتا ہے، مگر اللہ کے اوپر ایمان ویقین کی قوت اسے بڑی آسانی سے کنٹرول کرلیتی ہے، انسان کا ایمان اگر کامل ومکمل ہو تو وہ ان حالات میں اللہ کی طرف رجوع ہوتا، کثرت سے اللہ کو یاد کرتا، توبہ واستغفار کرتا، اللہ کے سامنے گڑ گڑاتا اور اس سے گلو خلاصی کا طالب ہوتا ہے۔ دین وایمان کی پابندی نفس کی چنگاریوں اور اس کے شراروں کو بجھاتی اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے اور گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہے، اسی طرح جب انسان کے اندر بے چینی پیدا ہوتی ، مایوسی کے بادل چھا جاتے یا زندگی سے بیزاری کے دیگر اسباب پیدا ہوتے ہیں، تو اسلامی شعائر جیسے وضوء، نماز روزہ حج وعمرہ ، تلاوت قرآن اور اس طرح کی عبادتیں نفس کو راحت پہنچاتیں ، اسے سکون واطمینان قلبی سے بہرہ ور کرتی اور اس کے اندر جواں مردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی اور اس کے اندر بہتر مستقبل کی امنگ پیدا کرتی ہے، انسان اگر اپنے دین ومذہب کا پابند ہو تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی کے میدان اور اس کے معاملات ومعاشرت میں اس کا دین ومذہب اسے کن باتوں کاپابند بناتا ہے، اس پر اپنی جان کا اور دوسروں سے متعلق کے کیا حقوق وذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جب اس کی نگاہوں میں یہ تعلیمات وہدایات ہوتی ہیں تو وہ اپنی زندگی کو اس کی روشنی میں منضبط ومنظم کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے، وہ باہمی نزاعات اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے اور حقوق کی ادائیگی پر اپنی توجہ مرکوز کرلیتا ہے جس سے ایک خوشگوار ماحول بنتا، باہمی تعاون کا جذبہ پروان چڑھتا اور سماج کے تمام افراد کے حقوق خود بخود محفوظ ہوجاتے ہیں جس سے انسان اپنے اندر فرحت وانبساط محسوس کرتا اور خود کشی کے جو اسباب وعوامل تھے وہ غیر محسوس طور پر ختم ہوجاتے ہیں، نفسیاتی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی رجحان کا فقدان اور مذہبی اقدار سے دوری ہی بیشتر نفسیاتی اضطراب وبے چینی اور طرز عمل کی بے اعتدالی کی بنیادی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر شراب نوشی یا منشیات کے استعمال کا عادی اور بے راہ روی کا شکار انسان ہی عام طور پر مجرمانہ کاروائیاں انجام دیتا ہے جو شخص جھوٹ وکذب بیانی کا عادی ہو ، مکر وفریب کا سہارا لیتا ہو، دروغ گوئی وفراڈ کا خوگر ہو ، دھوکہ دہی چوری لوٹ مار غصب اور نفاق وچالبازی اس کا وطیرہ ہو تو ایسا شخص ہی عام طور پر نفسیاتی بے اطمینانی اور ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو کر مایوسی کا شکار ہوتا ، پھر آگے چل کر خود کشی کا اقدام کرتا ہے جو لوگ مذہبی ماحول اور دینی پرکیف وپربہار فضائوں سے کنارہ کش اور الحاد ولادینی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ان کے لئے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونا اور یاس وقنوط کا شکار ہوکر خود کشی کے تاریک غار میں داخل ہونا آسان ہوتا ہے۔
خود کشی کرنا اسلام میں گناہ کبیرہ ہے۔ شیطان دلوں کے اندر جو وسوسے ڈالتا یا جن مشکلات کا انسان کو سامنا ہوتا ہے، اس کا حل اپنے آپ کو ختم کرلینا نہیں ہے، مرنے کے بعد اگر حساب وکتاب نہ ہوتا تو لوگ بڑی آسانی سے اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیا کرتے، مگر چونکہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا ہے، حساب وکتاب ہے، جزا وسزا ہے، قبر اور اس کی تاریکی ہے، پل صراط اور وزن اعمال ہے، پھر جنت وجہنم ہے، اس لئے اسلام نے خود کشی یا اپنے جسم کے کسی حصے کو تلف کرنے یا اسے ناکارہ ومعطل کرنے یا کمزور کرنے کو حرام قرار دیا اور اس سے سختی سے منع کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے، جو شخص یہ کرے گا، سرکشی اور ظلم سے ، تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریںگے اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ (النساء: 30-29ٌ)
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:
اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرہ: 195)
ایک جگہ ارشاد ہے:
اور جو کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ نے منع کردیاہو بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا، اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا، اور وہ ذلت وخواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ (الفرقان:69-68)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلعم نے ارشاد فرمایا :
جو کوئی اپنے آپ کو کسی لوہے (ہتھیار) سے قتل کرے گا، تو اس کا وہ دھار دار لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں چبھاتا رہے گا جہنم کے اندر ‘ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جس نے زہر پی کر اپنی جان لی تو وہ جہنم کی آگ میں اس کا گھونٹ پیتا رہے گا، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اور جو کوئی پہاڑ سے خود کو گرا کر اپنی جان لے گا تو وہ اسی طرح جہنم میں خود کو پہاڑ سے گراتا رہے گا، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ (صحیح مسلم)
اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ
جس نے اپنا گلا گھونٹ کر (پھانسی لے کر) جان دی تو وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا، اور جس نے خود کو چھرا گھونپ کر قتل کیا تو وہ جہنم میں اسی طرح خود کو چھرا گھونپتا رہے گا۔ (صحیح البخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
کہ ہم رسول اللہ صلعم کے ساتھ غزوئہ خیبر میں شریک تھے تو رسول اللہ صلعم نے اسلام کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص کے بارے میں فرمایا کہ یہ جہنمی ہے، جب جنگ شروع ہوئی تو اس شخص نے بڑی بہادری وجوانمردی سے سخت قتال کیا، اسے بہت زخم آئے، ایک صحابی رسول نبی کے پاس آئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی صلعم آپ نے جس کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو اللہ کی راہ میں میری بڑی جانبازی سے سخت قتال کیااور اسے بہت زخم بھی لگے ہیں، تو اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا یقینا وہ جہنمی ہے۔ قریب تھا کہ کہیں بعض مسلمان اس بارے میں شک میں پڑ جاتے، تو اسی حال میں کہ وہ اسی طرح لڑ رہا تھا کہ اس کے زخم کی تکلیف میں شدت پیدا ہوگئی، تو اس کی تاب نہ لا کر اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اس سے خود کشی کرلی، بہت سے مسلمان بھاگتے ہوئے رسول اللہ صلعم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ کی بات سچ ثابت ہوئی ، اس شخص نے خودکشی کرلی، تو رسول اللہ صلعم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ اے بلال! اٹھو اور اذان دو یعنی اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن داخل ہوگا، اور اللہ اس کے دین کی تائید ونصرت فاسق وفاجر شخص سے بھی فرمائے گا۔ (بخاری)
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا جو شخص دنیا میں جس چیز سے اپنے آپ کو قتل کرے گا، اسی سے اسے آخرت میں عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری حدیث نمبر 5700 مسلم 110)
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص کو زخم لگا تو وہ اس پر واویلا مچانے اور جزع وفزع کرنے لگا، پھر اس نے چھری لیا اور اس سے اپنے ہاتھ کو کاٹ لیا جس سے اس کا خون بہتا رہا، اور بند نہیں ہوا، یہاں تک کہ وہ مرگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے میرے پاس آنے میں جلدی کی ، اس لئے میں نے جنت اس پر حرام کردی۔ (بخاری 3276، مسلم 113)
یہ خود کشی کا انجام ہے، مسلمانوں کو جاننا اور سمجھنا چاہیے کہ خود کشی کا مطلب ہے اللہ کے فیصلوں اور اس کے قضا وقدر پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا، اس سے خوش نہ ہونا، اس پر نہ راضی رہنا، اور نہ اس کی جانب سے دی گئی مصیبت وتکلیف پر صبر کرنا بلکہ اس سے بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے ذریعہ وہ اللہ کے حق پر دست درازی کرتا اور اس کے حق کے ساتھ کھلواڑ وزیادتی کرتا ہے، کیونکہ جان انسان کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ یہ اللہ کی ملکیت ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اسے اپنی عبادت کے لئے تیار ومامور کیا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جان کو ناحق نقصان پہنچانے ، تلف کرنے اور اس میں ایسا تصرف کرنے سے جس سے اسے ضرر پہنچتا یا ہلاکت سے دو چار ہوتا ہو حرام کردیا ہے۔ انسان کو اس میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں بلکہ اسے اس کی حفاظت کرنے کا مکلف بنایا ہے، اس کے علاوہ خود کشی ضعف ایمانی کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ خود کشی کرنے والا گویا اللہ کے حکم کو ماننے اور تسلیم کرنے سے انکار کرتا اور اپنے معاملہ اور اپنی شکایات کو اللہ کے سامنے رکھنے سے روگردانی کرتا ہے۔
خود کشی مسائل کا علاج نہ کبھی تھا نہ ہے ، بلکہ یہ حرام ہے ، چاہے جس شکل میں بھی ہو ، مسائل ومشکلات اور الجھن وپریشانی خواہ کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو یہ اس کی دوا اور اس کا حل نہیں ہے، بلکہ یہ ایسی خطرناک بیماری ہے جو انسان کو جنت سے محروم اور جہنم کا ایندھن بنا دیتی اور اللہ کی ناراضگی وغضب کی مستحق بنا دیتی ہے ، اللہ کے نبی صلعم نے فرمایا ہے ،
تداوو ولا تداوو بالحرام ، علاج کرو، مگر حرام چیزوں اورناجائز طریقوں سے علاج مت کرو۔
ان آیات واحادیث سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ آخر اسلام نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے سے کیوں منع کیا اور اسے کیوں اتنی بری نگاہ سے دیکھا اور اس پر سخت سزائوں کی وعیدیں سنائی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ روح جس سے بدن کے اندر جان اور حیات رہتی ہے ، یہ انسان کی ملکیت نہیں بلکہ یہ خالق ومالک کی ملکیت ہے، اسی لئے مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس میں ایسا تصرف کرے جس سے اسے نقصان پہنچتا ہو چہ جائے کہ وہ اس زندگی ہی کا خاتمہ کردے، اسی لئے ہماری شریعت میں ایسے کھیل کود اور اسپورٹز بھی ناجائز ہیں جس میں جان کو خطرہ ہو، گاڑیوں کی ریسنگ ، نہایت بلندی سے چھلانگ لگانے اور خطرناک قسم کے مقابلے کی اجازت نہیں کیونکہ ان مقابلوں میں پہلے سے علم ہے کہ اس میں اس کی جان جا سکتی ہے، جس سے اسے یا امت مسلمہ کو یا سماج کو یا وطن کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں، سوائے اس کے کہ اگر وہ جیت گیا تو اس کی واہ واہ ہوگی یا کچھ پیسے مل جائیںگے اور اگر مرگیا تو اپنی موت مرگیا کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ اس میں نہ تو دین کا دفاع ہے، نہ ملک وسرزمین وطن کا ، نہ احقاق حق ہے نہ ابطال باطل، بلکہ صرف ناموری ، شہرت اور نفس کی تسکین کا جذبہ ہے۔
ہاں انسان اگر خطرات سے کھیلتا اور ایسا عمل کرتا ہے جس میں جان جانے کا خطرہ ضرور ہے مگر وہ اپنے دین وایمان یا سرزمین وطن کی حفاظت کے لئے یا اپنی یا کسی کی آبرو بچانے کیلئے یا حق کو ثابت کرنے اور باطل کا قلع قمع کرنے کے لئے یا اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ہے تو یہ خود کشی نہیں بلکہ محمود ہے جس پر اسے اجر وثواب ملے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسانکے اندر فطری طور پر یہ قدرت رکھ دی ہے اور ایمانی قوت اس کی آبیاری کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنی مشکلات وپریشانیوں ، دشواریوں اور رکاوٹوں کو جھیل سکتا وعبور کرسکتا، اورپیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرسکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے متاثر ہو کر اپنی جان کو نقصان پہنچانے یا اس کا خاتمہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ سختی سے منع کیاہے۔ جس کا ایمان کامل اور اللہ پر اس کا بھروسہ پختہ ہوتا ہے وہ ہر حال میں اپنے خالق ومالک پر بھروسہ کرتا اور حالات کی نزاکتوں اور اس کی ستم ظریفیوں کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی آزمائش ہے، اللہ اس کے ذریعہ اس کے ایمان کو نکھارنا چاہتا، اس کے صبر اور برداشتکو ناپنا چاہتا، اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلہ پر کس قدر راضی ہے یا نہیں ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا ہے:
مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کا سارا معاملہ خیر ہی خیر ہے۔ اور یہ صرف اسی کو حاصل ہوتا ہے جو پکا سچا مومن ہو( اور اس کا یقین واعتماد صرف اللہ پر ہو،) اسے اگر تکلیف وضرر اور مصیبت پہنچتی ہے ، پھر وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے خیر ہے، اور اگر اسے خوشی وآسودگی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر اللہ کا شکر بجا لاتاہے تو یہ بھی اس کے لئے خیر ہے۔ (صحیح مسلم)
اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنا حوصلہ جواں رکھیں، کبھی مایوسی وقنوطیت کو اپنے اندر در آنے کی اجازت نہ دیں اور خود کشی کے جو اسباب وعوامل ہیں اسے اپنے اندر پنپنے نہ دیں، اگر کبھی شیطانی وسوسہ سے متاثر ہو کر اس طرح کے خیالات دل ودماغ میں پیدا ہوں تو توبہ واستغفار کریں ، اللہ کی طرف رجوع ہوں اور اس کے بارے میں جو اسلامی تعلیمات وہدایات ہیں اسے مد نظر رکھیں اور اللہ پر مکمل بھروسہ واعتماد رکھیں وہی بہتر کار ساز ہے۔

Comments are closed.